(Last Updated On: )
ڈاکٹر عمر حیات الحسینی بوسن (ملتان)
سجادہ نشین ۔ خانقاہ سہر وردیہ شاہ آباد شریف گڑھی اختیار خاں ، خان پور ضلع رحیم یا رخاں
1947ء تا 13جون 2020ء
اس کی اُمیدیں قلیل
اس کے مقاصد جلیل
اس کی اَدا دل فریب
اس کی نظر دِل نواز
علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری رحمتہ اللہ علیہ 13جون 2020ء کو سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے ۔
اِنا للہ و اِنا الیہ راجعون
ان کی وفات ایک قومی سانحہ ہے اور اس سے ملتِ اسلامیہ کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے ۔ اِ ن کی رحلت سے فقط ان کے صاحبزادگا ن اور خاندان کو ہی دُکھ نہیں ہوا بلکہ تمام اہلِ اسلام کو دلی صدمہ ہوا ہے ۔ اور تمام وابستگان، متعلقین اور علم و اَدب سے تعلق رکھنے والے تمام اہلِ علم کا ناقابلِ تلافی نقصا ن ہوا ہے ۔ وہ کامیاب زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے ۔ وہ ایمانی ، روحانی اور نورانی فکر کے لحاظ سے اُس قافلے کے فرد فرید تھے جو موت کو یوں محسوس کر تے ہیں کہ جنکشن پر ایک گاڑ ی سے اُتر کر دوسری گاڑی پر سوار ہوگئے ۔ وہ اُن بندگانِ خدا میں سے تھے جو زندگی کے مقصد کو بھی سمجھتے ہیں اور دُنیا کو سمجھاتے بھی ہیں ۔ انہوں نے اپنی حیاتِ مستعار کا لمحہ لمحہ بامقصد گزارا ۔ وہ اُن خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جن کی زندگی دوسروں کے لئے نمونہ ہوتی ہے ۔ ان کی جاذب نظر شخصیت کا قال اور حال کے اَنوارات نے گویا کوثرو تسنیم سے دھویا تھا ۔ علم نے ان پر خوش نما غازہ کا عمل کیا ۔ عرفان نے اِن کو نکھار اور وقار بخشا تھا ۔ چنانچہ ان کی شخصیت اور ان کے کام پر پڑنے والی ہر نظر ایک درسِ حیات ثابت ہوتی ہے ۔و ہ منشور کی طرح اَیسی پہلو دار شخصیت کے حامل تھے کہ جس پہلو سے دیکھا جائے اس میں قوسِ قزح کے مانند سب رنگ سمٹتے نظر آتے ہیں ۔ بقول بہادر شاہ ظفر ؎
کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دُکان اپنی بڑھا گئے
وہ ایک عہد اورتاریخ ساز شخصیت تھے ۔ وہ ایک فکر ، اور ایک علم نواز شخصیت تھے ۔ ؎
رفتم و از رفتنِ من عالمے تاریک شُد
من مگر شمعم ، چوں رفتم ، بزمِ برہم ساختم
وہ علم و فن کے مجسم پیکر تھے ۔ وہ مدرسہ و خانقاہ کا حسین امتزاج تھے ۔ ؎
در مدرسہ از جنشِ لعل تو حکایت
در میکدہ از مستی چشمِ تو نشاں اَست
وہ کئی دماغوں کا ایک دماغ تھے ۔ گویا ؎
علم و فن سے عشق تھا جن کی طبیعت کا خمیر
وہ تن تنہا اداروں اور تحریکوں پہ بھاری تھے ۔ اُن کی تحقیقات کے مختلف پہلوئوں اور فکری ابعاد پر اربابِ علم ہر عہد میں پی ۔ ایچ ۔ ڈی کے تھیسز لکھتے رہیں گے ۔ ؎
ڈھونڈو گے ہمیں مُلکوں مُلکوں
ملنے کے نہیں ، نایاب ہیں ہم
وہ علم و عرفان اور تحقیق و تدقیق کا بہتا ہوا در یا تھے ۔ ؎
اس بحرِ بے کنار کا ساحل نہیں کوئی
اُن کا مو قف مضبوط بھی تھا اور سنجیدہ و متین بھی ۔ اُن کا فکری منہج اور اعتقادی رُجحان اپنے اندر اعلیٰ درجے کا اعتدال لئے ہو ا تھا ۔ گویا ؎
اس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جُدا
