ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والی عظیم ادبی شخصیات ۔
احمد بشیر 1922ء میں پیدا ہوئے معروف دانشور ، مصنف اور نقاد۔ ممتاز مفتی اور اشفاق احمد کے دوست رہے۔ کئی کتب تصنیف کیں۔ جن میں خاکے اور ناول وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی مشہور تصانیف میں خاکوں پر مبنی کتاب ’جو ملے تھے راستے میں‘ اور ’ دل بھٹکے گا‘ شامل ہیں۔ناول ’ منزل منزل دل بھٹکے گا‘ اور انگریزی ناول ’ رقص کرتے بھیڑیے ‘(ڈانسنگ وولف)شامل ہیں۔ ایک فلم نیلا پربت بنائی دسمبر 2004ء میں کینسر کے عارضے کی وجہ سے لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔
نیلم احمد بشیر۔نثر نگار ، افسانہ نگار ، ناول نگار ، سفرنامہ نگار ، کالم نگار ، شاعرہ ، ، خاکہ نگار ، مضمون نگار ، محقق ، نقاد ہیں تخلیقات 1۔ گلابوں والی گلی(افسانے)۔جگنوؤں کے قافلے (افسانے)۔لے سانس بھی آہستہ(افسانے) ۔نیپال نامہ (سفر نامہ )۔ستم گر ستمبر(افسانے) ۔ایک تھی ملکہ(افسانے) ۔وحشت ہی سہی (افسانے)۔چار چاند (خاکے) ۔ ہزار جزیرے ۔(ناول) زیر تصنیف
جامعۃ الازھر کی مشرقی زبانوں اور علوم کی استاد ڈاکٹر رانیا محمد فوزی نے ان کے افسانوں کا مجموعہ عربی زبان میں ترجمہ کر کے شائع کیا ہےامریکہ اور کینڈا کی یونیورسٹیز میں اردو لٹریچر کے مضامین میں انکے افسانے شامل ہیںاوشا ورما (یو کے) نے انگریزی میں انکے افسانوں کا ترجمہ کیا ہے ۔
کتھا سمان( عالمی ادبی تنظیم ) کے راجندر شرما نے عالمی ادبی ایوارڈ دینے کے لیے انہیں بطور مہمان خصوصی تقریب میں انگلیند بلایا ۔الحمرا ادبی رسالہ نے نیلم احمد بشیر پر گوشہ شائع کیا
ان کے بارے میں انتظار حسین لکھتے ہیں ۔
نیلم احمد بشیر اپنے کام میں خوب منجھ گئی ہیں ، رواں لکھتی ہیں ۔ زبان و بیان ان سے دغا نہیں کر پاتے ۔ اور انہوں نے اس گر کو بھی خوب سمجھا ہے کہ کہانی کو بہرحال کہانی ہونا چاہیے ، مسئلے کہانی میں جو بھی درپیش ہیں مگر ریڑھ کی ہڈی تو کہانی ہے ۔ نیلم کی کہانیوں میں ریڑھ کی ہڈی مضبوط ہے ۔ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ انسانی معاملات کے نشیب و فراز کو وہ خوب سمجھتی ہیں اور فن کارانہ انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔" ( انتظار حسین)
ممتاز مفتی نے ایک جگہ لکھا" نیلم ، احمد بشیر کی سب سے ٹیلینٹڈ بیٹی ہے اور مجھے یقین ہے وہ ایک دن دنیائے ادب میں اپنی جگہ ضرور بنائے گی ( ممتاز مفتی)
نیلم کے والدإٕحمد بشیر پاکستانی صحافت کا ایک بڑا نام ہونے کے ساتھ ساتھ ، ادب اور فنون لطیفہ سے بھی منسلک رہے۔ نیلم کی بہنیں بھی فنون لطیفہ سے منسلک رہی ہیں،
ان کا کہنا ہے ان کے گھر میں ادیبوں کا ایک میلہ سا لگا رہتا تھا۔ خاص طور پر وہ اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہتی ہیں ابن انشا اور ممتاز مفتی نے بچپن میں ان کی رہنمائی بھی کی اور دوستوں کی طرح ان کے ساتھ وقت بھی گزارا۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ کیسے وہ ابن انشا کو ’ان شن چنا‘ کہتی تھیں کیونکہ اس وقت انھیں ابن انشا نہیں کہنا آتا تھا۔ ممتاز مفتی کا ایک قول وہ یاد کرتی ہیں کہ ’ جو شخص لکھ سکتا ہے اور وہ نا لکھے، تو وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے‘ ۔
انھوں نے کہا کہ آرٹ سےتعلق رکھنے والے لوگ زندگی کی عام ڈگر سے ہٹ کر چلتے ہیں۔ ان کی زندگیاں نارمل نہیں ہوتیں آج کی نسل کے لیے پیغام دیتے ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ ہماری نسل کو چاہیئے کہ پڑھے، کیونکہ جب تک آپ پڑھیں گے نہیں آپ لکھ نہیں سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ادب وقت کے لحاظ سے اپنی روش بدلتا ہے اور اس زمانے کی کہانیوں کو بیان کرتا ہے۔ انھوں نےکہا کہ کیا پتا کب آپ کا لکھا ہوا کسی کو جھنجھوڑ سکے ، کسی کے خیالات کو بدل سکے اور کہیں معاشرے میں کوئی بہتر تبدیلی لاسکے ۔ تو نوجوان جو لکھ سکتے ہیں، یا لکھنا چاہتے ہیں انھیں اپنے اس شوق کو چھوڑنا نہیں چاہیئے۔
بشریٰ انصاری کراچی سے تعلق رکھنے والی پاکستان ٹیلیویژن کی مقبول اداکارہ، میزبان اور پروڈیوسر ہیں۔ ۔ بشری نے ابتدائی تعلیم لاہور کے لیڈی گرفن سکول سے اور انٹرمیڈیٹ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی سے حاصل کی اور 1977ء میں وقارالنسا کالج راولپنڈی سے گریجویٹ کیا۔ انہوں نے 11 جون 1978ء کو ٹی وی پروڈیوسر اقبال انصاری سے شادی کی۔ بشری پہلی بار انہی کے ایک ڈراما میں نمودار ہوئیں اور اسکے بعد انکے اعلی ڈراموں کا سلسلہ شروع ہو گيا، اور انہوں نے مزاحیہ اداکاری کے ساتھ ساتھ سنجیدہ اداکاری میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ اداکاری کے علاوہ پشری نے گلوکاری اور ماڈلنگ بھی کی ہے۔ انہیں انکے اعلی کام کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے 1989ء میں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