پیارے بچو!! حضرات صحابہ میں سے ایک صحابی بیمار ہوئے اور بہت کمزور ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کیلئے تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بہت کمزوری ہے اور حالت نزع طاری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت کو دیکھ کر بہت ہی نوازش اور ہمدردی کا اظہار فرمایا،
بیمار صحابی نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو خوشی سے نئی زندگی محسوس کی اور ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی مردہ اچانک زندہ ہو جائے،
بیمار صحابی نے کہا کہ اس بیماری نے تو مجھ کو خوش نصیب اور خوش قسمت بنادیا کہ جس کی بدولت میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم میری امداد کیلئے تشریف لے آئے اور عیادت فرما رہے ہیں، اس صحابی نے مزید کہا۔۔۔ اے میری بیماری اور بخار و رنج اور ان درد راتوں کا جاگنا تجھے مبارک ہو کہ تو ہی سبب ہے اس وقت کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو میرے پاس تشریف لائے اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔ تمہیں یاد ہے تم نے ایک بار صحت کی حالت میں کیا دعا کی تھی؟
ان بیمار صحابی نے کہا مجھے تو یاد نہیں آتا کہ کیا دعا کی تھی لیکن کچھ ہی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ان کو وہ دعا یاد آگئی اور عرض کیا یارسول اللہ مجھے وہ دعا یاد آگئی اور وہ دعا یہ تھی ۔۔ میں اپنے اعمال کی کوتاہیوں اور خطاؤں کے پیش نظر یہ دعا میں کیا کرتا تھا اے اللہ وہ عذاب جو آخرت میں آپ دیں گے وہ دنیا ہی میں مجھے دے دیں تاکہ آخرت کے عذاب سے فارغ ہو جاؤں اور یہ درخواست اب تک میں کرتا رہا یہاں تک کہ یہ نوبت آگئی کہ مجھ کو ایک شدید بیماری نے گھیر لیا اور میری جان اس تکلیف سے بے آرام ہوگئی اور اس بیماری کے سبب میں اپنے ذکر اور ان وظیفوں سے جو صحت کی حالت میں میرے معمولات تھے، عاجز اور مجبور ہوگیا اور اپنے رشتہ دار ہر نیک و بد سے بے خبر پڑا ہوں،
اس مضمون دعا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ آئیندہ کبھی ایسی دعا مت کرنا کیونکہ اس طرح کی دعائیں آداب بندگی کے خلاف ہیں کیونکہ ایسی دعا مانگنا گویا خدا وند کے سامنے دعویٰ کرنا ہے کہ ہم آپ کی بلا و عذاب کو برداشت کرسکتے،
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نصیحت فرمائی کہ اے مخاطب تو کیا طاقت رکھتا ہے کہ تجھ جیسی بیمار چیونٹی پر خدا وند تعالیٰ ایسا بڑا پہاڑ اپنی بلا کا رکھ دیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس طرح آداب دعا سکھائی، فرمایا جب دعا کیا کرو تو اس طرح کرو۔ ۔۔ اے اللہ میری پریشانی کو آسان کردیجئے تاکہ خدا تمہاری مصیبت کے کانٹے کو گلشن راحت سے تبدیل فرما دے اور اللہ سے کہو کہ اے اللہ دنیا میں بھی مجھے بھلائیاں عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائیوں سے سرفراز فرما،
فائدہ۔۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ سے مصیبت کی دعا نہ مانگے ہمیشہ دونوں جہاں کی عافیت مانگتا رہے اور اپنے رب کے سامنے اپنی عاجزی و بے بسی کا اقرار کرتا رہے، مثلاً اگر کسی شخص کو بری نگاہ کی بیماری ہے تو اس کی صحت و اصلاح کیلئے دعا کرے اللہ والوں سے علاج معلوم کرے اور ان سے بھی دعا کی درخواست کرے، مگر کبھی پریشان ہو کر یہ نہ کہے، یا اللہ۔ یہ بیماری تو میری اچھی نہیں ہوتی اس سے بہتر تو مجھے اندھا ہی کردے تاکہ آنکھو سے گناہ نہ ہو، اس طرح کی دعا جہالت ہے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے بلاؤں سے بچو اور اللہ تعالی سے عافیت کا سوال کرو،
نوٹ۔۔ اس پیغام کو اپنے بچوں تک ضرور پہنچائیں
معنی کے کیا معنی ہیں؟
پشاور پختون خوا سے عثمان علی کا اصرار ہے کہ انھیں بتایا جائے: ’’معنی کے کیا معنی ہیں؟‘‘ سوال سن...