اس کے اَحوال سے محرم نہیں پیرانِ طریق
علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری ایک مفکر ، ایک ادیب ، ایک محقق ، ایک فقیہ النفس عالم ربانی تھے ۔ وہ یادگارِ اَسلاف تھے ۔ ؎
ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون ؟
اُٹھ گیا ناوک فگن ، مارے گا دل پر تیر کون
احقر خاکسار ایک عرصہ سے ان کی تحقیقات سے استفادہ کر تا چلا آرہا ہے ۔ ان کے تحقیقی شہ پاروں کی گُل گشت نے ہمیں اپنی نوک پبلک سنوارنے میں بڑا اَہم کردار اَدا کیا ہے ؟
بلائے جاں ہے غالب ، اس کی ہر بات
عبارت کیا ، اشارت کیا ، اَدا کیا
ان کے جانے سے پاکستان ہی نہیں پورا عالمِ اِسلام ان کے علمی و روحانی فیض سے محروم ہو اہے ۔ ؎
شیر مردوں سے ہوا پیشہ تحقیق تہی
علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری نابغہ روزگار شخصیتوں میں سے ایک تھے کہ جن پر اہلِ علم وقلم ناز کیا کر تے تھے ؎
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا اہے اندازِ بیاں اور
وہ پیکرانِ صدق و صفا قافلے کی آخری نشانی تھے ۔ ؎
جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں
اُن کے علمی ، فکری ، روحانی ، اَدبی ،تحقیقی محاسن پر اہلِ قلم اپنے اپنے انداز میں لکھتے رہیں گے ۔ ؎
میرا ساز گرچہ ستم رسیدۂ زخم ہائے عجم رہا
وہ شہیدِ ذوقِ وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی
علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری ؒ جیسے اَفراد صدیوں میں پید اہوتے ہیں ۔ ؎
صدیوں میں کہیں پید ا، ہوتا ہے حریف اُس کا
اللہ ربّ العالمین کی یہ سنتِ جاریہ ہے کہ جہاں جس چیز کی ضرورت اور ڈیمانڈ ہوتی ہے ، وہاں اُ س کے مطابق چیزیں پید افرما دیتا ہے ۔ مثلاً صحرا اور ریگستان میں بارش بہت کم ہوتی ہے ، کیوں کہ ریگستان کے وجود کے لئے بارش ضروری نہیں ہے ۔ لیکن جنگلات میں بارش ہوتی ہے کیوں کہ درخت اور پودے پانی کے بغیر زیادہ دیر تک زندہ نہیں رَہ سکتے ۔ جن علاقوں میں ٹھنڈک شدت کے ساتھ پڑتی ہے ، رہیں زعفران کی پیداوار ہوتی ہے اور ایسے جانور پائے جاتے ہیں ، جن پر بالوں کی بڑی مقدار ہو ۔ تاکہ ٹھنڈک اور بُرودت سے بچائو کا سامان ہو سکے اور جہاں سخت گرمی کا موسم ہوتا ہے ، وہاں ایسے پھل زیادہ پید اہوتے ہیں ، جو مزاج کے اعتبار سے ٹھنڈے ہوں ۔ اللہ ربّ العالمین کی یہی سنت غالباً افراداور شخصیات کے سلسلہ میں بھی نظر آتی ہے ۔ جس عہد اور زمانے میں اور جہاں جس صلاحیت اورمزاج کی شخصیت مطلوب ہوتی ہے ، اسی کے مطابق مِن جانب اللہ اَفراد مامور کئے جاتے ہیں ۔ قیامِ پاکستان کی دہائی سیاسی ، معاشی ، سماجی ، اخلاقی ، تہذیبی و تمدنی ، معاشرتی اور اعتقادی اورملی و بین الاقوامی سازشوں اور فتنوں کے لحاظ سے بڑی کٹھن نظر آتی ہے ۔
