آج – 6؍جون 2008
پاکستانی غزل گو اور معروف شاعر” صادقؔ نسیم صاحب“ کا یومِ وفات…
نام سردار غلام صادق خاں اور تخلص صادقؔ تھا۔ 24؍ستمبر 1924ء کو ٹیکسلا کے قریب موضع خرم میں آنکھ کھولی۔ والد سے فارسی پڑھی۔ بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ خاندانی روایت کے مطابق فوج میں بھرتی ہوگئے اور محکمۂ دفاع سے منسلک رہے۔ صادق نسیم غزل گو شاعر ہیں۔ فارسی شعروادب کا خاص ذوق رکھتے ہیں۔ صادقؔ نسیم، 6؍جون 2008ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ راولپنڈی کے فوجی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
ان کی غزلوں کا مجموعۂ ’’ریگ رواں‘‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں:
’حرف صادق‘، ’روشنی چراغوں کی‘ (شخصی خاکے)، ’انتخاب صادق‘ (شعری مجموعہ)، ’خاک مدینہ ونجف‘، ’نعت ومنقبت‘ (غیر مطبوعہ)۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:167
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
معروف غزل گو شاعر صادقؔ نسیم صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
جب بھی تری قربت کے کچھ امکاں نظر آئے
ہم خوش ہوئے اتنے کی پریشاں نظر آئے
—
زندہ رہنے کے تھے جتنے اسلوب
زندگی کٹ گئی تب یاد آئے
—
تمہارا نام کسی اجنبی کے لب پر تھا
ذرا سی بات تھی دل کو مگر لگی ہے بہت
—
اپنی آنکھوں سے تو دریا بھی سراب آسا ملے
جو بھی نقد جاں لٹانے آئے ہم سے آ ملے
—
اس اہتمام سے پروانے پیشتر نہ جلے
طواف شمع کریں اور کسی کے پر نہ جلے
—
ہر شخص کو ایسے دیکھتا ہوں
جیسے کہیں دور جا رہا ہوں
—
چراغِ ماہ کے بجھنے پہ یہ ہوا محسوس
نکھر گئی مری شب تیرے گیسوؤں کی طرح
—
ہر عکسِ مقابل سے نمایاں ہے مرا نقش
دنیا میں ہوں یا آئنہ خانے میں کھڑا ہوں
—
یہی نہیں کہ فقط تری جستجو بھی میں
خود اپنے آپ کو پانے کی آرزو بھی میں
—
عظمتِ فکر کے انداز عیاں بھی ہوں گے
ہم زمانے میں سبک ہیں تو گراں بھی ہوں گے
—
تمہارا نام کسی اجنبی کے لب پر تھا
ذرا سی بات تھی دل کو مگر لگی ہے بہت
—
مجھے نوید جدائی سنانے آیا تھا
جدا ہوا تو مری سمت دیکھتا بھی گیا
—
رشکِ مہتاب جہاں تاب تھا ہر قریۂ جاں
جب بھی دل پر چمک اٹھے ترے قدموں کے نشاں
—
سکوتِ مرگ میں کیوں راہِ نغمہ گر دیکھوں
میں خود ہی ساز کی مانند ٹوٹ کر دیکھوں
—
نظر میں تیرے ہر انداز کو سجائے ہوئے
مثالِ آئینہ بھی میں لہو لہو بھی میں
—
یوں تو ہر ایک شخص ہی طالب ثمر کا ہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ جسے غم شجر کا ہے
—
کس منہ سے زندگی کو وہ رخشندہ کہہ سکیں
جو مہر و ماہ کو بھی نہ تابندہ کہہ سکیں
—
بیدلؔ کا تخیل ہوں نہ غالبؔ کی نوا ہوں
اس قافلۂ رفتہ کا نقش کفِ پا ہوں
—
صادقؔ مجھے منظور نہیں ان کی نمائش
ہر چند کہ زخموں کا خریدار تو ہوں میں
—
صادقؔ کی نگاہوں کو ہی ٹھہراؤ نہ مجرم
آئینے ہر اک دور میں حیراں نظر آئے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
صادقؔ نسیم
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