تبصرہ :محمد اختر شاکر ملک (خان پور )
تشنہ بہ لب خان پور کی تاریخ اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے کوئی کریدے اورحق سچ لا کر لوگوں کے سامنے رکھے ۔ مجموعی طور پر قوموں کے لیے یہ اَلمیہ رہا ہے کہ تاریخ اپنے وجود کے اعتبار سے اپنے آپ کو منوانے کے باوجود کھرا سچ سامنے نہیں لاسکی ۔ تاریخ دانوں نے اپنے مطلب کے مطالب نکال کر تاریخ کا رُخ اپنی طرف موڑ دیا ۔ دوسرا ظلم اور زیادتی یہ ہوتی رہی ہے ہم نے دوسرے کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا ، دوسروں کے عیوب نکال کر انہیں برسرِ عام اُچھالا ۔ یہ اَحساس تک نہیں رہا کہ فریقِ مخالف کے دل پر کیا گزرے گی ۔ اس موقع پر مجھے ایک مشہور واقعہ یاد آرہا ہے ، سنائے دیتا ہوں ۔
’’ایک باپ نے غم سے نڈھال فرزند سے پوچھا : بچے کیا ہوا ؟ بیٹے نے گزری کہانی سنا دی ۔ کہاکہ ابا میں کئی سال محنت کی ایک تصویر بنائی ۔ میرا یہ خیال تھا کہ یہ تصویر سب سے نہ صر ف باکمال ہوگی بلکہ ممتاز و محترم بھی ٹھہرے گی ۔ میں نے یہ تصویر یہ لکھ کر شہر کے مرکزی چوک میں لٹکا دی کہ اس تصویر میں کمی کی نشاندہی کریں ، شام کو میں یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ تصویر بالکل نظر نہیں آرہی تھی اور ہر جگہ خامیوں کی نشاندہی کر دی گئی ہے ۔ میں اس لئیپریشان بیٹھا ہوں ۔
باپ نے بیٹے سے کہا : بیٹے آپ نے تحریر ہی غلط لکھی ہے ۔ایک اور تصویر بنائو اور اس پر یہ لکھ دو کہ تصویرمیں موجود غلطیوں کی نشاندہی کریں ۔ بچے نے دوبارہ تصویر بنائی اور اسی جگہ ٹانگ دی ۔ کئی روز گزرنے کے باوجود کسی نے کوئی نشان تک نہ لگایا‘‘ ۔
چھوٹے بھائی محمد یوسف وحید نے خان پور کی ۱۲۰ سالہ علمی ادبی اور صحافتی تاریخ پر مشتمل ‘ عمدہ اور بہترین کتاب ’’ خان پور کا اَدب ‘‘ لکھ کر اہالیانِ خان پور کے لیے بہت بڑ ا کام کیا ہے ۔ لاکھوں کی آبادی والے شہر میں ماسوائے ایک دو کے کتنے لوگوں نے اس پر قلم زنی کی ہے ۔
محمد یوسف وحید اس سے پہلے بچو ں کا رسالہ ’’ بچے من کے سچے ‘‘ شائع کر کے اہالیانِ خان پور کے دِلوں پر دَھاک جما چکے ہیں ۔ ان کے عزائم دیکھ کر لگتا ہے کہ مستقبل میں یہ اپنی تخلیقات کے ذریعے ایسے کام کریںگے جو شاید کسی نے نہ کیے ہوں ۔
’’اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ‘‘
اخلاص کے ساتھ
محمد اختر شاکر ملک ( خان پور)
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...