ان حالات میں اللہ ربّ ُ العالمین نے مختلف ملکوں ، مختلف خطوں اور مختلف مقامات پر مختلف محاذو پر حسبِ حال اور حسبِ ضرورت اَفراد کو پید افرمایا ۔ اس دہائی میں پیدا ہونے والی اَہم شخصیات میں سے ایک اَہم شخصیت علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری ؒ کی بھی ہے کہ جن کو اللہ ربُّ العالمین نے خانوادہ نبوت میں پید افرمایا ۔ انہیں بڑے علمی و روحانی ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع عنایت فرمایا ۔ گھر سے لے کر جامعہ اسلامیہ اَنوار العلوم تک اور پھر جامعہ اِسلامیہ بہاول پور کے ماحول میں اُنہیں قر آن و سنت کے غوّاص اور عصری تقاضوں سے باخبر اور زمانہ آگاہ کامل ہستیوں سے اکتسابِ علم کر نے کا وافر موقع عطا فرمایا ۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم اے عربی ، ایم اے اِسلامیات ، ایم اے اُردو کے امتحانات درجہ اَوّل میں پا س کئے اوریونیورسٹی میں پہلی پوزیشن لے کر طلائی تمغہ حاصل کیا ۔ اس دوران انہیں یونیورسٹی کے اندر اور باہر جن ذہین و طبّاع شخصیات سے اخذ و استفادہ کا مو قع ملا وہ اپنے عہد کی ایک تاریخ تھے ۔ ان عبقری صلا حیتوں کی حامل شخصیا ت کی صحبتوں سے علامہ پیر سیّد محمد فارو ق القادری ؒ خوب مُستینر ہوئے ۔
ان کے معاصرین پر اگر نظر ڈالی جائے تو ہمیں دو طرح کے اہلِ علم نظر آتے ہیں ۔ کچھ لوگ وہ ہیں جن کے یہاں وُسعت اور پھیلائو ہے اور کچھ وہ ہیں جن کے یہاں عُمق اور گہرائی ہے ۔ یہ دونوں طر ح کا مذاق کچھ فرق کے ساتھ ہر عہد میں رَہا ہے ۔ مثلاً امام جلال الدین سیوطیؒ اور علامہ سخاویؒ جو ہم زمانہ اور ہم عصر بھی تھے اور اپنے اعلیٰ ذوق اور تالیفات کی وجہ سے معروف بھی ۔ ان کے بارے میں بھی بعض مقام شناس محققین کا تجزیہ یہی تھا کہ ایک کے پاس وُسعت ہے اور دوسرے کے پاس عُمق ۔ اس لحاظ سے مخدوم العلما ء و المشائخ علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادریؒ کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کے یہاں علومِ اِسلامیہ میں عُمق اور گہرائی زیادہ پائی جاتی ہے اور قدرے وُسعت بھی پائی جاتی ہے ۔
اِ ن کی تحقیقات کا مطالعہ کر نے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صرف تیرا ک نہ تھے بلکہ غوّاص بھی تھے ۔ ان کے یہاں یافت سے زیادہ دریافت کا غلبہ نظر آتا ہے ۔ آ پ ؒ کی جو بھی تحریر دیکھی جائے اس میں نقل و حکایت کم ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے من جناب اللہ علوم و معارف کا درود ہورہا ہے ۔ کتابوں کے حوالوں سے مواد کا اِکٹھا کر لیان بھی خاصا مشکل کام ہے مگر نسبتاً آسان ہے ۔ لیکن کسی موضوع کی تہہ تک پہنچ کر خود اپنی بات کہنا اور اپنی قوتِ فکر کو استعمال کر کے اُلجھی ہوئی ڈور سُلجھانا دُشوار کام ہے اور یہی کام ہمیں شیخ الا سلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اورعلامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری کی تحقیقات میں قدرے تھوڑے اختلافا ت کے ساتھ بخوبی نظر آتاہے ۔ ان دونوں نے ایسے ایسے لعل و گو ہر اور جواہر ریزے نکالے ہیں کہ جہاں تک بڑے بڑے اہلِ علم کی بھی رَسائی نہیں ہوپاتی ۔ دیگر معاصر شخصیات کے ساتھ موازنہ و تقابل کے سلسلہ میں پی ایچ ڈی کا تھیسز درکار ہے ۔ جیسے ہی کوئی اسکالر اس کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، ناکارہ اس کی بھر پور معاونت کر نے کوتیار ہے ۔
علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری ؒ کی خداداد ذہانت و ذکاوت کا اندازہ لگانے کے لئے ضروری ہے کہ انہوں نے جن کتب کا ترجمہ کیا ہے اُنہیں باضابطہ طور پر کھنگالا جائے ۔اور اُن مصنّفین کے اَحوال و آثار اور اُن کے اُسلوبِ تحقیق سے کماحقہ آشنائی بے حد ضروری ہے ۔ ورنہ مترجم کی صلاحیت اور دقتِ نظر کو داد نہیں جا سکتی ۔ علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری ؒ نے قرآن ، حدیث ، فقہ ، تصوف، علمِ کلام اور تاریخ وغیرہ کے جس موضوع پر بھی لکھا اِس میں اِن کا منہج فکر اور طریقہ اِستد لال اُصول ہونے کے ساتھ ساتھ متکلمانہ طرز و اُسلوب کا آئینہ دار ہے ۔ اِس میں شُبہ نہیں کہ علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری ؒ قرآن و حدیث کے غوّاص اوراپنی ذہانت اور قوتِ اَخذ و استنباط سے الفاظ کی تہہ میں ایسے ایسے معانی اور نکات نکالتے ہیں کہ عام اہلِ قلم کو شاید اس کی ہوا بھی نہ لگے ۔
فقہ و حدیث سے متعلق ایک اہم فن ’’ اسرار و حکم شریعت ‘‘ کا ہے ، کہ احکام شرعیہ کی حکمتیں اور مصلحتیں کیا ہیں ؟ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتب ’’ انفاس العارفین ، رسائل شاہ ولی اللہ ، الطاف القدس ‘‘ کے تراجم کئے اور پھر اِن پر جو مقدمے لکھے اِن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ جیسی عبقری شخصیت سے طبعی اور علمی مناسبت حاصل ہے ۔ انہوں نے اپنی باقاعدہ تصانیف میں اِس علمی مناسبت کا بھر پور اظہا رکیا ہے ۔ مثلاً اصل مسئلہ معاشی ہے ، غربت کیسے مٹے گی ‘‘ میں ایسے ایسے قیمتی نکتہ سنجیاں اور حکمت آفرینیاں بیان کی ہیں کہ پڑھ کر ذو ق اَش اَش کر اُٹھتا ہے ۔انہوں نے اپنا نکتہ نظر عالمانہ استد لال کے ساتھ اپنے محسوسات اور مشاہدات کو جس اُچھوتے پیرا ئے میں بیان کیا ہے اس سے اِن کی نہجِ فکر کا پتہ چلتا ہے ۔
علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری ؒ کا یہی وہ طریقہ فکر ہے جو محققین کا اَصل رنگ ہے اور جو حدیث و فقہ میں محققین کا اَصل منہاج رہا ہے ۔ اِن کے مزاج میں تو سُع پایا جاتا ہے ۔ ’’ دیوبند اور بریلی کے خصوصی مسائل کا جائزہ ‘‘ میں یہی رنگ زیادہ وُسعت اور عُمق کے ساتھ نظر آتا ہے ۔ اِفراط و تفریط سے بچتے ہوئے عدل و اعتدال کو خوب اُجاگر کیا ہے ۔ اعتقادی مسائل میں تصلّب اور احکام و مسائل میں دلائل کے اختلاف اور احوال ِ زمانہ کی تبدیلیوں کے اعتبا رسے توسعّ اور کتبِ فقہ کی ظاہری عبارتوں پر جمو د و اصرار کے بجائے سلف صالحین کے مقصد و منشا ء اور اِن کے استنباط و اجتہاد کی رُوح کو سمجھنا اور اِس کو عوام و خواص کے لئے چراغِ راہ اور خضرِ طریق بنانے کا ویژن بڑے خاصے کی چیز ہے ۔ بلاشبہ وہ حضرت سید نا عبد القادر جیلانی ؒ کے فکری خوشہ چیں اوررئیس المکا شفین شیخ اکبر محی الدین اِبن العربی ؒ کی تدقیقات و تشریحات کے مثالی نقیب و ترجمان تھے ۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں حدیث و فقہ اور رموزِ تصوف اور اسرارِ شریعت کی بحثوں کو جا بجا بکھیرا ہے ۔ جن میں ایسے جواہر پارے موجود ہوں جو اِن کے معاصرین میں شاید کہیں نہ مل سکیں ۔ اِن کی تحقیقات پی ایچ ڈی کر نے والے اسکالرز کے لئے مینارۂ نور اور کاروانِ علم و عمل کے لئے مشعلِ راہ ہیں ۔ علمی گہرائی کے ساتھ ساتھ اِن کے قلم کی خوب صورتی اور تحریر کی شگفتگی و دل آویزی علما ء و اہلِ قلم کے لئے ایک نمونہ ہے ۔
علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری ؒ عصرِ رواں کے ایک ممتاز عالمِ دین ، منفر د اُسلوب کے صاحبِ قلم ، نامو رمحقق ، نقاد،جامع شریعت و طریقت ، نکتہ رَس مبلغ و خطیب اور بے مثل متکلمِ اسلام تھے ۔ اللہ ربُّ العالمین نے انہیں لطیف و دلکش پیرا یۂ میں اظہارِ خیال پر قدرت عطا کی تھی ۔ وہ اشخاص و رَجالِ دین کے شخصی خاکوں اور اُن کے علمی و فکری مقام و مرتبہ پر روشنی ڈالنے میں مہارتِ تامہ رکھنے والے ادیب شہیرتھے ۔
عام طورپر ہمارے علمائے کرام اور اہلِ خانقاہ و مدرسہ اِنشاء پر دازی کے آرٹ اور فن سے بہت کم واقف ہوتے ہیں اور جو کچھ لکھتے لکھاتے ہیں ، اس میں بڑی خشکی اور بے کیفی ہوتی ہے ، لیکن قدرتِ خداوندی کی طر ف سے انہیں اِنشاء پردازی پر کمال درجہ دسترس حاصل تھی ۔ انہوں نے مختلف مشاہیر علم و اَدب و تحقیق پرجو قلم کے جو ہر دکھائے ہیں اُنہیں پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ وہ اتنے منجھے ہوئے اسکالر اور بیدار مغز محقق تھے ۔ ’’ یدِبیضا ‘‘ پر تنقیداور تاریخی فروگذاشتوں پر گرفت و مواخذہ پڑھ کر ذوق اَش اَش کر اُٹھتا ہے ۔ ’’ اعلیٰ حضرت فاضل بریلو ی ؒ اوراُمور ِ بدعت ‘‘ پر انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ کتاب مدارسِ عربیہ کے نصاب میں درساً پڑھائی جا نی چاہیے ۔ اُن کی شخصیت بہ ظاہر ایک خشک محقق اور نقاد کی نظر آتی تھی ، مگر جب وہ قلم ہاتھ میں لیتے یا جب کسی مجمع سے مخاطب ہوتے تھے تو اُن کی تحریر کی نغمگی اور آواز کا خاص ردھم لوگوں کو مسحور کر دینا تھا ۔ مجھ اَحقر رُو سیا ہ کو اُن کی اَکثر کتب پڑھنے کا اور اُن کے تحقیقی نتائج کو بار بار سمجھنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی ہے ۔ اَحقر خاکسار نے اِن کی تحقیقات سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ وہ ہمارے اُستادوں اورشیوخ کی جگہ پر تھے ۔ وہ ہمارے محسن ، مربی اور مرشدِ راہِ ہدایت تھے ۔ اِ ن کی جُودتِ طبع میں حضرت سیدنا عبد القادر جیلانیؒ ، شیخ اَکبر محی الدین ابن العربی ؒ ، امام فخر الدین رازی ؒ ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ؒ جیسی بلند مر تبت شخصیا ے کے علمی و روحانی وفکری چراغ اِ ن کی انجمن میں روشن تھے ۔ اس لئے ان کی تحریروں میں بڑا سُوز و گداز اور والہانہ انداز پایا جاتا ہے ۔ انہوں نے اپنی مستقل تصانیف اور تراجم کتب میں خونِ جگر نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔
علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری ؒ کا دماغ فلسفیانہ اور دل صوفیانہ تھا ۔ وہ رازی ؔ کے پیچ و تاب سے بخوبی واقف تھے ۔ وہ رومیؔ کے سو ز وگداز سے بھی آشنا تھے ۔ اُن کی گفتار میں جو ش اور کردار میں ہوش تھا ۔ ان کی تحقیقات میں خاکسار کو اپنے دل کی دھڑکنیں سنائی پڑتی ہیں ۔ انہوں نے اپنے پورے وجود کو ریسرچ و تحقیق میں پِگھلا دیا تھا ۔ جیسے طاقِ حرم میں جلتی ہوئی شمع اپنے وجود کو فنا کر کے ماحول کو روشنی عطا کر تی ہے ۔ انہوں نے دُور اُفتادہ مقام پر بیٹھ کر اداروں پر بھاری کام کیا ۔ علومِ اسلامیہ میں ان کی مجتہدانہ بصیرت ، اد ب و تنقید میں دسترس ، شعر و سخن کی شناوری ، تاریخ و کلام اور فلسفہ قدیم و جدید میں غوّ اصی ، لسانیا ت کا مذاق ، فطری ذہانت و طباعی ، تلاش و تحقیق کے سفر میں آبلہ پائی کے جذبہ نے نہایت کے باب میں اِن کے لختِ جگر صاحبزادہ پیر سیّد صبغت اللہ شاہ سہروردی نے جو کچھ لکھا ہے حرف حرف حقیقت ہے ۔ بلامبالغہ اِ ن کی شخصیت میں علومِ قدیم و جدید کا حسین امتزاج تھا ۔ ان کے اکابر اساتذہ و مشائخ کرام کی رُوح ان کے اندر اُتری ہوئی تھی ۔
جامعہ اسلامیہ بہاول پور کے مختلف المزاج اور مختلف علوم و فنون کے ماہر اساتذہ کرام کی صحبت نے اُنہیں سلطنت علم و ادب کے شاہ سوار بنانے میں نمایاں کردار اَدا کیا ۔ قلم وزبان اور انشا ء کا فرمانروا بنانے میں اساتذہ کی توجہ کے ساتھ ساتھ خاندانی نسبت نے چار چاند لگا دئیے ۔ اِن کے افکار و خیالات میں توازن و اعتدال اور حزم و احتیاط کا پہلو غالب تھا ۔ مختلف المزاج اساتذہ کی تعلیم و تربیت نے انہیں افراط و تفریط سے پاک کر دیا ۔ عقائد میں پختگی ، مزاج میں نرم خوئی اور بَرف سے زیادہ خُنک طبعی اِن میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ ان کے فکر میں گہرائی اور فکر انگیزی جلوہ گر تھی اوراِن میں تعصب اور تنگ نظر ی بھی نہیں تھی ۔ وہ اپنی صلاحیت اور صالحیت کے لحاظ سے عوا م و خواص کے محسن اور مر جع کی حیثیت رکھتے تھے ۔
’’بزمِ اہلِ دل ‘‘ میں محترم صاحبزادہ سیّد صبغت اللہ شاہ سہروردی نے اپنے والدِ گرامی کے متعلق پی ۔ ایچ ۔ ڈی کرنے والے اسکالرز کے لئے بنیادی خاکہ پیش کر دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھ جیسے کوتاہ علم و عمل کے لئے ان کی کتابوں پر کچھ لکھنا ’’ چھوٹا منہ بڑی بات ‘‘ کے مترادف ہے ۔ یہ چند سطری اس لئے لکھی ہیں اور یہ خیال بھی ہے کہ اس طرح ان پر لکھنے والوں میں کسی درجہ اس ناکارہ کا بھی شمارہو جائے اور شاید اس کی برکت سے ان کے علم و عمل کا کوئی حصہ اِس رُو سیاہ کے حصہ میں آجائے ۔ ویسے ناکارہ کو براہِ راست اِن سے کم استفادہ کا موقع ملا ۔ لیکن خط وکتابت اور مراسلت اور اِن کی تحقیقات سے جتنا کچھ سیکھا ہے وہ ایسے ہے جیسے اپنے اساتذہ سے استفادہ کیا ہو ۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ معنوی اعتبار سے اِن سے تلمذ کا شرف حاصل رہا ہے ۔ ایک دوبار کی براہِ راست ملاقات میں ان کا اخلاقِ کریمانہ ، تواضع اور انکساری کی جو کیفیت اِ ن میں دیکھی ، میری گنہ گار آنکھوں نے اس مقام و مرتبہ کے کسی اور شخص کے اندر شاید ہی دیکھی ہو ۔ وہ بے حد بُردبار اور انتہائی حلیم شخصیت کے مالک تھے ۔اِسلام اور عقائد اہلسنت کی ایسی ترجمانی جو دل و دماغ دونوں کو متاثر کرتی ہو ، یہ ان کا خاص مزاج رہا ہے ۔ اور آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ ہماری توجہ فروعی اور داخلی اختلافات سے زیادہ فروغِ اسلام پر ہو ۔ کیوں کہ فروعی اختلافات میں کچھ جانے والے لوگ بڑا کام نہیں کر پاتے ۔
