بنی ہوئی ہے ڈھال وہ میری خاطر حیدرؔ
مِرے مخالف کو جو کماں جیسی لگتی ہے
۔۔۔۔عام طورپرماہرین کا خیال ہے کہ کسی بچے کے بعد جو بچہ پیداہوتاہے ان دونوں میں خوامخواہ کی مخاصمت پیداہوجاتی ہے۔ دراصل پہلا بچہ یہ سمجھتاہے کہ بعد میں آنے والے نے اس سے اس کی ماں کی محبت چھین لی ہے۔۔ اسی طرح ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ پہلوٹھی کی اولاد اور باپ میں بھی ایک اندرونی مخاصمت ہوتی ہے کیونکہ عورت کی توجہ شوہر سے ہٹ کر پہلے بچے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ یہ دونوں باتیں عمومی طورپر بڑی درست پائی جاتی ہیں لیکن آپی کی حد تک یہ دونوں باتیں غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ پہلی اولاد ہونے کے باوجود اباجی کو ہمیشہ آپی سے بے حد محبت رہی۔ میں آپی کے بعد پیداہوا مگر ہم دونوں میں جو محبت ہے وہ شاید کسی اور بہن بھائی کے حصے میں نہیں آسکی۔ ماہرین کی دونوں باتیں غلط ثابت ہوئی ہیں تو یہ سراسر آپی کی اپنی خوبی ہے۔آپی کی اور میری عمر میں ایک سال ،ایک مہینہ اور ایک دن کا فرق ہے۔بچپن میں جب کوئی ہم سے عمر کا فرق پوچھتاتو ہم بڑے مزے سے کہتے ایک سال، ایک مہینہ، ایک دن، ایک گھنٹہ، ایک منٹ ایک سیکنڈ۔۔ میری پیدائش پر آپی کمزور ہونے کے باوجود مجھے گود میں لے کر بیٹھتی۔ کاکا۔۔کاکا۔۔ کہہ کر باتیں کرتی۔ بچپن میں اکثر میں آپی کوڈرایاکرتاتھا اور زیادہ تر ڈرانے کی وجہ سے ہی اباجی سے مارکھایاکرتاتھا۔
۔۔ ۔بچپن کے واقعات میںسے مجھے یادآرہاہے۔ جب ناناجی ابھی ہندوستان میں ہی تھے، ہم ناناجی سے ملنے گئے۔ وہاں شہر کے چوک سے گلی کے موڑ پر ایک کنواں تھا جہاں سکھ حضرات کھلے عام نہایاکرتے تھے۔ ہم دونوں ایک دیوار کی اوٹ سے انہیں دیکھتے۔ بیک سائڈ سے لمبے بالوں کے باعث ہم انہیں عورتیں سمجھتے اور سوچتے کہ کتنی بے شرم عورتیں ہیں مگر جب ان کے چہرے سامنے آتے تو داڑھیوں کا ماجرا ہماری سمجھ میں نہ آتااور ہم پریشان ہوکرگھر کی طرف دوڑجاتے۔۔ باباجی کی گراموفون مشین کو ہم ہمیشہ حیرت سے دیکھتے۔ ریکارڈ بجتاتو ہم گانے کی طرف توجہ کرنے سے زیادہ گانے والوں کی تلاش شروع کردیتے۔ کبھی بھونپو میں سے جھانکتے، کبھی لکڑی کے بکس کو کھٹکھٹاتے۔ ہم یہی سمجھتے تھے کہ گیت گانے والے یہیں کہیں چھپ کرگارہے ہیں۔۔ میں سادگی اور بھولپن میں آپی کازیادہ دیر تک ساتھ نہ دے سکا۔ خانپور میں ہمارے گھر کے سامنے محکمہ صحت کی طرف سے حفظان صحت کے سلسلے میں فلم دکھائی گئی۔ فلم کے دوران دلچسپی برقرا رکھنے کے لئے وقفے وقفے سے فلمی گیت بھی دکھائے، سنائے گئے۔
