💥خورشید پاکستان ۔۔حفیظ جالندھری💥
آج قومی ترانے کے خالق اور معروف شاعر ابوالاثر حفیظ جالندھری کا یوم وفات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
ابْوالاثر حفیظ جالندھری مرحوم کی شخصیت اور شاعری کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ شاہنامہ اسلام کے مصنف اور پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق، ایک سچے مسلمان اور درویش صفت پاکستانی تھے۔ بچپن میں، اکثر والد مرحوم کو ترنم کے ساتھ ”سلام اے آمنہ کے لال اے محبوبِ سْبحانی“ گنگناتے ہوئے سْنا کرتے تھے اور کبھی کبھار تحت اللفظ بھی۔اُنہیں سے حضرت حفیظ جالندھری کا اسم ِ گرامی بھی سننے کو ملا اور سلام بھی ازبر ہوا: اس کا کچھ حصہ نظر نواز ہے۔
ندا ہاتف کی گونج اْٹھی زمینوں آسمانوں میں
خاموشی دب گئی اللّہْ اکبر کی اذانوں میں
حریمِ قْدس سے میٹھے ترانوں کی صدا گونجی
مبارکباد بن کر شادیانوں کی صدا گونجی
بہر سو نغمہ صلِ علیٰ گونجا فضاؤں میں
خْوشی نے زندگی کی روح دوڑادی ہواؤں میں
فرشتوں کی سلامی دینے والی فوج گاتی تھی
جنابِ آمنہ سْنتی تھیں یہ آواز آتی تھی
سلام اے آمنہ کے لال اے محبوبِ سْبحانی
سلام اے فخرِ موجودات فخرِ نوعِ انسانی
سلام اے ظلِّ رحمانی، سلام اے نْورِ یزدانی
ترا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوحِ پیشانی!
سلام اے سرِّ وحدت اے سراجِ بزمِ ایمانی
زہے یہ عزت افزائی، زہے تشریف ارزانی
ترے آنے سے رونق آگئی گْلزارِ ہستی میں
شریکِ حالِ قسمت ہوگیا پھر فضلِ ربّانی
سلام اے صاحبِ خْلقِ عظیم انساں کو سِکھلادے
یہی اعمالِ پاکیزہ یہی اشغالِ رْوحانی
تری صورت، تری سیرت، ترا نقشا، ترا جلوہ
تبسّم، گفتگو، بندہ نوازی، خندہ پیشانی!
سلام،اے آتشیں زنجیرِ باطل توڑنے والے
سلام، اے خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے
میاں ںشمس الدین کے ہاں 14 جنوری 1900ءکو پیدا ہوئے۔ آزادی کے وقت 1947ءمیں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پورا کیا۔ انہیں شعری اصلاح کے لئے نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی مدد حاصل رہی۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنائی۔ حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر جیسے مناصب جلیلہ پر بھی فائز رہے۔ابو الاثر حفیظ جالندھری کوتمغہ حُسن کارکردگی اور ہلال امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا گیابالآخراردو شاعری کا یہ ”خورشیدِپاکستان“ 82برس کی عمر میں21دسمبر 1982ءکوہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا۔
حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ” شاہنامہ اسلام“ ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں” فردوسی “کا خطاب دیا گیا۔ حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے
💥پیدائش 14 جنوری 1900
جالندھر ہندوستان
وفات: 21 دسمبر 1982 (عمر 82 سال)
لاہور: پاکستان
پیشہ :اردو شاعر
قومیت: پاکستانی
صِنف غزل
موضوعات :حُب الوطنی, فلسفہ
ادبی تحریک تحریک پاکستان
نمایاں کام قومی ترانہ کا خالق
شاہنامہ اسلام
نمایاں اعزازات: تمغۂ حسنِ کارکردگی
ہلال امتیاز
زوجین زینت بیگم
خورشید بیگم
