(Last Updated On: )
قدرت نے سرائیکی وسیب کو بڑی فیاضی سے نوازا ہے۔وسیب میں جہاں روہی ، تھل اور دامان کے پانی کو ترستے ہوئے خطے ہیں تو وہاں پر سارا سال بہنے والا دریائے سندھ کا میٹھا پانی اس خظے میں بسنے والوں کی پیاس بجھانے کے لیئے ہروقت دستیاب ہے ۔ریتلے علاقے ہوں یاپھر کپاس اور گندم کی شاندار پیداوار دیتی ہوئی زرخیز زمینیں ،کوہ سلیمان کے بلند وبالا پہاڑ ہوںیا پھر ان پہاڑوں میں بہنے والےپہاڑی ندی نالے یعنی رودکوہیاں ہوں سب فطرت کے اعلیٰ مظاہرہیں۔قدرت نے وسیب کے کینوس پر فطرت کے رنگ جس قدر فیاضی کے ساتھ بکھیرےہیں اس کی مثال شائد ہی کہیں کسی اور جگہ پر ملے۔
مگر صد افسوس اس خوبصورت خطے میں بسنےوالوں کو انسانی ترقی میں برابر کا حصہ نہیں مل سکا۔غربت،محرومی ،پسماندگی ،پینےکے صاف پانی کی قلت،ناپید بہترعلاج معالجےکی سہولتیں ،بدحال تعلیمی ادارئے ،ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ،زرائع روزگار کی کمی نے یہاں پر بسنے والوں کی زندگیوںکو ایک ڈراونے خواب میں بدل دیا۔اس بدحالی پر،مسلط کی گئی بے بسی پر بطور احتجاج آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ صدائیں بلند ہوتی جارہی ہیں۔اس طبقاتی تقسیم کے خلاف ،وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف ،سہولتوں کے فقدان پر اس خطے کے دانشور ، ادیبوں اور شعرا نے صدائےاحتجاج بلند کی۔ہر ناانصافی پرلکھنا شروع کیا احتجاج نثر سے شعر میں داخل ہوا۔وسیب میں شاعری رومانویت سے نکل کر مذاحمت کے رستے پر چل پڑی ۔کہتےہیں کہ جس شاعری کا اپنے معروض سے کوئی تعلق نا ہوا اور جو شعر لمحہ موجود سے نا جڑا ہوا ہووہ حرف غلط کی طرح مٹ جاتا ہے۔صرف اس شاعرکو شہرت نصیب ہوتی ہے جو اپنے گردوپیش سے باخبر ہو صرف وہی شاعری دوام حاصل کرتی ہے جو اپنے لمحہ موجود سے جڑی ہو جو اپنے معروض کی عکاسی کررہی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ وسیب میں جہاں اقبال سوکڑی،احمد خان طارق اور عزیز شاہد کی رومانوی شاعری کو بام عروج ملاہے وہاں پر شاکر شجاع آبادی کی مذاحمتی شاعری نے بھی ہر دل میں گھر کیا ہے ۔یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ شاکر کی شاعری رنگ ونسل و مذہب کی تفریق کے بغیر ہر مظلوم کی شاعری ہے ۔شاکر شجاع آبادی کا مذاحمتی کلام ہر ا س شخص کی نمائندگی کرتا ہے جو زندگی کی بنیادی ضروریات کو ترس رہا ہے۔جہاں جہاں پر سرائیکی بولی اورسمجھی جاتی ہے شاکرشجاع آبادی کے اشعار پڑھے اور سمجھے جاتے ہیں ۔مقام حیرت ہے کہ وسیب کی نمائندگی اس شخص کے ہاتھ میں ہے جو خود بولنے سے قاصر ہے۔25فروری 1955 کو شجا ع آباد کے ایک چھوٹے سے قصبے راجہ رام میں پیدا ہونے والے محمد شفیع سیال نے جب 1986میں شاعر ی شروع کی تو تخلص شاکر رکھا اور شجاع آباد جنم بھومی کی وجہ سے تخلص کا حصہ بنایا اور دنیا اب انہیں شاکر شجاع آبادی کے نام سے جانتی ہے۔
شاکر شجا ع آبادی پرائمری کے بعد چھٹی جماعت میں پڑھ رہے تھے کہ معاشی حالات کے سبب تعلیم چھوڑ دی اور مزدوری شروع کردی۔شاکرنے سبزی کی دوکان لگائی،سبزی منڈی میں مزدوری کی،چوکیداری کی ،قصہ مختصر ہروہ کام کیا جس سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوسکے ۔ایک حساس دل رکھنے والے شاکر نے جب زندگی کی تلخیوں کو اتنے قریب سے دیکھا اور انسانی رویوں کے کھردرے پن کو محسوس کیا تو اپنے احساسات کے اظہار کے لیئے شاعری کا سہارا لیا۔تاہم دنیاوی تعلیم سے نابلد شاکر شجاع آبادی کی شاعری سے واقفیت ریڈیو کے زریعے ہوئی جہاں پر خواجہ غلام فرید سائیں کی کافیاں اور وارث شاہ کی ہیر سنتے سنتے شاکر کے اندر کا شاعر جاگ اٹھا۔شاکر شجاع آبادی خواجہ غلام فرید کو اپنا روحانی استاد مانتے ہیں۔جبکہ ذوالفقارعلی بھٹو ان کا پسندیدہ سیاست دان ہے ۔1994 تک شاکر شجاع آبادی بول سکتا تھا تاہم پھر فالج کا حملہ ہوا اور یوں قوت گویائی چھن گئی۔جو تھوڑا بہت بولتے ہیں وہ ان کے گھروالوں کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔مگر ان کے لکھے ہوئے اشعار کو دنیا سمجھتی ہے ۔آج ہر مظلوم شاکر کا کلام پڑھ کر گویا شاکر کی زبان بولتے ہوئے اس کی نمائندگی کرتا ہے۔