’’رم جھم رم جھم پڑے پھوار۔ تیرا میرانت کا پیار ‘‘اس گیت کاسین دیکھا۔ ہیرو ہیروئن دو جھولوں پر بیٹھے جھولاجھول رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی برسات ہورہی ہے اور یہ گیت گایاجارہاہے۔۔ آپی بعد میں کہنے لگی: ہائے اللہ وہ بہن بھائی جھولا جھولتے ہوئے کتنے پیارے لگ رہے تھے۔ بس یہاں سے سادگی اور بھولپن کے معاملے میں ہماری راہیں ایک دوسرے سے الگ ہوگئیں۔
۔۔۔۔رحیم یارخاں میں ہمارے ایج گروپ میں بڑے پیارے پیارے بچے شامل تھے۔ آپا حفیظ، رضیہ(لجو) صفیہ(تپو)، سعیدہ، بشیراں، نسیم، ظفر، بشیر حقہ۔۔ بعد میں آپا حفیظ زچگی کے کیس کے دوران فوت ہوگئی۔ رضیہ ایئرہوسٹس بن گئی مگر اچانک(؟) فوت ہوگئی۔ سعیدہ بے چاری ویسے ہی رسموں رواجوں کی بھینٹ چڑھ کر زندہ در گورہوگئی۔ صفیہ اب لاہور میں ایک اچھی جاب پر ہے۔ بشیراں اور نسیم گھریلو زندگی نبھارہی ہیں۔ ظفرڈرائیوربن کر امارات کی طرف نکل گیاہے۔ بشیرحقے کا پتہ نہیں چلاکہ اب کہاں ہے۔ ہم شام کے وقت گھر والی گلی میں سٹریٹ لائٹ کے نیچے مختلف قسم کے کھیل کھیلاکرتے تھے۔ خاص طورپر ایک کھیل۔۔ ’’مائی نی مائی تنور تپیاکہ نائیں‘‘۔ ایک اوٹ پٹانگ ساگیت بھی ہم نے بنایاہواتھا:
اللہ ڈوایا۔۔ چکی تلوں آیا(اللہ ڈوایا۔۔چکی کے نیچے آیا)
اُتّوں ماریاکھَلاتلوں نکل آیا(اوپر سے جوتارسید کیاگیاتو نیچے سے نکل آیا)
۔۔۔۔جس دوست کے ساتھ جھگڑاہوجاتا۔اللہ ڈوایاکا نام کاٹ کر اس دوست کے نام کو اللہ ڈوایاکے وزن تک کھینچ کھانچ کے لے آتے اور گیت شروع کردیتے۔ ناراض دوست مارنے کو لپکتااور یوں پھر سے صلح ہوجاتی۔ ان سب بچوں میں آپا حفیظ سے آپی کی دوستی بہت گہری تھی۔ زبیدہ جسے بچپن میں ہم بلوکہتے تھے ایک دفعہ اباجی کی دوکان پر آئی اور کہیں دوکان کے اندر ہی جاکرسوگئی۔ اباجی نے سمجھا بیٹی گھر چلی گئی ہے۔ شام کو دوکان بندکرکے آئے تو امی جی نے پوچھا: بلوکہاں ہے؟۔ اباجی نے سمجھا امی جی نے بلو کو چھپایاہواہے اور جان بوجھ کر مذاق کررہی ہیں لیکن جب پتہ چلاکہ بلوواقعی موجود نہیں توپھر ہمارے گھر میں ہی نہیں سارے محلے میں افراتفری مچ گئی۔ تب آپی، میں اور ہمارے ایج گروپ کے بچے بلو کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ محلہ قاضیاں سے لے کر ریلوے اسٹیشن تک گئے۔ سب باری باری ایک ہی صدا لگاتے ’’اے بلو۔اے۔۔۔۔۔‘‘ جب ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے تو گھر لوٹ آئے۔ اس دوران اباجی کو اچانک دوکان چیک کرنے کاخیال آگیاتھا اور وہ بلوکو وہاں سے گھرلاچکے تھے۔ اس رات آپی اور میں دیر تک بلوکو پیار کرتے رہے۔