اہل و عیال شمش الدین (والد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فردوسیِ اسلام ابوالاثر حفیظ جالندھری کی شاعرانہ ہی نہیں بلکہ قومی حیثیت بھی محتاجِ تعارف نہیں اور ایک زمانہ اس سے آگاہ ہے۔ ملک و ملت کی جس قدر خدمت اپنی شاعری کے ذریعے حفیظ نے کی اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانی قوم کے محسنین میں ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں۔
حفیظ کی ذاتی زندگی سے آغاز کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ 1900ءمیں پنجاب کے مشہور قصبے جالندھر میں پیدا ہونے والی اس شخصیت کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ آغاز میں کسب معاش کیلئے ریلوے میں ملازمت اختیار کی اور بعد ازاں چھوٹی موٹی ملازمتیں اختیار کیں۔ ساتھ ہی ساتھ علم و ادب سے اپنی بے پناہ دلچسپی کو بھی برقرار رکھا اور مختلف جرائد اور رسالوں میں لکھتے رہے اور قلیل آمدنی کے باوجود علم و ادب کی خدمت دل و جان سے کرتے رہے۔ چنانچہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور ادبی خدمات سے بہت جلد ناموری حاصل کرلی اور نہ صرف ہندوستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شہرت نے ان کے قدم چومے۔ 1942ءمیں آپ اینٹی فاشٹ پراپیگنڈہ کے شعبہ سانگ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ میں پہلے ڈائریکٹر اور پھر ڈائریکٹر جنرل بنے۔ 1947ءمیں ڈائریکٹر جنرل مورال آرمڈ سروسز آف پاکستان مقرر ہوئے۔ 1955ءمیں فیلڈ ڈائریکٹر آف پبلسٹی ویلج ایڈمنسٹریشن بنے اور 1961ءمیں ڈائریکٹر ادارہ تعمیر نو پاکستان مقرر ہوئے۔
آغازِ قیام پاکستان میں حضرت قائداعظمؒ کے حکم پر جنگِ کشمیر میں حصہ لیا۔ آزاد کشمیر ریڈیو کی بنیاد رکھی۔ جنگِ کشمیر میں زخمی ہوگئے۔ اس طرح میدانِ جنگ کو اپنے خون سے خود بھی لالہ زار بنایا اور قدیم لشکر اسلام کے شعرا کی یاد تازہ کر دی۔ اسی طرح 1965ءمیں محاذِ جنگ پر اگلے مورچوں پر جا کر مجاہدین کا لہو گرماتے رہے۔ جنگوں میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ خود حصہ لینے کے عمل نے انہیں ایک ایسی منفرد حیثیت کا مالک بنا دیا جو کسی اور کو حاصل نہیں۔ حفیظ کا ایک فقیدالمثال کارنامہ تاریخ اسلام کو نظم کرنے کا ہے جو شاہنامہ اسلام کے نام سے مشہور ہے اور آج بھی مذہبی محفلوں میں بڑے اہتمام سے پڑھا جاتا ہے۔ حفیظ کی ایک اور وجہ عظمت انکا مصنفِ قومی ترانہ پاکستان ہونا ہے۔ سینکڑوں ترانوں میں سے حفیظ کے لکھے گئے ترانے کو قومی ترانہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ مقامِ افسوس ہے کہ وہ قومی ترانہ جو پاکستان کے طول و عرض اور بیرون ملک جہاں بھی پاکستان کے سفارتخانہ ہو وہاں بھی گونجتا ہے لیکن اس کے مصنف کو اس طرح یاد نہیں کیا جاتا جو اس کا حق ہے۔ اکثر مقامات پر ترانے کے ساتھ اس کے مصنف کے نام کو نہیں لکھا جاتا۔ حفیظ صاحب نے آزاد کشمیر کا قومی ترانہ نہ صرف لکھا بلکہ اس کی دھن بھی خود بنائی۔ قومی ترانہ پاکستان اور شاہنامہِ اسلام کی تخلیق نے حفیظ کو ایک ایسے مقام کا حامل بنا دیا جو کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ شاہنامہِ اسلام اور ترانے کے علاوہ حفیظ کی بے شمار ادبی تصانیف میں نغمہ زار، سوزوساز، تلخابہِ شیریں، بزم نہیں رزم ،چراغِ سحر، نے بہت شہرت پائی ۔ آپ نے نثر میں بھی کئی کتابیں تصنیف کیں جن میں ہفت بیکر، معیاری افسانے، نثرانے، چیونٹی نامہ بہت مشہور ہیں۔ آپ نے بچوں کیلئے بھی بےشمار نظمیں اور گیت لکھے۔