واقعہ ہے کہ بہتوں کو دیکھنے کا موقع ملا ، لیکن جو درویشانہ اَنداز اور عالمانہ وَقار آپؒ کے اندر دیکھا ، شاید کہیں اور کم نظر آیا اور جس شفقت و اپنائیت اورخود نوازی کا پاس و لحاظ آپ کے ہاں پایا وہ بہت ہی کم دوسرو ں میں پایا ۔ بے ساختہ ، تصنُّع و بناوٹ سے پاک اور دلوں میں اُتر جانے والا طریقہ و سٹائل اور کانوں میں رَس گھولنے والے بُول سن کر ا ِنسان گرویدہ ہوجاتا تھا ۔ گذشتہ برس حضرت صاحبزادہ پیر سیّد محمد الطاف حسین شاہ صاحب بخاری زید مجٰدہ کی ہمراہی میں اِن کی خانقاہ سہروردیہ ( شاہ آباد شریف گڑھی اختیار خاں ) میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی تو خوب نوازا ۔ اس موقع پر مختلف مشاہیرِ علم و اَدب اور بعض اَہم اُمور پر تبادلہ خیال فرمایا ۔ آپ ؒ نے بجا طور پر ارشاد فرمایا کہ اس زمانہ میں افراط و تفریط کی راہ پر چلنا آسان ہے اور اعتدال کی راہ پر قائم رہنا دُشوار ۔ کیوں کہ اعتقادی افراط و تفریط جذباتیت ، شدت پسند ی اور بے اعتدالی کو جنم دیتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے ، اس لئے اگر کوئی شخص گروہی ، مسلکی تنگ نظری اور جماعتی تعصب سے خالی ہوکر وہ بات کہتا ہو جو انصاف کی ہو ۔ اور جس کی ضرب افراط پسند اور تفریط پسند لوگوں پر پڑتی ہو تو پھر اُن کا روّیہ جارحانہ ہوجاتا ہے ۔
علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادریؒ نے کہا کہ میری سعادت و خوش بختی کی بات ہے کہ میں نے ہر مکتب ِ فکر کی بڑی بڑی باکمال شخصیتوں کو دیکھا اور اُن کی صحبتوں سے مستفید ہوا ۔ ایسے ایسے باکمال لوگ دیکھے کہ جن کی طرف دل کھینچتا تھا اور جن کو دیکھنے سے آنکھیں سیر نہیں ہوتی تھیں ۔ اِن کی شفقت و محبت و عنایت ہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خاکسار جب بھی کوئی اپنی نئی کتاب آپ ؒ کی طرف بھیجتا تو آپ ؒ اس کو ملاحظہ فر ما کر بڑی حوصلہ اَفزائی فرمایا کر تے اور دُعائیہ کلمات سے نواز ا کرتے ۔ میری دو تین کتابوں پر آپ کے کلماتِ تبرک بھی محفوظ ہیں اور خطوط بھی ۔ آپ ؒ کی بہت سی باتیں وہ ہیں جو قلب و ذہن کو متاثر کر تی تھیں ۔ آپؒ کا اُٹھنا بیٹھا ، چلنا پھرنا ، مخاطب کا انداز ، ہر عمل تواضع کا مظہر ہوتا ۔ اپنے معاصرین کا ذکر بھی بڑے احترام کے ساتھ لیا کر تے تھے ۔ اللہ ربُّ العالمین نے جیسے انہیں علمی و تحقیقی کاموں کی توفیق عطا فرمائی ، اسی طرح اِن کاموں کو مقبولیت اور شہرت سے بھی سرفراز فرمایا ۔
