(Last Updated On: )
شاعرِ مشرق ، ترجمان حقیقت، حکیم الامت، مصورِ پاکستان حضرت علامہ اقبال نے اپنی کتاب بال جبریل میں شامل اپنی نظم ذوق و شوق میں جس کے اکثر اشعار فلسطین میں کہے گئے ،کہا ہے:
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدہ ٔ تصورات
انہوں نے عشق کو عقل و دل و نگاہ کا مرشد کہا ہے۔ اور یہ بات ہے بھی درست۔ عشق ہو تو انسان کسی مرشدِ کامل کی بارگاہ میں اور کسی مرشدِ کامل کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتا ہے اور اس سے رشد و ہدایت کا خواستگار ہوتا ہے۔ عشق ہی سے انسان اپنی زندگی کسی کے نام لگا دیتا ہے ۔اقبال ہی کہتے ہیں:
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزیؒ نہ شد
اللہ کے اولیائے کرام اللہ سے ملادیتے ہیں ۔انسان کا ضمیر روشن کردیتے ہیں :
نگاہِ ولی میں یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
عصرِ حاضر میں جب نئی نسل کے سامنے صرف انٹرنیٹ ہے موبائل ہے وڈیو گیمز ہیں سوشل میڈیا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ایسے عالم میں یہ نسل کتاب سے دور ہو گئی ہے اور جناب حکیم پیرصوفی نذیر احمد قادری آستانہ عالیہ غوثیہ قادریہ دیولیہ محلہ دیول شریف نگر چک ۶۶ ج ب جھنگ روڈ ائیر پورٹ فیصل آبادنے’’ آدابِ مرشد‘‘ لکھ کر جہاں کتاب دوستی کا ثبوت دیا وہاں مرشد سے عشق اور محبت کا درس بھی دیا تکریم و تعظیم ِ مرشد کے باب میں یہ ایک بہترین کتاب ہے ۔ یہ کتاب پہلی بار ۶ مارچ۱۹۵۸ میں شائع ہوئی تھی اوربہ اجازت جناب حضورپرنور مرشدِ کامل تاجدار دیول شریف حضرت قبلہ محمد عبدالمجید احمد خضری قادری سالانہ عرس پاک فیض آباد مری روڈ راولپنڈی میں تقسیم کی گئی اور اب ۶۳ برس بعد۲۰۲۲ میں دوبارہ شائع ہو رہی ہے یہ اس کا دوسرا ایڈیشن ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طاہری عمر مبارک ۶۳سال کے حوالے سے ۶۳ کا مبارک عدد بھی دوسرے ایڈیشن کو میسر آگیا ہے۔اس کے مصنف پیر طریقت ، رہبرِ شریعت پیر سید اظہار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ سیف خضری قادری آستانہ عالیہ غوثیہ قادریہ اظہاریہ دیولیہ ٹلو روڈ صادق آباد شریف ہیں۔جو اپنے پہلے دیباچہ میں رقم طراز ہیں’’میرے دوستوں کی مدت سے آرزو تھی جس سے ہم پیر و مرشد کی تعظیم سمجھ سکیںاس لئے یہ کتابچہ ــ’’ آدابِ مرشد ــ‘‘ کے نام سے تیار کیا ۔عوام الناس کی واقفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بالکل سادہ الفاظ اور کئی چیزوں کا اضافہ کردیاہے تاکہ عوام و خواص کی مکمل رہنمائی ہو سکے ‘‘۔
اس کتاب میں انہوں نے حضرت انسان اور اس کی حقیقت، نماز کا بیان، تصور شیخ، رموزِ معرفت،بیعت، بیعت سے متعلق حدیثِ مبارکہ، فضیلتِ علم، عبادت میں خدا کا تخیل ،درود پاک کی فضیلت،اذان کے بعد درود شریف پڑھنا، فرمانِ غوث پاک، انسان خدا کی یاد سے غافل،قلب اور ذکر،رب کو اچھی صورت میں دیکھنا،کثرتِ ذکر اللہ، درس ہدایت ،سلاسل تصوف کا بیان، سلاسل طریقت کی تفصیلات،طریقہ سلسلہ قادریہ، بزرگانِ دین کے ذکر و اذکار کا بیان، طہارت تزکیہ، امیری و فقیری بیماری و صحت میں حکمتِ الٰہی،امراض دل کا علاج، شیخ کامل سے تلقین و ذکر کی ضرورت اور اس کی خصوصیات، طریقت کی اصطلاحات جیسے نادرو نایاب اور منفرد و یگانہ مو ضوعات اور عنوانات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