اپنی اعلیٰ شعری اور علمی خدمات کے علاوہ انہیں اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکتِ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی بھی بہت فکر تھی اور اس کیلئے انہوں نے مقدور بھر کوششیں کیں۔ جہاں ایک طرف وہ سپاہ کے شانہ بشانہ جنگوں میں حصہ لیتے رہے وہیں انہوں نے نظریہ پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں اور اسلام مخالف نظریات والے لوگوں پر نہ صرف کڑی نظر رکھی بلکہ ان کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ معروف شاعر، ادیب اور حفیظ کے فرزندِ مُتبنٰی حمید کوثر کے بقول حفیظ نہ صرف نہایت اعلیٰ پائے کے شاعر اور ادیب تھے بلکہ ایک بہت بڑی نظریاتی قوت بھی تھے جن سے الحاد پسند اور پاکستان مخالف قوتیں خائف رہتی تھیں۔ آپ مرتے دم تک پاکستان دشمنوں سے برسرِپیکار رہے۔
ملک و ملت کی بے پناہ خدمت کرنے والی اس شخصیت کی شایانِ شان پذیرائی ہم پاکستانیوں کا فرض ہے۔ لازم ہے کہ حفیظ کے کلام کو کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر نصاب میں زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے۔ یومِ حفیظ سرکاری سطح پر منانے کا اہتمام کیا جائے۔ نئی نسل کو حفیظ کے نام اور کلام سے زیادہ سے زیادہ روشناس کروایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باتیں حفیظ جالندھری کی
حفیظ صاحب کسی کے رعب اور دبدبے میں ہرگز نہیں آتے تھے اور نہ ہی کسی پر چوٹ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے۔ سب بڑے بڑوں کو ڈانٹ پلا دیتے۔ سیدضمیر جعفری اور عزیز ملک نے جو حفیظ کے بہت قریب رہے ہیں، انہوں نے کئی واقعات سنائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی کو اپنے سے بڑا نہ سمجھتے۔ کسی کی قصیدہ گوئی اور خوشامد کرنا تو درکنار وہ کسی سے جھک کر ملنا بھی کسرِشان سمجھتے۔
چاہے کوئی بہت بڑا سرکاری افسر ہو یا کوئی وزیر، وہ اپنا مقام و مرتبہ اس سے اوپر ہی سمجھتے اور اسی کے مطابق گفتگو کرتے۔ البتہ چھوٹوں سے ان کا رویہ محبت اور شفقت والا ہوتا اور عام آدمی سے برابر کی سطح پر بات کرتے۔
کس میں جرأت تھی جو وزرا سے کرسیاں خالی کرواتا جب خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل تھے تو حیدرآباد میں کُل پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ مشاعرے کی صدارت خواجہ ناظم الدین نے کرنی تھی۔ سیدضمیرجعفری راوی ہیں کہ مشاعرہ گاہ میں جانے سے قبل سبھی شاعر دوسرے ہال میں عشائیے کی دعوت میں جمع تھے۔ کھانے کے بعد سبز قہوے کا دور چلا۔ اتنے میں اعلان ہوا کہ گورنر جنرل تشریف لایا چاہتے ہیں۔ شعرائے کرام سے درخواست کی گئی کہ مشاعرہ گاہ میں تشریف لے جا کر اپنی نشستیں سنبھال لیں۔
جب شعراء جناب حفیظ جالندھری کی قیادت میں مشاعرہ ہال میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جو کرسیاں سٹیج پر شعرائے کرام کے لیے رکھی گئی ہیں، ان پر وزرائے کرام اور دوسرے سربرآوردہ معززین براجمان ہیں۔ صدر مشاعرہ کی کرسی کے علاوہ اور کوئی خالی نہیں۔