۔۔۔۔بچپن میں آٹاپسوانے، کنویں سے پانی بھرکرلانے اور ٹال سے لکڑیاں لانے کے کام ہم دونوں بھائی بہن نے مل کر کئے۔ بعد میں زبیدہ اور شاہدہ نے بھی ان مشقتوںمیں ہمارا ہاتھ بٹایا۔ جب آپی کو کم عمری میں ہی برقعہ پہنادیاگیاتو آپی نے گھرکا سارا کام سنبھال لیا۔ میرا خیال ہے گھر کے کام کاج میں امی جی کو جتنا آرام ملا،آپی کی وجہ سے ملا،یاپھر مبارکہ کی وجہ سے۔۔ ۔والدین کی خدمت کے بعد آپی کو سسرال جاکر اپنے سسر کی خدمت کاموقعہ ملا۔ یہ بزرگوں کی دعائیں ہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپی کو پانچ بیٹے اور ایک بیٹی کی دولت عطاکی۔ سارے بچے خوبصورت اور صحت مند ہیں۔ عرفان، عمران، کامران،صائمہ یکے بعددیگرے پیداہوئے پھرلقمان اور نعمان (جنہیں ہم پیارسے چوچو اور نوماکہتے ہیں)جڑواں پیداہوئے۔ پی اے ایف کے رہائشی ایریا میں دونوں بچوں کی وجہ سے بڑی شہرت ہوئی۔ آپی جہاں بھی جاتی بچوں کو ایک ٹوکری میں فٹ کرکے بٹھادیتی اور مزے مزے سے ٹوکری اٹھائے شاپنگ سنٹر یاہسپتال سے ہوآتی۔ جڑواں بچوں کی ٹوکری دیکھ کے لوگ لطف اندوز ہوتے اور باری آنے سے پہلے آپی کو باری مل جاتی۔بھائی عبدالرحیم ہنس مکھ اور خوش مزاج انسان ہیں۔ محنتی اور مشقتی بھی بہت ہیں۔ محنت کے نتیجہ میں ان کا جسم خاصامضبوط ہے۔ یہی مضبوطی ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوئی ہے۔ ایک دفعہ ٹرین کے سفر میں آپی کا منجھلا بیٹاکامران میرے ساتھ تھا۔ رات کو میں نے اسے اوپر کی برتھ پر سلادیا۔ رات کے کسی لمحے میں کامران لڑھک کر نیچے آن گرا۔ میں گھبراگیاکہ بچے کاکوئی ہاتھ، پاؤں فریکچر نہ ہوگیاہو۔ کامران نے بولائی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھااور پھر سوگیا۔ منزل مقصود پر پہنچ کرمیں نے کامران سے پوچھا:
’’بیٹے!کہیں ٹانگ یا بازو میں تکلیف تو نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں تو۔۔ ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔ لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘کامران نے الٹا مجھ سے سوال کیاتومیں نے اسے بتایاکہ رات تم برتھ سے نیچے گرگئے تھے۔ یہ بات سن کر کامران نے لاعلمی اور حیرت کا اظہارکیااور میں اس کی حیرت پر حیرت زدہ رہ گیا۔گھر آکر عزیزوں کو یہ بات بتائی تو ایک عزیز نے کہا:آپی کے سارے بچے ماشاء اللہ پتھر اور لوہے کے بنے ہیں۔ اگر چھوٹے چوچوکومکان کی چھت سے نیچے پھینکیں تو فرش اکھڑجائے گا، چوچو کو کچھ نہیں ہوگا۔ ہرچند یہ بات مذاق میں کہی گئی تھی تاہم یہ حقیقت ہے کہ آپی کے بچے جتنے خوبصورت اور سمارٹ ہیں اتنے ہی مضبوط جسم کے مالک بھی ہیں۔