انہوں نے اپنے مو ضوعات کی تفصیلات قرآنی آیات، احادیثِ نبوی، اقوال و فرامینِ اولیائے کرام و مشائخ عظام اور ان کی حکایات سے بیان کی ہیں اور دلا ئل و براہین کے انبار لگا دیے ہیں اپنی زبان انتہائی سادہ رکھی ہے تاکہ سب لوگ اسے سمجھ جائیں۔ یہ کتاب دورِ حاضر میں ہر سلسلہ کے سالکین و متوسلین کے لئے یکساں طور پر مفید اور فائدہ رساں ہے۔مرشد ، پیر، شیخِ کامل اور اپنے رہبرِ طریقت کے آداب پر یہ ایک معتبر کتاب ہے ۔مریدین کے ساتھ ساتھ مرشدین کے لئے رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو حکایات بیان کی گئی ہیں وہ بڑی مصدقہ ہیں اور ان کے باقاعدہ حوالے دیے گئے ہیں۔ اس کتاب کا خمیر بڑی بڑی ثقہ کتب تصوف سے اٹھایا گیا ہے انکے حوالے بھی دے دئے گئے ہیں ۔
محبت میں موافقت ضروری ہے کے عنوان سے لکھتے ہیں’’ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒفرماتے ہیںموافقت کرنا شرطِ محبت ہے،( فتح ربانی ) جو محبت کرتا ہے وہ موافقت کرتا ہے ( تفسیر جلا ء )، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒ فرماتے ہیںمحبت کا ادنیٰ درجہ موافقت ہے( کشف المحجوب )‘‘ ۔ اس طرح جو بھی بات کی گئی ہے اسکا حوالہ دیا گیا ہے ۔
نہایت قیمتی نکتے، زندگی گزارنے کے طریقے، شریعت کے زریں اصول ، طریقت اور تصوف کے اسرار سب کھول کر بیان کر دئے گئے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہماری دنیا بھی بہتر ہوسکتی ہے اور آخرت بھی سنور سکتی ہے۔اقوال بزرگانِ دین کے تحت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے اقوال بیان فرماتے ہیں:
’’ حق تعالیٰ کی محبت اور غیر کی محبت ایک قلب میں جمع نہیں ہو سکتیں ‘‘ ( فتح ربانی )
’’ ایک دل خالق اور مخلوق دونوں سے محبت کرے یہ نہیں ہو سکتا ‘‘ ( فتح ربانی )
حضرت داتا گنج بخش ؒ کے اقوال لکھتے ہیں
’’حق تعالیٰ کی ( بندے سے ) محبت کا مطلب اس کی طرف سے بھلائی کا ارادہ ہے ( کشف المحجوب )‘‘
سلطان العارفین حضرت سلطان باہو ؒ فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ کے سوااورکسی سے محبت نہ رکھو ‘‘ ( کسوٹی )
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی اور اللہ تعالیٰ کی محبت فرض ہے ‘‘ ( کسوٹی )
’’ دنیا کا طالب ہیجڑا ہے،عقبیٰ کا طالب عورت کی مثال ہے اور اللہ تعالیٰ کا طالب مرد ہے ( کسوٹی )
اس طرح یہ خوبصورت کتاب اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ ساتھ دلوں میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دولت بھی بھرتی ہے۔ اولیائے کرام کی محبت کو بھی فروغ دیتی ہے۔ یقینا اس کے قاری فلاح پائیں گے اور یہ کتاب نسلِ نو کی کردار سازی اور تعمیرِ اخلاق بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی سالکینِ روحانیت اور راہیانِ طریقت کے لئے مفید ہے ۔میں انہیں اس کتاب کی اشاعتِ دوم پر دل کی اتھا ہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
