پروفیسر ڈاکٹر امام اعظم (ولادت : 20 , جولائی 1960 ۔۔۔۔۔ وفات : 23, نومبر 2023)
پروفیسر ڈاکٹر امام اعظم (ولادت : 20 , جولائی 1960 ۔۔۔۔۔ وفات : 23, نومبر 2023) یہ جان کر دکھ ہواکہ ادبی دُنیا کا اِک چراغ اور بجھا ، اور بڑھی تاریکی ۔واٹس ایپ پر اطلاع یہ ملی ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر امام اعظم بھی اس جہان ِ فانی سے عالم جاودانی کی طرف 23نومبر 2023 کی صبح کوچ کرگئے ہیں ۔ادیب، شاعر، دانشور، محقق ، صحافی ، مقرر اور تجزیہ نگار کی حیثیت سے انہوں نے کئی دہائیں تک اپنےجوہر دکھائےاور فکری، تخلیقی اور ادبی رنگ جمائے۔اتفاق کی بات ہے کہ ان سے ٹیلی فون پر پہلی گفتگو 23نومبر2002 کوہی ہوئی تھی ۔اور ان کی زندگی کا چراغ بھی اسی تاریخ کو 21سال بعد بجھاہے۔مجھے یاد ہے پہلی بار ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے احمد ندیم قاسمی صاحب کے جشن ولادت کے حوالے سے میرے تہنیتی کارڈ پر انہوں نے دلی خوشی کااظہار کیا تھا۔ میرے والد بزرگوار محترم سید فخرالدین بلے کا حال احوال پوچھنے کے بعد انہوں نے ادبی موضوعات اور بدلتے ہوئے رجحانات پر کھل کر اظہار ِ خیال کیاتھا۔آنس معین کے کئی اشعار بھی سنائے تھےاور کہا تھاکہ معلم اردو اور کچھ دیگر بھارتی جرائد نے بھی آنس معین نمبر شائع کیا اور بھارتی ادیبوں اور شاعروں نے آنس معین کو چھوٹی عمر کا ایک بڑا دانش ور قرار دیا ہے۔میں نے کہا آپ کے علمی و ادبی کام کی جھلکیاں میری نظر سے گزرتی رہی ہیں ۔ ہمیں بھارتی ادیبوں اور شاعروں سے بھی پیار ہے۔ جب بھی کسی بڑے ادیب اور شاعر سے فون پر گفتگو ہوئی یا وہ بنفس نفیس تشریف لائے تو پاکستان اور بھارت میں تخلیق پانے والے ادب اور جدید تنقید نگاری پران سے ضرور بات ہوئی ۔ان کی باتیں اب بھی میرے کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں ۔پروفیسر ڈاکٹر امام اعظم کے انداز گفتگو ، طرز ِ احساس ، اور اسلوب نگاری پر کسی اور ادیب کی چھاپ مجھے کبھی محسوس نہیں ہوئی ۔ان کی شعری کاوشیں اور نثری نگارشات بھی میری نظر سے گزرتی رہی ہیں ۔ وہ بلاشبہ بڑے منجھے ہوئے شاعر ، دلیل کے ساتھ اپنا موقف بیان کرنے والے مقرر ، مثبت سوچ کے ساتھ کسی تعصب کے بغیر تنقید کرنے والے نقاد، ثقافتی ورثے سے پیار کرنے والی شخصیت اوربحر ِتاریخ کے پاتال سےسچے موتی ڈھونڈ کرلانے والے مورخ بھی تھے۔حالات کےنبض شناس تجزیہ کار اورایک سینئر صحافی کی حیثیت سے بھی انہوں نے بڑا نام کمایا۔تمثیل ِ نو : ادبی صحافت کا نقش ، قربتوں کی دھوپ، چٹھی آئی ہے ، نیلم کی آواز ، نصف ملاقات ، یہی کولکاتا ہے، عبدالغفار شہباز[ہندوستانی ادب کے معمار] سمیت بہت سی کتابیں لکھ کر انہوں نے جادۂ ادب و صحافت پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔ ادب دوست بتاتے ہیں کہ وہ سرکاری ملازمت کے دوران اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے۔اپنے ماتحت اسٹاف کے ساتھ بڑی محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ڈاکٹر خالد حسین خاں نے بہت خوبصورت ۔کتاب جہان ِ ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم ۔لکھ کر اپنی محبت کا قرض بھی ادا کیا ہے اور ڈاکٹر امام اعظم کی تہذیبی ، علمی ، ادبی ، صحافتی شخصیت کے خدوخال کو بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کیاہے۔بلاشبہ منفرد انداز ِ بیان ان کی پہچان تھی۔ جو لکھا ، بے مثال لکھا ، مجھے نہیں لگتا کہ وہ ہمیں چھوڑ گئے ہیں ۔وہ اپنی نگارشات میں زندہ ہیں اور تادیر زندہ رہیں گے۔لگتا ہے کہ میرے والد ِ بزرگوار سید فخرالدین بلے مجھے جھنجوڑ کر اپنا شعر یاد دلارہے ہیں ۔ شعر آپ بھی سن لیں