۔۔۔۔آپی فطرتاً نیک دل اور رحم دل ہے۔ دوسروں کا دکھ سن کر رونے بیٹھ جائے گی۔گھرمیں جو کچھ ہوگا(حسب توفیق) سائل کودے دے گی۔ البتہ اپنی معصومیت اور بھولپن کی وجہ سے کسی غلط فہمی میں مبتلاہوجائے تو پھر اسے دور کرنے میں بھی خاصاوقت لگتاہے۔۔۔۔میں اپنے پیچیدہ حالات کے باعث سنگین مسائل میں گھراہواتھا۔ میرے بعض سوتیلے عزیز جنہیں بعض دوسروں پر اپنے سوتیلے پن کازہرنکالناتھامگر وہ ان کی دسترس میں نہیں تھے انہوں نے ان کے متبادل کے طورپر مجھے ہی نشانہ بنالیا، گھات ایسے لگائی کہ میرے ماں جایوں کو آگے کردیا۔ قریبی عزیز دشمن بن گئے۔ خون کے رشتے ’’خونی رشتے‘‘ بن گئے۔ سوتیلے عزیز اپنی فتح مندی پر نازاں تھے۔ میری مجبوری کچھ اور تھی
احباب کے تیروں کے تو ہم عادی تھے حیدرؔ
اس با ر مگر بھائی تھے، احباب نہیں تھے
ہرچند اب میں سنبھل گیاہوں اور اس پوزیشن میں ہوں کہ سارے کرم فرماؤں کے قرض سود سمیت انہیں واپس کردوں۔ تاہم اس سارے تماشے میں آپی کا کردار بڑا مضبوط، توانااور مثالی رہا۔ ایک بھائی اور بھابھی۔۔ آپی کو میرے خلاف بھڑکانے گئے۔ آپی کو جتنی باتیں معلوم تھیں انہیں کی حد تک جواب دیتی رہی۔ جب وہ چرب زبانی سے چالاکی دکھانے لگے تو آپی نے انہیں دوٹوک لفظوں میں کہا: میں حیدراور مبارکہ سے تعلق نہیں توڑسکتی۔ تم سمجھتے ہومیں حیدر سے تعلق توڑلوں گی۔اگر حیدر خود بھی مجھے چھوڑدے میں تب بھی اسے نہیں چھوڑوں گی۔
۔۔۔۔جب مجھے اپنے ذرائع سے اس بات کا علم ہوامجھے یوں لگاجیسے میں چاردن کا بچہ ہوں جسے ایک سال ،ایک مہینہ اور پانچ دن کی کمزور سی آپی نے اپنی گود میں اٹھایاہواہے۔ مجھے اٹھائے اٹھائے وہ تھک گئی ہے مگر پھر بھی پیارسے ’’کاکا۔۔۔کاکا‘‘ کہے جارہی ہے۔ پھر کاکا۔۔کاکا۔ کہتے ہی وہ بڑی ہوتی جارہی ہے۔ اتنی بڑی کہ صرف میرے چہرے پر بیٹھنے والی مکھیوں کوہی نہیں اڑاسکتی بلکہ مجھے کووّں، چیلوں اور گِدھوں کے حملوں سے بھی محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اسی لمحے مجھے جیسے محسوس ہوتاہے کہ میری مری ہوئی ماں دوبارہ جی اٹھی ہے۔
یہ محسوس ہوتاہے جیسے
کوئی غم زدہ، بے نشاں چاپ
میرے تعاقب میں
اک نرم جھونکے کی صورت چلی آرہی ہے
کوئی ہے۔۔جو میرے عقب میں
محبت کی نمناک خوشبوبکھیرے
امڈتے ہوئے تیز شعلوں سے مجھ کو بچائے
مرے ہر قدم کی سلامت روی کے لئے
التجاؤں، دعاؤں کی برکھامیں خود کو بھگوئے
مرے سرپہ آنچل کاسایہ کئے/آرہاہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