آپؒ کی تحقیقات نے پوری دُنیا میں شہرت و قبولیت حاصل کی ہے ۔ اُن کی شخصیت ایک ہمہ پہلو اور ہمہ گیر شخصیت تھی ۔ وہ ایک نکتہ رَس خطیب اور رُوح کی بیماریوں کو پہنچاننے والے معالج و مصلح بھی تھے کہ کتنے ہی لوگوں نے ان کے ذریعہ رُشد و ہدایت کی راہ بلکہ منزل پائی ہے ۔ انہیں صحابہؓ اور اہل بیت ؑ اطہار سے عشق کے درجہ میں محبت تھی ۔ بڑے ہی عظمت کے ساتھ اِن کا نام لیتے ۔ خلفائے راشدین اور اَئمہ اہلِ بیتؑ اطہار پر اِ ن کی باتیں سننے کے لائق ہوتیں ۔ روافض کا دَدّ بھی خوب فرماتے اور موّدتِ اہلِ بیتؑ اور ان کی تعظیم و توقیر میں کوئی فرق نہ آنے دیتے ۔
عام طور پر جو لوگ رافضیت ، خارجیت ، ناصبیت اور نجدیت کے رَدّ میں بات کر تے ہیں ۔ اِن میں رَدِ ّ عمل کے طور پر اعتدال کا دامن چھوٹ جاتا ہے ، لیکن اِن کا دامن اِس بے اعتدالی سے بالکل پاک تھا ۔ مروّجہ افراط وتفریط کے دَور میں اِن کا وجود غنیمت تھا ۔ و ہ احترامِ صحابہ اور مودّتِ اہلِ بیتؑ اطہار کی روایت کے نمائندہ ترجمان تھے ۔ بنو اُمیہ نوازی اور بغضِ اہلِ بیتؑ کی مروّجہ فضا جو خود اہلِ سنت کی صفوں میں گھستی چلی جار ہی ہے ، وہ اس فضاء کو زہرِ قاتل سمجھتے تھے ۔ انہیں اللہ ربُّ العالمین نے غیر معمولی تحقیقی صلاحیت ، سلیقہ تربیت اور شفقت و حوصلہ اَفزائی کے وافر جذبہ سے نوازا تھا ۔ اِ س کا اندازہ مجھے اِن کے صاحبزادہ پیر سیّد صبغت اللہ شاہ سہروردی سے مل کر ہوا ۔ اَولاد کو اپنے والدین سے فطری محبت ہوتی ہے ۔ اس لئے سعادت مند اَولاد بہر صورت اپنے ماں باپ کی تعریف کرتی ہے ۔ مرید اپنے مرشد کو صرف عقیدت کی آنکھوں سے دیکھتا ہے ، وہ تنقید کی آنکھوں پرپٹی باندھ کر ہی اِس کوچہ میں قدم رکھتا ہے ۔ لیکن صاحبزادہ پیر سیّد صبغتہ اللہ شاہ سہروردی کا معاملہ فقط بیٹے کا نہیں بلکہ شاگرد بھی ہے ۔ انہوں نے ’’ بزمِ اہلِ دل ‘‘ میں اپنے مشائخ کرام اور اپنے عظیم والدِ گرامی ؒ کے متعلق جو اظہارِ خیال کیا ہے ، اس میں مبالغہ کی بجائے حقیقت کی عکاسی و ترجمانی پائی جاتی ہے ۔ وہ اپنے عظیم والدِ گرامی کے نہایت مدّ اح اور بے حد معترف ہیں ۔ وہ اِن کی تعلیم و تدریس سے بھی متاثر ہیں ، تربیت سے بھی اور خاص طور پر ان کے اُسلوبِ تحقیق سے بھی ۔ اس لئے خاکسار بھی اِن سے عقیدت و محبت کا جذبہ رکھتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ اپنے عظیم والدِ گرامی کی علمی و روحانی امانتوں کے امین ہیں ۔ اِن کی نذر ہے ۔ ؎
ہے تجاھل عارفانہ اور وہ بے التفات
سب خبر رکھتے ہوئے بھی کچھ خبر نہیں ہوتی
طو ل ہے غم کی کہانی ، مختصر ہوتی نہیں
شام آئی ہے تو آئی ہے سحر ہوتی نہیں
جیسے جیسے ہوتا جاتا ہے کوئی دل کے قریب
دل کہاں ہوتا ہے ، خود کو خبر ہوتی نہیں
ہم مزاجی اور ہم مذاقی کا حال یہ ہے کہ ہماری محبوب شخصیتیں بھی عام طور پر ایک ہیں ۔ جو مشترک طور پر ہم دونوں کے اب مرکزِ عقیدت ہیں ۔ اور اختلاف رائے میں اِن کا اعتدال اور اختلاف کے اظہار میں فریقِ مخالف کا احترام اور اس کی اچھی باتوں کی قدر شناسی وغیرہ ہم لوگوں کو پسند آتی ہے ۔ ہمارے درمیان حد درجہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ بغیر کسی زیادہ ملاقات کے ہماری سوچ کے نتائج ایک ہیں ۔ا لغرض خاکسار تفصیلی مقالہ لکھ رہا ہے ۔
*مضمون نگار ڈاٹریکٹر : منہاج الحسن ایجوکیشنل سسٹم ۔ لطف آباد( ملتان )ہیں ۔
٭٭٭