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
اس شعر نے بہت سی یادوں کی کھڑکیاں کھول دی ہیں ۔چند برس پہلے امام اعظم نے ایک بڑا خوبصورت مضمون لکھ کر بڑی محبت کے ساتھ مجھے بھجوایا تھا۔یہ یادگار تحریر بھی میں اسی لئے اپنے مضمون کے آخر میں شامل کررہاہوں تاکہ دنیا امام اعظم کا نثری رنگ بھی دیکھ لے اور انہیں یقین آجائے کہ زندہ تحریریں لکھنےوالے ادیب تادیر زندہ رہتے ہیں یا بقول سید فخرالدین بلے
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
اب ملاحظہ فرمائیے، پروفیسر ڈاکٹر امام اعظم کی یادگار تحریر ، بعنوان سید فخرالدین بلے ، ادب و ثقافت کا قطب مینار
. سید فخرالدین بلے ۔ ادب و ثقافت کا قطب مینار
. تحریر: ڈاکٹر امام اعظم،
ریجنل ڈائریکٹر(مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی) کولکاتا
مصرعۂ اقبال ’’ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہاں گیری‘‘ اگر کسی پر صادق آتا ہے ، تو وہ تھے سید فخر الدین بلّے صاحب جن کے ذوقِ جدت سے کبھی ترکیب پایاتھا مزاجِ روزگار— روایت ہے کہ سلطان الاولیاء خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اپنے صاحبزادہ فخر الدین کو پیار سے ’بلّے‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ہاپوڑ ضلع میرٹھ کے ایک خانوادۂ چشتیہ میں 6؍ اپریل 1930ء کو جو لڑکا تولد ہوا، اس کے والد سید غلام معین الدین چشتی نے اپنے جدامجد کی روایت تازہ کرتے ہوئے اپنے بچے کا نام سید فخر الدین رکھا اور ’بلّے‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ لہٰذا بلّے ان کے نام کا جزو لاینفک ہوگیا۔ حضرت خواجہؒ سے خوش عقیدگی کی اس نسبت نے سید فخر الدین بلّے کودنیائے علم و ادب، ثقافت و صحافت اور ایوانِ اقتدار تک میں ’’بلّے بلّے‘‘ کردیا۔ ہاپوڑ دو چیزوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے؛ ایک پاپڑ اور دوسرے بابائے اردو مولوی عبدالحق لیکن بلّے صاحب کے لازوال کارناموں نے بھی ہاپوڑ کے دامنِ شہرت میں ایک تیسرا ستارہ ٹانک دیا۔
بلّے صاحب نے مقامی اسکول کے ذریعہ ۱۹۴۲ء میں الٰہ آباد سیکنڈری بورڈ سے میٹرک کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے جہاں سے ۱۹۵۲ء تک تعلیم حاصل کرکے ایم ۔ایس ۔سی (جیالوجی) اور جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل کیا۔تقسیم ہند سے قبل تحریک پاکستان کی آندھی چلی، اس میں بلّے صاحب ایسے بہے کہ تحریک پاکستان کے اجتماعات میں مقبول چائلڈ اسپیکر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ پھر آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سیکریٹری کی حیثیت سے تحریک کو تقویت دیتے رہے اور فراغتِ تعلیم کے بعد17نومبر 1952ء کو ہجرت کرکے کراچی، پاکستان پہنچ گئے۔ 1953ء میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے آفیسر کی حیثیت سے بہاولپور میں پہلی پوسٹنگ ہوئی۔ یوں تو عہدہ جاتی تبادلوں اور ترقی نے انہیں محکمہ در محکمہ گھمایا ۔یہاں تک کہ مقتدر اعلیٰ کے درباروں تک پہنچایا مگر شہرِ اولیاء ملتان انہیں زیادہ بھایا۔ اس لئے 1990 میں سبکدوشیٔ ملازمت کے بعد یہیں مقیم رہے اور 28؍جنوری 2004 کو انتقال کیا لیکن پہلی سکونت گاہ بہاولپور ہی ان کی آخری قیام گاہ ٹھہرا اور یہیں مدفون ہوئے۔
