’’آخری آدمی‘‘ انتظار حسین کا منفرد علامتی لب و لہجےکا ایک شاہکار افسانہ ہے۔ یہاں فکری و فنی بصیرت کے اعلی نمونے بھی ہیں اور عربی بلاغت اور فصاحت کا اظہار حسن بھی ۔افسانہ نگار نے اظہار کے نایاب تمثیلی اشارے ,ماضی کی مادیت پسندی اور مکر بھرے عقلی حیلے کو نۓ تہذیبی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اسے عربی فصاحت کی فضابندی کردار اور مکالمے سے مزین کر بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے ۔ مادیت زدہ بشریت کی عقلی حیلہ سازی صدیوں سے دہرائی جارہی ہے۔اس روایت میں ہم ہر عہد کی تہذیبی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔اس کرہ ارض پر گم ہوتی ہوئی انسانیت کی تلاش اور کھوۓ ہوۓ یقین کی باز یافت کی کوشش افسانہ نگار کے شعور میں نہیں بلکہ علامت اور تمثیل کی رگوں میں بھی دوڑ رہا ہے۔انتظار حسین ایک رجحان ساز افسانہ نگار ہیں ۔اپنے عہد کی ألودہ ہوتی تہذیب شعور کی مادیت زدگی کو ماضی کے ان قرأنی قصوں کے تمثیل پیراۓ ا ور علامت میں بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔
انتظار حسین کے افسانے منفرد اسلوبِ بیان اور عمدہ کرافٹ کا نمونہ ہیں۔ نۓ افسانے کے قالب کو پرانے اقدارکے چقمقاق پتھر سے رگڑ کر وسعت فکر کے شراروں سے کا ایک نیا الاؤ روشن کیا ہے۔
’ افسانہ نگار نے آخری آدمی کےموضوع کے لۓ مواد ربانی مخزن ہدایت سے اٹھایا ہے
إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَإِنَّ رَبَّکَ لَیَحْکُمُ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْمَا کَانُواْ فِیْہِ یَخْتَلِفُونَ۔ (النحل: ۱۲۴)
’’سبت کی پابندی ان ہی لوگوں پر عائد کی گئی تھی جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا۔ اور بے شک تمہارا رب قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کردے گا جس بات میں وہ اختلاف کررہے تھے‘‘۔
نفس کے شعبدہ باز حیلے سے پچھاڑ کھاتے بشر کی داخلی کیفیت کو افسانہ نگار نے نفسیاتی دروں بینی سے رقم کیا ہے ۔ داخلی نظام میں خیر اور شر کی کشا کش میں پھنسا بشر اپنے پیارے نفس کے بہکاوے میں انسانی جبلتوں سےبہت دور نکل جاتاہے۔یہاں صالح انسانی حواس پر حیوانی جبلتوں کا غلبہ بھی ہے, شہ زورنفس کی بشر پر مضبوط ہوتی گرفت بھی اور خواہش نفس کی منفی پکڑ سے نکلنے کی کوشش بھی ,انسان کے جون میں بنے رہنے کی جدوجہد ,نفس کے منفی اثرات , تحریکی سرگوشیوں اور وساوس صدر کو غیر فعال کرنے میں جوجھتا ہوا وہ آخری أدمی بھی ہے۔جس کے جسم پر حیوانی بال تیزی سے اگ رہے ہیں۔چہرے کی ساخت بدل رہی ہے۔۔خارج اور با طن کی اس رشہ کشی کو الیا سف کےکردار کی تحلیل نفسی میں ہم دیکھ سکتے ہیں ۔الیاسف کا کردار بظاہر ایک اساطیری کردار ہے لیکن اس کردار میں عصری انسان کی خود فریب علت ومعلول والی نفسیات کا نظارہ بھی صاف دیکھائی دیتا ہے ۔نفس امارہ اور نفس مطمعینہ کے تصادم میں الیا سف جسمانی ساخت میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلی سے خود کو بچا نہیں پاتا ۔نفس امارہ اسے چت کر اس کا بشری چہرے پر خراشیں ڈال دیتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں سید محمد اشرف کا افسانہ روگ – نثار انجم )