شعراء تو سٹیج کے قریب پہنچ کر رُک گئے مگر حفیظ سیدھے اوپر جا پہنچے اور شعراء کی نشستوں پر قابض وزرائے کرام سے بآوازِبلند فرمایا ’’جناب! یہ کرسیاں خالی کرکے سٹیج سے نیچے تشریف لے جائیں۔‘‘ وہ پہلے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ جب حفیظ صاحب نے اپنا مطالبہ دہرایا اور اس اثنا میں کچھ اور شاعر بھی حفیظ صاحب کی اقتدا میں سٹیج پر جا پہنچے تو ان حضرات کو اٹھتے ہی بنی۔ نیچے ہال میں بھی کوئی نشست خالی نہ تھی۔
خیر منتظمین نے دوڑ بھاگ کرکے پہلی قطار کے آگے ایک اور صف لگائی۔ ابھی یہ اکھاڑ پچھاڑ جاری ہی تھی کہ صدر مشاعرہ جناب خواجہ ناظم الدین تشریف لے آئے۔ اس اثنا میں شعرائے کرام اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ سیدضمیرجعفری بتاتے ہیں کہ حفیظ صاحب نے سٹیج پر وزرائے کرام کو عالی جاہ یا سر جیسے الفاظ سے خطاب نہیں کیا اور نہ انھیں ہنستے مسکراتے ہوئے جھک کر سلام کہا۔ اگر وہ کرسیاں خالی نہ کرواتے تو منتظمین مشاعرہ میں سے کسی کی اتنی جرات نہ تھی جو وزیروں کو جا کر کہتا کہ کرسیاں خالی کردیں اور پھر اس پر فوری عمل بھی کرواتا۔
منتظمین میں ہمت اور سلیقہ ہوتا تو وہ پہلے ہی کسی کو سٹیج پر نہ بیٹھنے دیتے اور وزراء کے لیے نیچے پہلی صف میں نشستیں خالی رکھتے۔
کس حکیم نے مشاعرے میں آنے کا کہا تھا؟
ستمبر ۱۹۶۸ء میں چٹاگانگ میں ایک کل پاکستان مشاعرے کا اہتمام ہوا۔ میں ان دنوں چٹاگانگ میں ہی تعینات تھا اور اس مشاعرے میں موجود تھا۔ سامعین کی پہلی صف میں ایک بڑا افسر اپنی بیگم کے ساتھ بیٹھا تھا۔ معلوم نہیں کیا مسئلہ تھا، وہ میاں بیوی آپس میں لڑجھگڑ رہے تھے۔
ان کی کھسر پُھسر مشاعرے میں خلل ڈال رہی تھی مگر وہاں کوئی ایسا نہ تھا جو ا نھیں یہ کہتا کہ براہِ کرم خاموشی اختیار کریں اور لوگوں کو مشاعرہ سننے دیں۔ بطور آخری شاعر حفیظ صاحب مائیک پر تشریف لائے اور اپنے مخصوص ترنم میں مشہور غزل کا مطلع سنایا:
فردوس کی طہور بھی آخر شراب ہے
مجھ کو نہ لے چلو مری نیت خراب ہے
حفیظ صاحب ابھی مطلع پڑھ ہی رہے تھے کہ ان میاں بیوی کی کھسر پُھسر پھر گونجی۔ حفیظ صاحب رک گئے اور ان صاحب کی طرف اشارہ کرکے کہا ’’جب مشاعرے میں بیٹھنے کی تمیز نہیں تو کیا تمھیں کسی حکیم نے کہا تھا کہ مشاعرے میں آئو۔‘‘ یہ سُن کر اس کی بیگم تو فوراً اٹھ کر چلی گئی۔ چند لمحوں بعد وہ صاحب بھی اُٹھے اور سر
جھکائے چپ چاپ رخصت ہوگئے۔
شاعر ہوں، سیکشن آفیسر نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام:
نعتِ رسولِ مقبول ﷺ
محمد مصطفیٰؐ محبوبِ داور، سرورِ عالم
وہ جس کے دم سے مسجودِ ملائک بن گیا آدم
کیا ساجد کو شیدا جس نے مسجودِ حقیقی پر
جھکایا عبد کو درگاہِ معبودِ حقیقی پر
دلائے حق پرستوں کو حقوقِ زندگی جس نے
کیا باطل کو غرقِ موجۂ شرمندگی جس نے
غلاموں کو سریرِ سلطنت پر جس نے بٹھلایا
یتیموں کے سروں پر کردیا اقبال کا سایا
گداؤں کو شہنشاہی کے قابل کردیا جس نے
غرورِ نسل کا افسون باطل کردیا جس نے
وہ جس نے تخت اوندھے کر دئیے شاہانِ جابر کے
بڑھائے مرتبے دنیا میں ہر انسانِ صابر کے
دلایا جس نے حق انسان کو عالی تباری کا
شکستہ کردیا ٹھوکر سے بت سرمایہ داری کا
محمد مصطفیٰؐ مہرِ سپہرِ اَوجِ عرفانی
