(Last Updated On: )
یہ اجل کو کیسی عجلتیں کہ خزاں کے آنے سے قبل ہی
وہ جو خود پیام ِبہار تھا، اسے جام مرگ پلا دیا
یہ جو راستوں میں ہجوم ہے، یہ عقیدتوں کی جو دھوم ہے
یہ اسی کی ذات کا سحر ہے تہہ خاک جس کو سُلا دیا
اتوار، یکم ستمبر 2013ء صبح آٹھ بجے کے قریب ’’چاچڑاں‘‘ کی مساجد سے نشر ہونے والا ایک اعلان ِعام،اس کے مکینوں اور باشندوں پر ایسا ناگہانی بم بن کر پھٹا کہ جوان کے کانوں میں خراش ڈالتا، سماعتوں کو چیرتا، ذہنوں کو مجروح، دلوں کو گھائل کرتا اور روحوں کو زخمی کرتا، ہلچل مچاتا چلا گیا۔ یوں کہ جیسے
محبت کھو رہی ہے اپنی بینائی
کسی سے کہہ دو کہ یوسف کا پیرہن لائے
پُرملال نشریے نے کوچہ کوچہ، قریہ قریہ، کُو بہ کُو صف ِماتم بچھا دی تھی۔ آہ وہ فغاں، غم و اندوہ اور یاس و حسرت میںڈوبی صدائوں نے فضائے شہر کو بوجھل کر ڈالا تھا۔ بلاتخصیص مرد و عورت اور چھوٹوں بڑوں کے یکساں ایک کہرام بپا تھا۔ گویا زبان حال سے پوچھ رہے ہوں کہ
کیوں پیار بھرا عہد وفتا توڑ دیا؟
کیوں گلے موت سے ملتے ہی چھوڑ دیا
کیا یہی پیار بھرا عہد ِوفا تھا تیرا
بے وفا ایک ہی ہچکی میں جسے توڑ دیا
ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اس المیہ خبر کی تحقیق و تصدیق کر رہا تھا کہ کیا علم کا چراغ بجھ گیا؟ مینار ِادب گر گیا؟ کیا یتیموں کا مسیحا، بے کسوں کا سہارا اُٹھ گیا؟ کیا غریب و مزدور کا ترجمان وہ شہر ِدرد کا شاعر، شہر کو ویران کر گیا ہے؟ کیا جوش ِخطابات اور زور ِدلائل سے بام و در ہلا دینے والا مقرر، الفاظ کی جگہ موتی تراش کر رکھ دینے والا ادیب، لاجوان کاتب، بے مثل خطاط اور نڈر صحافی واقعتاً ہمیں داغ ِمفارقت دے گیا ہے؟ وہ جو اپنے شاگردوں کی خاطر مضمون نویسی کر کے انہیں صوبہ کی سطح پر انعام و اکرام دلوانے والا بے لوث مضمون نگار تھا اور وہ جو طلبہ و طالبات کو اپنی محنت شاقہ سے تعلیمی بورڈ میں اولین پوزیشنوں تک پہنچانے والا باصلاحیت استاد تھا واقعی لقمہ ٔاجل بن گیا ہے؟
بالآخر ان کے گھر کی طرف لپکتے، دوڑے چلے جانے والے اور باہر جمع ہو جانے والے لوگوں کا جم ِغفیر اور انبوہ ِ کثیر کو گھر سے بلند ہونے والی آہ و بکار کے ذریعے اپنی محبوب شخصیت مسعود اشعرؔ صدیقی کی وفات ِحسرت آیات کی سنتے کانوں اور دیکھتی آنکھوں سے یقینی خبر مل ہی گئی۔ آہ
کڑے سفر کا تھا مسافر، تھکا ہے ایسا کہ سو گیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کر لیں، ہر آنکھ لیکن بھگو لیا ہے
اس سانحہ ارتحال سے شہر کے ہر محلہ اور گلی کوچہ میں آہوں، سسکیوں اور ہچکیوں کا تانتا بندھ گیا۔کئی طلباء و طالبات غم سے نڈھال ہو کر بے ہوش ہو گئے اور ان کے ہم عمر و ہم عصر رفقاء آنسو بہاتے اور بلکتے نظر آئے۔ مرگ ِاشعرؔ پر بپا شہر کے پُرملال منظر نے یہ شہادت ثبت کر دی کہ یہ مرگ کسی ایک گھرانے کی نہیں بلکہ ہر دل عزیز فرد کی تھی، شہر کا ہر باشعور شخص یوں باور کر رہا تھا کہ گویا