پروفیسر ریاض احمد قادری
شعبہ انگریزی ،گورنمنٹ گریجو ایٹ کالج سمن آباد، فیصل آباد
حکیم پیر صوفی نذیر احمد قادری کی تصنیف
’’آدابِ مرشد‘‘
تصورِ شیخ منازلِ سلوک کی ایک منزل ہے جس میں سالک اپنے مرشد کا تصور قائم کرتا ہے یعنی مرید کا اپنے مرشد سے لو لگانا ، مرشد کا دھیان کرناشیوخِ طریقت کے پاس بھی تصورِ شیخ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ صوفیاء کے نزدیک تصورِ شیخ عبادت نہیں بلکہ شیخ کی تعظیم یا شیخ سے رابطہ کا نام ہے۔ الغرض واجب التعظیم ہستی کا تصور قائم کرنا عبادت کے زمرے میں نہیں آتا ہے بلکہ اس عمل کا نام تعظیم ہے۔ الغرض عبادت صرف خدا کی ہوتی ہے اور واجب الاحترام حضرات کی تعظیم کی جاتی ہے ۔ اسی تناظر میں تصور بھی محبت کی ایک شاخ ہے جس سے محبت ہوتی ہے اُس کا تصور شیخ کو شرک کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
تصوّف کی تعلیمات کا تمام تر مقصد تقویٰ اور پرہیز گاری حاصل کرنا ہے اور یہی ایک ایسا ذریعہ ہے کہ جس سے اللہ کی دوستی حاصل ہو سکتی ہے ۔ا س تعلق کے ساتھ بندہ اپنے معبود کے ساتھ ہر وقت وابستہ رہتا ہے اور کوئی لمحہ اس کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔ یہ ذریعہ معرفتِ الٰہی کا ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ وَمَاخَلَقْتَ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن (القرآن)۔
امام مالک فرماتے ہیں کہ جس نے فقہ کے بغیر تصوف حاصل کیا وہ زندیق ہوا اور جس نے تصوف سیکھے بغیر فقہ کا علم حاصل کیا، وہ فاسق ہوا اور جس نے دونوں کو جمع کیا ، وہ محقق ہوا۔اس سے ظاہر ہوا کہ تصوف جزوِ دین ہے اور اُس سے انکاردین سے انکار ہے ۔ تصوف کا اصل مقصد تزکیہ ہے جس کے لیے محبتِ شیخ انتہائی ضروری ہے۔ اہل اللہ کے فیض صحبت سے وہ کچھ ملتا ہے جو کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا کیونکہ علم بھی بِلا صحبت اہل اللہ مفید نہیں۔ اس کی مثال یوں بھی لی جا سکتی ہے کہ صحابہ کرام اجمعین سب کے سب عالم نہیں تھے مگر ہر صحابی کی فضیلت دورِ حاضر و متاخرین تک کے تمام نامی گرامی محدث ، فقیہہ ، مفسر اور غوث قطب اور ابدال پر مسلّم ہے اور اس فضیلت کا مدار آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبتِ اقدس ہے۔ جس صحابی کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جس قدر رفاقت نصیب ہوئی وہ صحابہ میں زیادہ درجات کا مالک بنا۔ اسی وجہ سے اہل ِ اللہ نے فیضِ صحبت پر زیادہ زور دیا ہے ۔
’’یک زمانہ صحبت اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریاء‘‘
اگر شیخ ظاہری طور پر موجود نہ بھی ہو تو یہ فیض بذریعہ تصور سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مرشدِ کامل سے جس قدر محبت کا رابطہ ہو گا مرید دُور رہ کر بھی شیخ کے فیض سے فیض یاب ہوتا رہے گا۔ جب سالک راہِ طریقت میں قدم رکھتا ہے اور ذکر و شغل کے ذریعے معرفتِ الٰہی کا خواہاں ہوتا ہے تو اس کے دونوں دُشمن یعنی شیطان اور نفس اس کو راہِ حق سے ہٹانے اور عملِ خیر سے روکنے میں کوشاں ہو جاتے ہیں۔