ملی جس کے سبب تاریک ذرّوں کو درخشانی
وہ جس کا ذکر ہوتا ہے زمینوں آسمانوں میں
فرشتوں کی دعاؤں میں، مؤذن کی اذانوں میں
وہ جس کے معجزے نے نظمِ ہستی کو سنوارا ہے
جو بے یاروں کا یارا، بے سہاروں کا سہارا ہے
وہ نورِ لَم یزل جو باعث تخلیقِ عالم ہے
خدا کے بعد جس کا اسمِ اعظم، اسمِ اعظم ہے
ثنا خواں جس کا قرآں ہے، ثنا میں جس کی قرآں میں
اسی پر میرا ایماں ہے، وہی ہے میرا ایماں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھگڑا دانے پانی کا ہے، دام و قفس کی بات نہیں
اپنے بس کی بات نہیں، صیّاد کے بس کی بات نہیں
جان سے پیارے یار ہمارے قیدِ وفا سے چھوٹ گئے
سارے رشتے ٹوٹ گئے، اک تارِ نفس کی بات نہیں
تیرا پھولوں کا بستر بھی راہ گزارِ سیل میں ہے
آقا، اب یہ بندے ہی کے خار و خس کی بات نہیں
دونوں ہجر میں رو دیتے ہیں، دونوں وصل کے طالب ہیں
حسن بھلا کیسے پہچانے، عشق ہوس کی بات نہیں
نوش ہے عنواں، نیش نتیجہ، ان شیریں افسانوں کا
تذکرہ ہے انسانوں کا یہ مور و مگس کی بات نہیں
کارِ مغاں، یہ قند کا شربت بیچنے والے کیا جانیں
تلخی و مستی بھی ہے غزل میں، خالی رس کی بات نہیں
تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِرے مذاقِ سُخن کو سُخن کی تاب نہیں
سُخن ہے نالۂ دل ، نالۂ رباب نہیں
اگر وہ فتنہ ، کوئی فتنۂ شباب نہیں
تو حشر میرے لئے وجہِ اضطراب نہیں
نہیں ثواب کی پابند بندگی میری
یہ اِک نشہ ہے جو آلودۂ شراب نہیں
مجھے ذلیل نہ کر عُذرِ لن ترانی سے
یہ اہلِ ذوق کی توہین ہے، جواب نہیں
جو کامیابِ محبّت ہے ، سامنے آئے
میں کامیاب نہیں، ہاں میں کامیاب نہیں
اُسی کی شرم ہے میری نِگاہ کا پردہ
وہ بے حِجاب سہی ، میں تو بے حِجاب نہیں
سُنا ہے میں نے بھی ذکرِ بہشت و حُور و قصُور
خُدا کا شُکر ہے نیّت مِری خراب نہیں
سُخنورانِ وطن سب ہیں اہلِ فضل و کمال
تو کیوں کہوں ، کہ میں ذرّہ ہُوں آفتاب نہیں
بیانِ درد کو ، دل چاہیے جنابِ حفیظ
فقط ، زبان یہاں ، قابلِ خِطاب نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہوئے پردہ نشیں انجمن آرا ہو کر
رہ گیا میں ہمہ تن چشمِ تمنّا ہوکر
حُسن نے عشق پہ حیرت کی نگاہیں ڈالیں
خود تماشا ہوئے ہم محوِ تماشا ہوکر
آنکھ کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رُکا
ایک قطرے نے ڈبویا مجھے دریا ہوکر
کوئی ہو دردِ محبت کا مداوا کردے
ملک الموت ہی آجائے مسیحا ہوکر
کچھ تعجب نہیں کعبے میں اگر جی نہ لگے
آئے ہیں ہم طرفِ دیروکلیسا ہوکر
حُسنِ ظاہر پہ نگاہیں نہ کبھی للچائیں
مجھ کو دنیا نظر آتی رہی دنیا ہو کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگ بدلا یار کا، وہ پیار کی باتیں گئیں
وہ ملاقاتیں گئیں، وہ چاندنی راتیں گئیں
پی تو لیتا ہوں مگر پینے کی وہ باتیں گئیں
وہ جوانی، وہ سیہ مستی، وہ برساتیں گئیں
اللہ اللہ کہہ کے بس اک آہ کرنا رہ گیا
وہ نمازیں، وہ دعائیں، وہ مناجاتیں گئیں
حضرتِ دل ہر نئی اُلفت سمجھ کر سوچ کر
اگلی باتوں پر نہ بھُولیں آپ وہ باتیں گئیں
راہ و رسمِ دوستی قائم تو ہے، لیکن حفیظ
ابتدائے شوق کی لمبی ملاقاتیں گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرزوئے وصلِ جاناں میں سحر ہونے لگی
زندگی مانندِ شمعِ مُختصر ہونے لگی
رازِ الفت کھُل نہ جائے، بات رہ جائے مِری