تاہم فالج کے حملے سے قبل شاکر شجاع آباد سمیت وسیب کے علمی وادبی حلقوں میں شاعری کے زریعے اپنی پہچان بنا چکے تھے۔اور فالج ہونے کے بعد بھی شاکر نے شعر کہناترک نہیں کیا۔بلکہ اس اعصابی بیماری اور قوت گویائی ختم ہوجانے کے بعد شاکر کی شاعری میں زندگی کی حقیقتیں زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آئیں۔شاکر نے اپنی شاعری میں ملنے والے دکھوں پر ماتم نہیں کیا بلکہ ہر دکھ اور تکلیف پر شکایت کی ہے۔وہ شکایت جو اپنوں سے کی جاتی ہے کسی ہمدرد اور غمگسار سے کی جاتی ہے۔شاکر درد کی حکاتیں قلم بند کرتا رہا ۔ان کوجب کتابی شکل دی گئی تو بہت سی کتابیں منظر عام پر آئیں ۔شاکر کی اہم تصانیف میں پتہ لگ ویندے،گلاب سارے تمہیں مبارک،منافقاں تو خدا بچاوئے،بلدیا ہنجوں،خداجانے،روسیں توں دھاڑیں مارمار کے،کلام شاکر،شاکر دیاں غزلاں،پتھر موم،اردو غزلیات،شاکر دے ڈوہڑے،پیلے پتر،لہو دا عرق شامل ہیں۔
شاکر کو سرائیکی زبان کا شکسپیئر کہا جاتا ہے۔شاکر کی مذاحمتی شاعری بے حس اور انسان کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہے۔ہر عہد کے ظالم وجابر حاکم کے سامنے مظلوم عوام کا مقدمہ شاکرکی شاعری کے زریعہ پیش کیا جاسکتا ہے۔شاکر تو دو وقت کی روٹی کے حصول کی خاطر اپنے رب سے بھی ہمکلام ہوتا ہے حوروں کے بدلے پیٹ بھرکرکھانے کا مطالبہ کرتا ہے۔سرائیکی وسیب کی محرومیوں اور وسیب میں پسماندگی اور معاشی ناہمواریوں پر جتنی بلند آواز شاکر شجاع آبادی کی ہے شائد ہی کسی اور کی آواز اس قدر بلند ہو۔شاکر کسی مصلحت اور خوف کے بغیر بولتا ہے۔سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے کی کوشش کرتا ہے ۔مذہبی طبقے کی رجعت پسندی کے خلاف شاکر کے اشعار زبان زد عام ہیں۔
شاعری کے زریعے اپنے وسیب کی محرومیوں ،پسماندگی اور معاشی تفریق کے خلاف لکھتے لکھتے شاکر نے وہ مقام پالیا جہاں اس کے اشعار عالمی استحصالی نظام کی بھی مذمت اور مذاحمت کرتے ہیں۔جب تک دنیا میں غربت سمیت دیگر مسائل موجود ہیں شاکر کی شاعری بھی موجود رہے گی۔اگر شاکر کی شاعری کو انگریزی میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو بلاشبہ شاکر مغرب کا بھی نمائندہ شاعر بن سکتا ہے۔یہ شاکر شجاع آبادی کی سوچ کی وسعت ہے کہ انسان کو صرف انسان کے روپ میں دیکھتا ہے اس کے کرب اور تکالیف کو محسوس کرتا ہے ۔اس کے نزدیگ رنگ ، نسل ، زبان اور مذہب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ انسان ہر صورت میں مقدم ہے۔
شاکر شجا ع آبادی کو ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے 14 اگست 2006 میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نواز ا گیا۔
مرے رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کر دے
کہ روٹی رات دی پوری کریندے شام تھیں ویندی
انھاں دے بال ساری رات روندن بھک تو سوندے نئیں
جنھاں دی کیندے بالاں کوں کھڈیندے شام تھی ویندی
میں شاکر بھکھ دا ماریا ہاں مگر حاتم توں گھٹ کئی نئیں
قلم خیرات ہے میری چلیندے شام تھی ویندی
=========================
کیہندے کتّے کھیر پیون کیہندے بچّے بھکھ مرن
رزق دی تقسیم تے ہک وار ول کجھ غور کر
غیر مسلم ہے اگر مظلوم کوں تاں چھوڑ دے
اے جہنمی فیصلہ نہ کر اٹل کجھ غور کر
72 حور دے بدلے گزارہ ہک تے کر گھنسوں
71 حور دے بدلے اساں کوں رج کے روٹی دے