موصوف کا تعلق خانوادۂ صوفیا سے ہے ۔اس لیے تصوف کا درک موروثی تھا۔ ان کا خانوادہ سرسید تحریک اور پھر آزادی کی تحریک میں بھی پیش پیش رہا ۔لہٰذا انہیں بچپن سے زعمائے ملت و قوم اور ادباء و شعراء مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا حسرت موہانی، بابائے اردو مولوی عبدالحق، پروفیسر رشید احمد صدیقی، جگر مرادآبادی، تلوک چند محروم، علامہ نیاز فتح پوری، علامہ سیماب اکبرآبادی، سر شاہ نواز بھٹو ، مولانا عبدالسلام نیازی سمیت نامور و قد آور شخصیات کی صحبتوں میں بیٹھنے اور ان سے فیض پانے کے مواقع ملے۔ اس وجہ سے سائنس کے طالب علم ہونے کے باوجود ان کے مطالعے کا دائرہ علم و ادب و فنون لطیفہ کے متعدد شعبوں میں محیط تھا اور ان کے تفنن طبع نے بھی شوقِ مطالعہ کو تنوع بخشا۔ اس لئے ان کو تقریر و تحریر دونوں پر ایسی قدرت حاصل ہوئی کہ طلبا، اساتذہ اور اکابرین کے طبقے میں مقبول رہے۔ اس بابت ممتاز ناقد ڈاکٹر وزیرآغانے جو تحریر ثبت کی، اس پر کہیں بھی انگلی رکھنا ممکن نہیں کہ ڈاکٹر وزیرآغا نے لکھا ’’قدرت نے انہیں اعلیٰ ذوقِ نظر ہی عطا نہیں کیا، دل کی بات کو لفظوں میں ڈھالنے کا گُر بھی سکھایا ہے۔ ان کی نثر اتنی پختہ ، نین نقش کی اتنی صحیح اور لفظوں کے انتخاب کے معاملے میں اس قدر سخت مزاج ہے کہ کسی فقرے پر تو کجا ، ان کے استعمال کردہ لفظ پر بھی انگلی رکھنا بہت مشکل ہے۔ اس پر مستزاد ان کا وسیع مطالعہ ہے۔ انہوں نے کتابوں کو خود پر لادا نہیں بلکہ انہیں ہضم کیا ہے اور پھر ان کے مطالبہ کو اپنی سوچ سے ہم آہنگ کرکے بڑے خوبصورت انداز میں لفظوں کے حوالے کردیا ہے”۔
خوش مزاجی اور خوش لباسی انہیں باوقار اور پُرتمکنت بناتی تھی تو ان کی خوش گفتاری ایسی تھی کہ جو ان سے ملتا گرویدہ ہوجاتا، جس اسٹیج سے خطاب کرتے مجمع کو مسحور کردیتے، تواضع ان کا خاصّہ اور مروّت و رواداری ان کا شعار رہی۔ اس طور فعال و باغ و بہار زندگی انھوں نے گذاری۔
بیت بازی کے چسکے نے شعری شعور پیدا کیا تو ۱۹۴۴ء سے شاعری شروع کردی۔ شعری مقابلوں اور مشاعرہ میں پُرجوش شرکت کی ۔مشق میں تخلیقی جوہر کھلے تو مروجہ تمام شعری اصناف پر مشقِ سخن کیا اور خوب کیا۔ ریاضت نے فنی ترفع عطا کیا تو سات سو سال بعد امیر خسروؒ کی مروجہ دو صنف ’’قول ترانہ‘‘ اور ’’رنگ‘‘ کی تجدید کی اور عصری شاعری کو ’’نیاقول‘‘ اور ’’نیارنگ‘‘ دیا۔ صوفیانہ قوالی میں ’’قول ترانے‘‘سے قوالی کا آغاز ہوتا ہے اور ’’رنگ‘‘ پر اختتام ہوتا ہے۔ بلّے صاحب نے اپنی جدّتِ طبع سے حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے عرس میں گائی جانے والی قوالیوں کو نئے رنگ و آہنگ سے آراستہ کیا۔ اپنے عہد کے خاصے پرگو شاعر تھے۔ صوفیت کے خمیر نے ان سے خاصی قوالیاں ، قطعات، حمد، نعت اور مناقب بھی لکھوائیں۔ ان کے علاوہ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے ’’سوچ سفر‘‘۔ اس مجموعہ میں خوشگوار،پرزور اور پردرد نظمیں ہیں۔ کلاسیکی اور نئے آہنگ و رنگ کی نظمیں ہیں تو آزاد نظمیں اور ہائیکو بھی ہیں۔ انہوں نے شاہکار نظمیں بھی دی ہیں، ’’بھیگی صبح‘‘بھی ایک خوبصورت نظم ہے ۔ جبکہ نظم ملتان ِ ما میں ملتان کی تاریخی حیثیت کو دلکش انداز میں اجاگر کیا ہے۔ نظم ’’بارانِ کرم‘‘ کوئٹہ کی برف باری سے متاثرہوکر لکھی۔ اس میں منظر نگاری اور روانی و نغمگی غضب کی ملتی ہے۔ اس نظم کے آخری چار مصرعے دیکھیں:
یہ برف ہے یا مرگ و قیامت کی نشانی
بے رنگ، ہو جیسے کسی بیوہ کی جوانی
واللہ کہ ایمان لرزتا ہے دلوں میں
آتش کدے آباد مساجد میں گھروں میں
اس سے ہی اس نظم کے تیور کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی آزاد نظموں میں ’’تسخیر‘‘ بھی ہے۔ ان کی نظمیں پابند ہوں یاآزاد، ان میں لفظ و خیال کا رچائو ایسا ہوتا ہے کہ قلب و ذہن کو مسخر کرلیتا ہے۔نظم ’’نزول قرآن‘‘ اس کی تابندہ مثال ہے۔
ایسے ہی عنوان پر مبنی ان کی غزلوںکا مجموعہ ’”سوچ رنگ‘‘ بھی ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ بقول بلّے صاحب:
سوچ کے آسماں سے اتری ہے
دل کے آنگن میں چاندنی چپ چاپ
ان کی غزلوں میں عشق مجازی، عشق حقیقی ،ناز وغمزے، مسائل تصوف، مسائل روزگار، کشمکش حیات کی ترنگیں، عصری حسّیت کی لہریں، بدلتی اقدار اور تہذیبی تصادم کی عکسیں قدیم و جدید دونوں رنگوں میں جلوہ گر ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے ۱۹۷۹ء میں سرگودھا سے ان کے تبادلہ پر منائی گئی ایک شام میں پڑھے مضمون میں لکھاتھا:
’’پچھلے دنوں مجھے ان کی بیاض دیکھنے کا اتفاق ہوا تو میں ان کے رنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا لیکن میں چونکہ جدیدیت کا والہ و شیدا ہوں اس لئے میں ان کی جدید رنگ کی غزلوں پر سر دُھنتا رہا۔ ابھی تک میں اُن کی غزلوں کے سحرسے باہر نہیں آسکا۔‘‘
بلّے صاحب کا اشہب قلم اتنا برق رفتار تھا کہ تصوف، تخلیق، تنقید، صحافت و کالم نگاری، تمثیل نگاری اور اسٹیج و آرٹ کے میدانوں کو سر کرتا چلا گیا۔ ڈیڑھ سو سے زائد ان کی تصنیفات و تالیفات ہیں۔ روحانی بزرگوں پر مدون کتابیں اور مذہبی موضوعات و فنون لطیفہ پر مقالات انھیں تصوف پر اتھارٹی اور معتبر ادیب ثابت کرتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم‘‘ مستند تحقیقی علمی سرمایہ تسلیم کی جاتی ہے۔ ان کی تصنیف ’’اسلام اور فنون لطیفہ‘‘ کو فکرانگیز اور اہم قرار دیاگیا ہے۔ انہوں نے متعدد مضامین میں اردو اور قائد اعظم محمد علی جناح کو جن تحقیقی شواہد کی بنیاد پر ملتانی قرار دیا ہے، اس کی ابھی تک نکیر نہیں کی جاسکی ہے۔موصوف گہری سیاسی بصیرت رکھتے تھے ۔جس کے گواہ ان کے قطعات ہی نہیں بلکہ وہ بے شمار تقریریں بھی ہیں جو انہوں نے پاکستان کے صدور، وزرائے اعظم، صوبائی گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے لئے لکھی تھیں۔ اسی پر بس نہیں رہا یہ اپنے متعلقین کو بھی صاحبِ تالیف و تصنیف بنانے میں بڑے فیاض تھے۔
صحافت سے یہ دورانِ تعلیم علی گڑھ میں ہی وابستہ ہوگئے تھے۔ پندرہ روزہ ’’دی یونین علی گڑھ‘‘ کے ایڈیٹر شپ سے آغاز کیا تو بانی ایڈیٹر ماہنامہ ’’جھلک ‘‘علی گڑھ، جوائنٹ ایڈیٹر روزنامہ ’’نوروز‘‘ کراچی، جوائنٹ ایڈیٹر ’’بہاولپور ریویو‘‘، ایڈیٹر ماہنامہ ’’لاہور افیرز‘‘، ایڈیٹر ہفت روزہ ’’استقلال‘‘ لاہور، ایڈیٹر ماہنامہ ’’ویسٹ پاکستان‘‘ لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ’’فلاح ‘‘ لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنا مہ ’’اوقاف‘‘ اسلام آباد، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’’ہم وطن‘‘ اسلام آباد، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’’یارانِ وطن‘‘ اسلام آباد، بانی چیف ایڈیٹر پندرہ روزہ ’’مسلم لیگ نیوز‘‘ لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’نوائے بلدیات لاہور‘‘ اور بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’’ہمارا ملتان‘‘ رہے۔ جن شعبوں،اداروں اور محکموں سے وابستہ رہے۔ ان کے کتابچے، سوینیرز اور بروشرز ان پر مستزاد ہیں۔