بزمِ جاناں میں الہٰی چشم تر ہونے لگی
اب شکیبِ دل کہاں، حسرت ہی حسرت رہ گئی
زندگی اِک خواب کی صُورت بسر ہونے لگی
یہ طِلِسمِ حُسن ہے، یا کہ مآلِ عشق ہے
اپنی ناکامی ہی اپنی راہ بر ہونے لگی
سُن رہا ہوں آرہے ہیں وہ سرِ بالین آج
میری آہِ نارسا بھی، با اثرہونے لگی
اُن سے وابستہ اُمیدیں جو بھی تھیں، وہ مِٹ گئیں
اب طبیعت، آپ اپنی چارہ گر ہونے لگی
وہ تبسّم تھا، کہ برقِ حُسن کا اعجاز تھا
کائناتِ جان و دل زیر و زبر ہونے لگی
دل کی دھڑکن بڑھ گئی آنکھوں میں آنسو آ گئے
غالباً میری طرف اُن کی نظر ہونے گی
جب چلا مُشتاق اپنا کارواں سُوئے عدم
یاس ہم آغوش ہو کر ہم سفر ہونے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تو میں جوان ہوں
ہوا بھی خوش گوار ہے ، گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے ، بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا ، اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا اٹھا سبُو، سبُو اٹھا
سبُو اٹھا، پیالہ بھر پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر ،سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں ،ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں ، سمجھ نہ مجھ کو ناتواں
خیالِ زہد ابھی کہاں ابھی تو میں جوان ہوں
عبادتوں کا ذکر ہے ،نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا ،خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی ، عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی ، الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں ،ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں ، تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر ،کوئی اِدھر کوئی اُدھر
ابھارتے ہوں عیش پر ،تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصّہ مختصر ،تمھارا نقطۂ نظر
درست ہے تو ہو مگر، ابھی تو میں جوان ہوں
نہ غم کشود و بست کا،بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا ،نہ وعدۂ الست کا
امید اور یاس گم ، حواس گم، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم ،ہمہ بجز گلاس گم
نہ مے میں کچھ کمی رہے ،قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے ،یہی ہما ہمی رہے
وہ راگ چھیڑ مطربا ، طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا ، جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا ، نہ ہاتھ روک ساقیا
پلائے جا پلائے جا ، ابھی تو میں جوان ہوں
یہ گشت کوہسار کی ، یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے ، یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا ، تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا ، یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں ،یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں ،اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں ، نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں ، بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں ، مجھے نہ آئے گا یقیں
نہیں نہیں ابھی نہیں ، ابھی تو میں جوان ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