تجھ سے بچھڑ کر یوں لگا، خود سے بچھڑ کر رہ گیا
تجھ کو رہائی کیا ملی، زنداں اجڑ کر رہ گیا
مسعود اشعرؔ کا جنازہ شہر کے ان چند جنازوں میں شامل تھا جو جم ِغفیر اور انبوہ ِکثیر کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ سوگوار لوگوں کا اژدہام بار بار ان کا آخری دیدار کیے جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ ان کے چہرے پر پھیلے ہوئے نور کی بھی گواہی دے رہا تھا۔ جیسے
بعد مرنے کے وہ لگتا تھا بہت ہی مطمئن
بعد مدّت جیسے کوئی غم کا مارا سو گیا
ان کی مثال شہر کے چراغ کی سی تھی۔ چراغ کا کام روشنی بکھیرنا ہے۔ روشنی اندھیروں کو بھگاتی اور جہالت و ظلمت کی تاریکیوں کو علم و معرفت کے اجالوں میں بدلتی ہے۔ نور عروج و سر بلندی اور خوش بختی کا سرچشمہ ہوتا ہے اور مسعود اشعرؔاپنے کردار، گفتار، علم اور عمل سے، بلاتفریق اپنے پرائے ک، چھوٹے بڑے کے، جاہل اور پڑھے لکھے کے الغرض بچے، بوڑھے اور مرد و عورت کے سبھی میں اپنی خداداد صلاحیتوں سے علم ک ا نور بانٹتے رہے اور زیور ِتعلیم سے آراستہ کرتے رہے۔ تدفین کے لیے کلمۂ شہادت کے فلک شگاف ورد میں جب ان کا جنازہ اٹھا تو
یا رب سب رو دئیے، بحر و بر رو دئیے
چڑھ کے کندھوں پہ جب وہ روانہ ہوا
آگے آگے مسافر کی بارات تھی
پیچھے پیچھے زمانہ تھا روتا چلا
قبرستان پہنچ کر ان کے چاہنے والوں، رشتہ داروں، دیوانوں، فرزانوں اور ماتم کرنے والوں نے ان کی خدمات اور صلاحیتوں کے شایان ِشان ان کی میت کو پھولوں کی سیج میں سُلا کر، اشکوں میں گُندھے فلک کے تاروں کے ہار پہنا کر اور سر پر چاند کا تاج سجا کر حیا کے اس خوگر، ہر فن کے پیکر، شہر ِدرد کے دلہا شاعر اور علم و ادب کے چراغ کو تہہ خاک اندھیرے میں رکھ دیا تاکہ ؎
اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے
مسعود اشعرؔ صدیقی دور ِطالب علمی ہی میں اپنی منفردشاعری اور پُرجوش خطابت کے سبب نامور ہو گئے تھے۔ کالج کے زمانہ میں پروفیسر نردوش ترابی سے اصلاح لی، ان کا تبادلہ ہوا تو استاد خلیق ملتانی مرحوم کی باقاعدہ شاگردی اختیار کر لی۔ پھر عملی زندگی میں قدم رکھا تو بھی شاعری سے ناطہ نہ ٹوٹا۔ اسی ذوق ِسلیم کے طفیل جناب قتیل شفائی، احسان دانش، حبیب جالب اور دلاور فگار سے علمی ادبی نشستیں رہیں اور ان نے راہنمائی لیتے رہے۔ وہ عمر کے مختلف ادوار میں جن حالات و تجربات سے گزرے اور دل و دماغ پر اس کے اثرات مرتب ہوئے وہ زندگی کا حاصل سمجھتے ہوئے موضوع ِسخن بناتے رہے، گویا کہ ان کا کلام ان کی آپ بیتی ہے۔ آخری ایام میں گاہے گاہے اپنے ملنے والے دوستوں، شاعری کے قدر دانوں اور شاگردوں کی خواہش پر انہیں کلام شاعر بزبان ِشاعر سناتے تو ان کا اصرار ہوتا کہ خون ِجگر سے کشید شدہ اس شعری کاوش کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور کتابی شکل و صورت میں افادہ عام کے لیے منظر ِعام پر لایا جائے ۔ جن کٹھن حالات میں شاعر کی زندگی گزری، کتاب کا عنوان انہی حالات و واقعات کی بجا طور پر غمازی کر رہا ہے۔ پھر جس شعر سے