تصورِ شیخ کا اصل مقصد تصورِ حق تعالیٰ قائم کرنا ہے مگر اللہ تعالیٰ چونکہ مرئی نہیں ہے اس لیے یہ تصور آسانی سے نہیں جمتا ہے اور سالک کے ذہن میں مختلف خیالات آتے ہیں ، اس لیے ایسے لوگوں کو یکسوئی حاصل کرنے کے لیے تصورِ شیخ تجویز کیا جاتا ہے۔تصورِ شیخ اگر اتنا قوی ہو جائے کہ شیخ کی صفات اس پر اس حد تک غالب ہو جائیں کہ سالک کو اپنا خیال تک باقی نہ رہے تو یہ مقام فنا فی الشیخ ہے جو سالک فنا فی الشیخ ہو جاتے ہیں اُن کی جسمانی صورت بھی شیخ سے ملنے لگتی ہے۔ یہی حال رسولِ خُدا میں فنائیت کی حالت میں ہے کہ حضرت کے صفات ، صورت شکل چلنا پھرنا، آواز سب آ جاتے ہیں اور فنا فی الرسول کے معنی بھی یہی ہیں۔
سالک فنا فی اللہ اُس وقت ہوتا ہے جب خُدا کے سوائے کسی کا خیال باقی نہ رہے اور یہ بے ہوشی کی حالت ہے۔ اس کے بعد تمام کھوئی ہوئی چیزیں مل جاتی ہیں اور نسبت الی اللہ سے غفلت نہیں ہوتی۔ جب اور ترقی ہوتی ہے اور سالک سیر الشیخ فی الشیخ ، سیرللنبی فی الشیخ اور سیر اللہ فی الشیخ سے گزر جاتا ہے توسیر الرسول فی الرسول نصیب ہوتی ہے اور آگے بڑھتا ہے تو سیر للہ فی اللنبی ہوتی ہے۔ نبی کے توسط سے تجلیات الٰہی کا ظہور ہوتا ہے ۔ تصوف سراسرادب کا نام ہے ۔ بغیر ادب کے اس راہ میں کچھ نہیں ملتا جو سالک ادب سے محروم رہتا ہے وہ مقامِ قرب سے دور اور مقامِ قبولیت سے محروم رہتا ہے۔جان لو کہ سلوک کی منزل طے کرنے والا کوئی بھی شخص مشائخِ عظام کی محبت اور اُن کے اچھی طرح آداب بجا لانے اور اُن کی بہت خدمت کیے بغیر طریقت کی اچھی حالت پر کبھی نہیں پہنچا۔ کوئی انسان اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کا قرب نہیں پا سکتا جب تک وہ مکمل طورپرادب کے اصولوں کو اپنا نہیں لیتا۔ اخلاقِ حسنہ ادب کے اصولوں سے ہی حاصل ہوتا ہے جو نفس کے حالتِ مطمئنہ حاصل کرنے کے لیے سیڑھی ہے۔ ایمان کے لیے توحید ضروری ہے جس میں توحید نہیں اس میں ایمان نہیں، شریعت کے لیے ایمان ضروری ہے جہاں شریعت نہیں، وہاں نہ ایمان ہے نہ توحید۔۔۔شریعت کے لیے ادب ضروری ہے اس لیے کہ جہاں ادب نہیں وہاں نہ شریعتہ ہے نہ ایمان نہ توحید ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں’’ادب کو ظاہر اور باطن دونوں حالتوں میں اختیار کرو ، اگر کسی نے ظاہری طور پر بے ادبی کی تو اُسے ظاہری طور پر سزا ملے گی۔ اگر کسی نے باطنی طور پر بے ادبی کی تو اُسے باطنی طور پر سزا ملے گی۔
محترم حکیم پیر صوفی نذیر احمد قادری جو ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ایک متحرک قلم کار ہیں۔ اپنی ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے وہ اپنے مریدین عقیدت مندان اور دوستوں میں تحریر و تقریر سے اُن کی اصلاح کا کام کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کئی معطر و منبر تصانیف پیش کی ہیں جس کا ہر پھول اپنی جگہ پر تازہ ، پُربہار ، خوشبو دار اور معطر و مطہر ہے کہ اس کے دم قدم سے صحرائے فکر و خیال بھی بھینی بھینی خوشبو سے مہک مہک کر گلستانِ تخیل کا روپ دھار گیا ہے۔
