آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ روشن دور اور ترقی کا دور کہلاتا ہے ۔اس دور میں پروانی تہذیب اخلاق اقدار و دینی افکار و نظریات کے مقابل میں مغریبی اندازے فکر اور مادی نقطہ نگاہ پھیلتا اور بڈتا جارہاہے ۔ باطل قوتیں اپنے ناقص علم و فن اور آپنی ناپیدار تہذیب و تمدن کے ذریعے اسلامی روایت اور تعلیمات کو جڈ سے اُکھاڈ پھینکنے کی منصوبہ بند کوشش کرہےہیں اور ہر طرف مغریبی تہذیب کی یلغار ہے ۔
اِس تہذیب جدید کی جھوٹی اور نمائشی چمک و دھمک نے جہاں زنداگی کے ہر شعبہ میں بگاڈ اور فساد پیدا کیا ہے، وہیں نوجوان نسل کو بےحیائ و بے شرمی کے نت نئے کلچر فراہم کئے ہیں، جن میں لونگ ریلیشن شپ، گئے کلچر، لیسبئین کلچر، بئ سکشوالٹی، ڈیٹنگ اور والینٹئن جیسے فحش چیزوں کے علاوہ اب مغرب جنسی آزادی کا نشان(سمبل) بن گیا ہے ۔ اِس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں وہ انقلاب رونما ہوا جس نے جنس سے مطالق ہر قسم کی حد و نظریات کو کاٹ دیا ہے، اور اِس طرح مغربی عناصر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے معاشرے تک پہنچ گئے ہیں ۔
جس نوجوان نسل کو ہم اپنا مستقبل سمجھتے ہیں و اِس انقلاب کا پہلا شکار ہیں، جن کی تربیت گاہ اِں کا اپنا گھر خاندان ہے و اِن کو دنیاوی تعلیم تو خوب دلانا چاہتے ہیں مگر دین سے وابستگی کی کوئی فکر نہیں رکھتے، اور وہی نسل جس کی اخلاق و تہذیب پر تاریکی چھائی ہوئی ہے وہ کل معاشرے و قوم کی جانب صحیح رہنمائی کیسے کر پائنگی۔
اسلام نے انسان کو اِس گندگی سے بچانے کے لیے نکاح کو حالال فرمایا، نکاح کے ذریعے دو خاندانوں کو جوڈا، اِن سے ایک نئے خاندان کی تنظیم کی، عورت اور مرد کو ایک دوسرے پر حق دئے، معاشرے کی پاکیزگی بحال کی اور باتن کے تحفظ کی اصلاح کی اور معاشرے کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ پابندیاں بھی عائد کی ۔
اسلام نے جہاں مردوں کو نا محرم عورتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے سے سختی سے منع کیا ہے، وہیں عورتوں سے کہا کہ وہ اپنی نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کے اسلام میں قوانین کی پابندیاں صرف عورتوں پہ لاگو نہیں کیا بلکہ یہ پابندیاں دونو مرد اور عورتوں کے لئے ہیں- یہ اس لئےکیونکے یک مرد اور عورت کے جوڑے سے الله نے دنیاں کی شروعات کی, آدم و حوا سے نسلیں پھیلائی اور آج تک اسی طرحہ و بنی آدم کو اپنی زمین پر آباد کیا ہوا ہے اور خیامت تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہےگا, تو الله کی زمین پر بسنے کے اپنے خوانین ہیں چونکے عورت یک خاندان کی زامین ہے اور مرد اس کا اور اپنے پورے کمبے کا قوّام ہے، اسی لئے یہ ایک گاڈی کے دو پہیے ہیں جو چلتے سات، تو روکتے بھی سات اور خاندان کی ذمداریاں اور بوجھ اٹھاتے بھی سات تو الله سبحان وتالٰی کے قوانین کیوں صرف یک پر و بھی دونو پر آعد ہوتی ہیں۔
ایک صالح جوڈا ایک مستحکم خاندان کی بنیاد ہے اور ہر گھر کا اسلامی ماحول نسلہ انسانی پر اور سماج پر اخلاقی و تہذیبی اثر ڈالتا ہے جس سے اسلامی معاشرے کی تعمیر ہوتی ہے۔
