ہماری کہکشاں یعنی ملکی وے ایک سو ارب سے زاٸد ستاروں پہ مشتمل ہے جن میں سے ایک بڑی تعداد کو ہم اندھیری راتوں میں چمکتے دیکھ سکتے ہیں مگر یہ ستارے بھی دیگر تمام چیزوں کی طرح ہمیشہ کی زندگی نہیں رکھتے,وہ کیمیاٸی عمل یا ریٸیکشنز جنکے سبب ستارے جل رہے ہیں ختم ہوجاٸینگے اور اسکے نتیجے میں ستاروں کو فناہ کا ذاٸقہ چکھنا ہوگا ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے جو تقریباً 4.6 ارب سال پہلے وجود میں آیا,
یہ سورج کی حرارت اور روشنی ہی ہے جو زمین پر زندگی کو یقینی بناتی ہے اگر سورج نا ہو تو زمین پر زندگی برقرار نہیں رہ پاٸے گی
سورج میں جاری نیوکلیٸر فیوژن عمل کے ذریعے فی سیکنڈ چھ سو ملین ٹن سے زاٸد ہاٸیڈروجن ہیلیٸم میں تبدیل ہورہی ہوتی ہے,سورج اپنے داٸرہِ حیات یا لاٸف ساٸیکل کے مستحکم حصے کا نصف دور گزارچکا ہےاور اسکی درجہ بندی Man Sequence Star کے طور پر کی جاتی ہے
یہ بات اہم ہے کہ دیگر ستاروں کی طرح سورج بھی محدود مقدار میں ایندھن رکھتا ہے
جس روز یہ ایندھن ختم ہوجاٸیگا سورج بھی اپنی موت مرجاٸے گا
گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے سیارے پر زندگی کو ایٹمی جنگ کے بعد جو سب سے ہولناک خطرہ درپیش ہے اسکا تعلق سورج کی عمر رسیدگی سے ہے
ایک اندازے کے مطابق تقریباً ہر ایک ارب سال کے بعد سورج کی روشنی میں دس فیصد اضافہ ہوجاتا ہے, جسکا مطلب یہ ہوا کہ جوں جوں سورج بوڑھا ہورہا ہے زمین بھی مسلسل گرم تر ہوتی جارہی ہے
کٸ ساٸنسدانوں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ آج سے ایک ارب سال کے بعد زمین کا اوسطًا درجہءِ حرارت ستر سے سو ڈگری سیلیس تک جاپہنچے گا, اگر یہ اندازہ درست ہے تو درجہ حرارت کے اس ہوشربا اضافے کے باعث جانور اور پودے تقریباً ناپید ہونے لگینگے, درجہ حرارت میں یہ اضافہ جاری رہے گا اور اور آج سے اندازاً دو ارب سال بعد دریاٸوں, جھیلوں, سمندروں الغرض زمین کا تمام پانی دھیرے دھیرے بھاپ بن کر فضاء میں اُڑ جاٸے گا
لیکن کچھ پانی مریخ کی سطح کی طرح زمین کی سطح میں بھی محفوظ ہوگا, جو کہ بعد میں وہ پانی بھی فناٸیت کی نظر ہوجاٸے گا اسی مثلِ سوا نیزے کی تپش کے نتیجے میں گرین ہاٸوس افیکٹ عمل میں آٸے گا اور یوں زمین کی سطح صحرا میں تبدیل ہوجاٸے گی اور سورج کی تیز روشنی و حرارت سے زمین کی مٹی و پتھریلی جگہ سرخی ماٸل رنگ دھار لے گی جو عین بالکل ایسے دیکھنے کو لگے گی جیسے مریخ ہو, یوں کچھ کاٸناتی وقت کیلٸے زمین مریخ کی طرح کا روپ دھار لے گی جیسے ابھی مریخ ہمیں نظر آتا ہے