انہوں نے پرفارمنگ آرٹس پر قابل توجہ اور اہم کام کیا ہے۔ انہیں تمثیل نگاری اور ڈرامے سے ایسی دلچسپی تھی کہ جب ملتان آرٹس کونسل کے سربراہ تھے تو انہوں نے 1982ء میں 25؍روزہ جشن تمثیل کا انعقاد کیا اور اس میں روزانہ نئی ٹیم، نئی اسکرپٹ اور نئے سیٹ پر مختلف قسم اور طرز کے ڈرامے پیش کئے۔ اس جشن کی بین الاقوامی طور پر شہرت ہوئی۔ اسے جس نے دیکھا اس کو تھیٹر کی دنیا کا عجوبہ قرار دیا۔ اس عظیم الشان کارنامے کے صلہ میں انہیں’محسنِ فن‘ اور ’مین آف دی اسٹیج‘ کا خطاب دیاگیا۔ درگاہ عالیہ حضرت غوث بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے سجادہ نشیں اور پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا’’سید فخر الدین بلّے نے ملتان میں ایسی بہت سی چیزوں کی بنیاد رکھی ،جس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ ان کے علاوہ انہوں نے ۲۵؍روزہ جشنِ تمثیل کا دھماکہ کرکے اسٹیج کی دنیا کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ فنون و ثقافت کے دلدادگان کو بھی چونکا دیا۔ ان کی خدمات کو دنیا کے لوگ اوراہل ِ ملتان فراموش نہیں کرسکتے۔‘‘
موصوف حد درجہ تعمیری ذہن کے حامل تھے۔ انہوں نے تخلیق کاروں، فنکاروں، شاعروں، ادیبوں، دانشوروں کی ایک تنظیم ’’قافلہ‘‘ کے نام سے بنائی تھی۔ جس کی نشستیں لاہور اور ملتان میں خود ان کی اقامت گاہ پردس برس تک ہوتی رہیں ۔ان کی خواہش پر اب قافلے کے پڑاءو بہاول پور میں تابش الوری کی رہائش گاہ پر ہوتے ہیں ۔ انہوں نے یہ دیابجھنے نہیں دیا۔ سرائیکی ویب کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ، فنکاروں کی حوصلہ افزائی، مختلف شعبوں میں ’’جوہر قابل‘‘ کی دریافت اور پذیرائی کے لئے ’’پنجند اکادمی‘‘ بنائی۔ اس کے قیام پر جو کتابچہ شائع کیا ۔اس کی ایک ایک سطر میں بلّے صاحب کے خواب دکھائی دیتے ہیں۔غیر معروف قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا جس کا نام اپنے بزرگوں سے منسوب کرکے ’’معین اکادمی‘‘ رکھا اور اس کے تحت متعدد ادیبوں کی کتابیں شائع کیں۔
لہٰذا بلّے صاحب کا شمار بلند و بالا علمی و ادبی شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان کی شخصیت کے متعدد رخ تھے اور ہررخ روشن اور اہم تھا۔وہ ممتاز شاعر، قلمکار، صحافی، ماہر تصوف، ماہر اقبالیات، ماہر ارضیات اور بیوروکریٹ بھی تھے۔ انہوں نے علم، ادب، صحافت اور ثقافت کے میدانوں میں انمٹ نقوش ثبت کئے۔ جہاں رہے، جس مقام اور عہدہ پر رہے، لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ ایسی شخصیتیں زمانے میں خال خال پیدا ہوتی ہیں، جو اپنے کارناموں کی بدولت مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہیں۔ لہٰذا موصوف خود اپنے اس شعر کی مصداق ہیں:
الفاظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
سید فخرالدین بلے ۔ ادب و ثقافت کا قطب مینار
ریجنل ڈائریکٹر (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ) ، کولکاتا ریجنل سینٹر،بھارت