جس سماج میں آج ہمارا گزر ہورہا ہے اس کا ماحول محض دیکھاوے و ریا کاری سے بھرا ہوا ہے- جہاں نکاح کو اسلام نےسادہ اور آسان رکھا ہوا ہے,وہیں ہمارے بناےُ ہوے سماج میں نکاح سب سے زیادہ مشکل اور یک غریب کے لئے تو مصیبت بن گیا ہے،جس میں زیادہ تر غیر اسلامی رسومات ہی ہیں,نکاح سے پہلے اور نکاح کے بعد کی جانے والے رسم و رواجات ہی نہیں بلکے شادی اور جنم دن کی سالگرہ وغیرہ۔
یہ اسراف نہ صرف مال کا ہے بلکہ وقت اور جسمانی طاقت کے سات انسان کو ذہنی اذیت پہنچتا ہے- اخر اتنی مصیبت اور تکلیف صرف ان بےجا اصراف خُدا کو ناراض کرنے والی غیر اسلامی رسومات کے لئے کر رہے ہیں واقعی ہم نے اپنے لئے ایک نقصاندہ سودا چنا ہے، جس پر لوگ بھی کچھ وقت بات کرینگے اور پھر بھول جایئنگے۔
ان سب بُرایوں کا دوشی صرف موغریبی کلچر ہی نہیں ہمارا اس کو قوبول کرنا بھی ہے جہاں چھوٹوں نے اسے اپنایا وہیں بڈوں نے غیر اسلامی طریقے جاری کۓ, یہ سب معاشرے کے بگاڈ کے اسباب ہیں. جب ہم ہی سماج کہ تمام روگوں کے زمیدار ہیں توہمیں ہی اس کا علاج بھی کرنا چاہیے۔
▪︎کہتے ہیں ولد اس گولڈ اور سچ کہتے ہیں, نئ چیزوں کو ہم نے کافی آزمایا اور اس کا نقصان بھی جھیل رہے ہیں,آج دونیا قدیمی چیزوں کی واپس سے قدردان ہوگی ہے اور ان کو اب واپس وقت میں لانا چاہتی ہےاور ہماری قوم تو قدیم تہذیب کی جیتی جاگتی مثال ہے, ہماری سادہ زندگی, سادہ طور طریقے نہ صرف ہمارا وقت بچاتی ہیں سات ہی مال جسمانی طاقت اور ذہنی اذیت سے ہمیں محفوظ رکھتی ہیں. جس سے وہی سب ہم اپنے خاندان کے مستقبل و فلاح اور الله کی رہ میں خرچ کرسکتے ہیں۔
▪︎اپنے معاشرے کے پشت فروشوں اور غریب طبقوں کی سربلندی کے لئے کوشاں۔ عورتوں اور بچوں کو دینی و دنیاوی علوم پہنچانے کی سعی۔
▪︎صالح اجتماعیت کے ساتھ زندگی گزارئے جس سے انفرادیت سنوارجائے۔اجتماعیت ایک اور ایک دو نہیں بلکہ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں ۔ لوگوں کا ساتھ گمراہی و بگاڈ سے محفوظ رکھتا ہے اور برائیوں سے بچا سکتا ہے .
▪︎عورتوں کی خوبیوں میں ایک خوبیﷲنے یہ بھی دی ہے کے عورت آپنی بات پر کسی کو بھی آسانی سے مائل کر سکتی ہے ۔ آپ کی مخلصانہ خصوصی توجہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کر نے کا موجب بن سکتی ہے۔آپ قوموں کی معمار ہیں، شخصیتوں کی تعمیر اور انسانیت کی آبیاری آپ ہی کو کرنی چاہئے ۔
▪︎نوجوانو کی ذہنی تربیت کی فکر کرنی چاہیے, دینی تربیت دینی معاشرے کی تعمیر اور دینی اسٹیٹ کا قیام, یہ فرائض نوجوان اچھی طرح ادا کرسکتے ہیں۔
▪︎تاریخی سچے واقعیت اور دعوتی دستانے قرآن میں یوں ہی نہیں بیان ہوئیں ہیں, ان کی سبق آموزی نوجوانو پر گہرا اثر ڈالتی ہیں, ان کے گرم خوں کوبہنے کا صحیح راستہ دیتی ہیں, ان کو ایمان اور الله کی ربوبیت کی طرف متوّجه کراتی ہیں. قوم کو ان کی ہدایت کی فکر ان کی ضرورت پوری کرنےسے زیادہ کرنی چاہیے, ان کی ہمت افزائی اور حوصلہ دورست کرنا تکہ باطل اقدار اور ظالم و آنا پسندوں کے پروپیگینڈے سمجھ سکیں اور ان کی ہر چال کوخالی کردیں اور ان کے سامنے دینِ حق کی شہادت دیں اور ان پر حجت پوری کرنے کے لئے اٹھ کھڈے ہوجائیں. تب تک جب تک الله سبحان وتعالٰی کا دین قائم نہ ہوجاۓ, جس کام کے لئے نؤ انسانی کو بنایا گیا ہے و اپنے مقصد سے بھٹک گئی ہے.
اس کی شروعات اپنی اور اپنے گھر کی اِصلاح سے کی جانی چاہیے.
سوچنا اور غور کرنا بیشک یک مبارک فعال ہے, اور اہلے دانش کا شیوہ, لیکن سوچتے ہی رہ جانا, اور عمل کی طرف قدم نہ اٹھانا کاہلوں کا کام ہے۔