حکیم پیر صوفی نذیر احمد قادری نے بہت زیادہ عشق و عقیدت ، ارادت اور مؤدت سے سیرت رسولِ عربی و معجزات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سدا بہار پھُول پیش کیے ہیں کہ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ان حسین خصائل کو پڑھنے والے بھی اپنے دلوں میں حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا جذبہ موجزن پاتے ہیں۔
زیرِ نظر تصنیف میں انھوں نے ’’آدابِ مرشد‘‘ کے حوالے سے قلم اُٹھایا ہے ۔ اس میں بھی ان کی تحریر میں شستگی، شیفتگی اور وارفتگی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنی اس تصنیف میں ’’آدابِ مرشد‘‘ کے گراں قدر تحفہ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنی بات کو مدلل بنانے اور ہدایت کا راستہ بتانے کے لیے بات سمجھائی ہے۔ کتاب کا اسلوب بیان خطیبانہ ہے۔ فاضل مصنف نے بیانیہ انداز اختیار کرنے کے بجائے قاری سے براہِ راست مخاطب ہونے کو ترجیح دی ہے۔ حکیم پیر صوفی نذیر احمد قادری صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ قدیم و جدید علوم پر آپ کی گہری نظر ہے۔ آپ صاحبِ مطالعہ اور بالغ نظر عالمِ دین ہیں۔ انتہائی عالمانہ اور مربوط گفتگو اور واعظ سے دوسروں کے دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔ نہایت دقیق اور پیچیدہ فنی مباعث کو عام فہم اسلوب میں بہت خوبی سے پیش کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ عالمِ اسلام کی صورتِ حال پر آپ گہری نظررکھتے ہیں۔انھوں نے اپنی اس تصنیف ’’آدابِ مرشد‘‘ میں احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بیعت کے بارے میں خاطر خواہ معلومات فراہم کر کے سالک کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ مرشد کی ذمہ داریوں اور مریدین کے فرائض کو بھی بہ احسن طریقے سے بیان کیا ہے۔انھوں نے مرشد کا مرید کو برائی سے بچانے کے بارے میں خوب صورت راستہ بتانے کے ساتھ ساتھ کئی حکایات بھی بیان کی ہیں۔ ولی اللہ کا طریقت کے بارے میں ارشادات کو بھی عمدہ انداز میں پیش کیا ہے۔ بزرگانِ دین کے اقوال اور تزکیہ نفس کی وضاحت اور اس کی اقسام ، اولیا ء کرام کے فرمودات و ارشادات جیسے گوہرِ نایاب سے مالا مال کیا ہے۔ ’’آدابِ مرشد‘‘ کو قرآن ، حدیث اور کتب سیرت، تصانیف بزرگانِ دین سے مزید مستند بنایا ہے۔ ان کے مضامین میں تنوع، ورائٹی، جِدت اور عصرِ حاضر سے مطابقت پائی جاتی ہے۔
حکیم پیر صوفی نذیر احمد قادری نے عقیدت و محبت سے دُھلی ہوئی بڑی پاکیزہ زبان استعمال کی ہے جس میں حلاوت بھی ہے اور زبان کی طراوت بھی ہے۔ مصنف نے انتہائی احتیاط اور عشق و عقیدت سے خامہ فرسائی کی ہے ۔ا نھوں نے باوضو ہو کر عجز و انکسار اور عقیدت سے ’’آدابِ مرشد‘‘ تحریر کی ہے۔ میں اس خوب صورت تصنیف’’آدابِ مرشد‘‘ کی اشاعت پر اُنھیں ہدیۂ تہنیت پیش کرتا ہوں اور ان کے لیے دین و دُنیا میں کامرانیوں اور کامیابیوں کے لیے دُعا گو ہوں:اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ____!