آگے چل کر تقریباً چار سے پانچ ارب سالوں بعد سورج ہاٸیڈروجن کی ساری کور سپلاٸی استعمال کرچکا ہوگا اور اب اسے مجبوراً ہیلیٸم گیس استعمال کرنی پڑے گی, جسکے نتیجے میں سورج کا بیرونی حصہ پھیلنا شروع ہوچکا ہوگا اپنے قطر یا Diameter کے اضافے کی بناء پر سورج پہلے کی طرح sequence star نہیں رہے گا بلکہ اب اسکی درجہ بندی Red Giant ستاروں کی لسٹ میں ہوگی
ریڈ جاٸنٹ کے نتیجے میں نظامِ شمسی کے بیرونی سیارے جیسے زحل مشتری, نیپچون اور یورینس بھی گرم تر ہونے لگینگے اور انکے چاندوں کی برف بھی پگلنے لگے گی, یوں کچھ صدیوں یا کچھ ہزار صدیوں تک بیرونی سیاروں کے چاندوں پر زمین جیسا ماحول بھی ہوگا مگر وہ عارضی ہوگا, پھر ہمارا ریڈ جاٸنٹ سورج موجودہ سورج کے مقابلے میں بیس گناہ بڑا ہوچکا ہوگا اور اسکی بے پناہ حرارت کے نتیجے میں مشتری سیارے کے چاند یوروپا کی برف بھی پگل کر مکمل ماٸع حالت میں ہوجاٸے گی بالکل ایسے جیسے گرم پانی کے چشمے ہوں ۔
ریڈ جاٸنٹ کے پھیلنے سے نظامِ شمسی کے اندرونی سیاروں کیلٸے بے حد خطرناک ہوگا جسکے نتیجے میں یعنی مرکری, زہرہ اور زمین سمیت مریخ بھی تباہی سے دوچار ہوکر ریڈ جاٸنٹ سورج کی خوراک بن جاٸینگے
یہ سب ہونے کے بعد پھر جب سورج سے ہیلیٸم کی فراہمی تقریباً ختم ہونے کے نذدیک ہوگی تو پھر وہ مکمل طور پر غیرمستحکم ہوتا چلاجاٸے گا ایسا ہونے پر سورج کی حرارتِ نبض تھرمل پلسس کا سلسلہ شروع ہوجاٸے گا سورج کی نبض کی اس انداز کے چلنے کی صورت میں اسکی بیرونی پرت ایک دھماکے کی صورت میں ضاٸع ہوجاٸے گی ایسا ہونے کے بعد سورج اپنی بچی کچی حالت میں زمین کی جسامت کا ستارہ رہ جاٸے گا جسے White Dwarf کا نام دیاجاٸے گا
اس White Dwarf کے گرد سیاروں کا مرغولہ یا نیبیولا ہوگا جو یہاں سے کچھ سو نوری سالوں کی مصافحت پر موجود کسی بھی تہذیب کو دکھاٸی دیا جاسکے گا,مگر مرکز میں پایاجانے والا کمزور سا White Dwarf جو کسی زمانے میں ہمارا عظیم الشان سورج ہوا کرتا تھا, آہستہ آہستہ سرد پڑتے اور دھندلاتے دھندلاتے تاریکی میں ڈھل جاٸے گا
یوں نظامِ شمسی کی کاٸناتی شاہراہ پر ہمارے سورج کا سفر ہمیشہ ہمیشہ کیلٸے اپنے انجام کو پہنچ جاٸے گا,
مگر خیر اس میں ہمارے لیٸے فوری گھبرانے کی کوٸی بات نہیں, ایسا وقت آنے تک یا تو نسلِ انسانی پہلے ہی مٹ چکی ہوگی یا پھر ہم کاٸنات کے کسی اور سرے یا کسی دور دراز سیارے پر اپنا ٹھکانہ بناچکے ہونگے, اور وہاں بیٹھے سورج کے عروج و زوال کی دلچسب داستاں پڑھ رہے ہونگے