جو درد بخشے جہاں نے مجھ کو، انہی کا ردِّعمل ہے سارا
یہ زخم سوچیں، یہ زہر لہجے، یہ طرز ِوحشت قبول کر لو
عنوان منتخب کیا گیا وہ ان کی شاعری کا احاطہ و تشریح کرتا نظر آتا ہے۔ میرے لیے ان کی شاعری پر رائے دینا ایسے ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا۔ مگر جب درخت نہ رہیں تو کنڈیروں کو بھی درخت ماننے والی مجبوری یہاں آڑے ہے۔ لہٰذا ’’اندھوں میں کانا راجہ‘‘ کے مصداق قلم کا تیشہ چلانا ہی پڑ رہا ہے۔ میرے نزدیک ان کی تمام شاعری ان کی ذاتی شخصیت کا پرتو ہے۔ ذاتی اوصاف کے مطابق ان کا اسلوب ِشاعری بھی تصنع و بناوٹ اور دکھاوے کی علمی وجاہت سے پاک ہے۔
وہ بالکل عام فہم، سلیس و سادہ اور واں فطری انداز میں اشعار کہتے اور دل و دماغ کو متاثر کرتے چلے جاتے ہیں۔ مسعود اشعرؔ صدیقی کی شاعری گہرے سماجی و معاشرتی شعور پر مشتمل ہے۔ وہ اپنے اشعار میں غریب دوستی کا دم بھرتے،مظلوم طبقہ کی حمایت کرتے، مزدور کو بغاوت پر اکساتے اور استحصالی بالائی طائفہ کے مقابل مزاحمت کرتے نظر آتے ہیں۔ محروم افراد کے لیے ان کے کلام میں درد و کرب جھلکتا ہے لیکن انہیں امید بھی دلاتے ہیں۔ وہ وطن سے محبت، اصلاح ِذات کا درس، علم کی اشاعت کا پیغام، ظلم کے خلاف جرأت اور غربت کے مقابل محنت کرنے اور خود داری اپنانے کی تلقین و ہدایت کرتے ہیں۔ احسان فراموشی کو ناپسند کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حالات ِحاضرہ پر ان کی طنزیہ نظر بھی ہے۔
کچھ نمونہ ٔکلام
اے شہر ِنگاراں کے مکیں غور سے سن لو ہم لوگ غریبوں کی حمایت کے طرف دار رہیں گے
٭…٭
وطن ہے تو اپنی بھی دنیا رہے گی وگرنہ تو بلبل، نہ نغمہ کہے گی
٭…٭
دھرتی پہ ظلمتیں ہیں ستارے اتار دے اشعرؔ یہ کہہ رہے ہیں ترے آسماں سے ہم
اشعرؔ قریب المرگ ہو عیبوں پہ اپنے کر نظر
٭…٭
اشعرؔ ہمارے دیس کا دستور ہے عجب آگے ہیںحاکم غیب سے بھگوان کی طرح
٭…٭
آنگن آنگن بھوک اگی ہے، قریہ قریہ فاقے ہیں جی اللہ جانے اس عالم میں کب بدلے گا زردار کا موسم
٭…٭
علم بنا انسان، یہ سچ ہے خود سے بھی انجان ہے یارو
٭…٭
میرے لائق و ہنر مند مرحوم بھائی مسعود اشعرؔصدیقی کی اپنی حیات میںاشاعت ِکتاب کی خواہش تو بنی لیکن افسوس کبھی بیماری تو کبھی معاشی حالات آڑے آئے اور کبھی علمی مشغولیت کے سبب عدیم الفرصتی رکاوٹ بنی۔ ان کی خواہش ابھی خواہش ِناتمام اور تشنۂ کام ہی تھی کہ فرشتہ اجل نے مہلت ِزندگی تمام کر دی۔ ان کی ناگہانی وفات ِحسرت آیات کے سبب میرے بھتیجے برخوردار نعمان کے اوپر ان کے والد کے چاہنے والوں، قدر دانوں، دوستوں اور شاگردوں کا دبائو بڑھ گیا کہ مرحوم کی شاعری کو جلد از جلد کتابی شکل دی جائے۔
٭٭٭
اعجاز احمد صدیقی ( چاچڑاں شریف )
اعجاز احمد صدیقی ( چاچڑاں شریف )