افسانہ نگار نے انسان کے باطنی نظام میں لہریں لیتی نفس کی بالادستی اور اسکی شہ زوری کو داستانی انداز میں آخری آدمی کے نما ئندہ کردار الیاسف میں بڑی تدریج کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ افسانے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ موضوع قران پاک سے اٹھایاگیا ہے۔
وَسْأَلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ إِذْ یَعْدُونَ فِیْ السَّبْتِ إِذْ تَأْتِیْہِمْ حِیْتَانُہُمْ یَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعاً وَیَوْمَ لاَ یَسْبِتُونَ لاَ تَأْتِیْہِمْ کَذَلِکَ نَبْلُوہُم بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَo وَإِذْ قَالَتْ أُمَّۃٌ مِّنْہُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْماً نِ اللّٰہُ مُہْلِکُہُمْ أَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَاباً شَدِیْداً قَالُواْ مَعْذِرَۃً إِلَی رَبِّکُمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَo فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ أَنجَیْْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوئِ وَأَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوُا بِعَذَابٍ بَئِیْسٍ بِمَا کَانُواْ یَفْسُقُونَo فَلَمَّا عَتَوْا عَن مَّا نُہُواْ عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ کُونُواْ قِرَدَۃً خَاسِئِیْنَo (الاعراف: ۱۶۳۔ ۱۶۶)
’’اور (اے نبیؐ) ان سے اس بستی کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے آباد تھی، جہاں سبت (سنیچر) کے معاملہ میں لوگ حد سے باہر جاتے تھے۔ سبت کے دن ان کی مچھلیاں پانی پر تیرتی ہوئی ان کے سامنے آجاتیں اور جب سبت کا دن نہ ہوتا تو نہ آتیں۔ اس طرح ہم ان کی نافرمانی کی وجہ سے انھیں آزمائش میں ڈالتے تھے اور جب ان میں سے ایک گروہ نے (نصیحت کرنے والوں سے) کہا تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنھیں اللہ یا تو ہلاک کرنے والا ہے یا سخت عذاب دینے والا ہے؟ انھوں نے جواب دیا۔ اس لیے کہ تمہارے رب کے حضور معذرت کرسکیں اور اس لیے کہ یہ لوگ باز آجائیں۔ پھر جب وہ اس نصیحت کو بالکل بھلا بیٹھے جو انھیں کی گئی تھی تو ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو برائی سے روکتے تھے۔ مگر غلط کار لوگوں کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ پھر جب وہ اس کام کو جس سے انھیں منع کیا گیا تھا پوری ڈھٹائی کے ساتھ کرنے لگے تو ہم نے کہا، ذلیل بندر بن جاؤ‘‘۔
تورات میں اس واقعہ کا ذکر اس طرح آیا ہے:
’’اور خدا وند نے موسیٰ سے کہا، تو بنی اسرائیل سے یہ بھی کہہ دینا کہ تم میرے سبتوں کو ضرور ماننا۔ اس لیے کہ یہ میرے اور تمہارے درمیان پشت درپشت ایک نشان رہے گا، تاکہ تم جانو کہ میں خدا وند تمہارا پاک کرنے والا ہوں۔ پس تم سبت کو ماننا اس لیے کہ وہ تمہارے لیے مقدس ہے۔ جو کوئی اس کی بے حرمتی کرے وہ ضرور مار ڈالا جائے۔ جو اس میں کچھ کام کرے وہ اپنی قوم سے کاٹ ڈالا جائے۔ چھ دن کام کاج کیا جائے لیکن ساتواں دن آرام کا سبت ہے، جو خداوند کے لیے مقدس ہے۔ جو کوئی سبت کے دن کام کرے وہ ضرور مار ڈالا جائے‘‘۔ (تورات، خروج باب ۳۱، آیت ۱۲ تا ۱۶)
لیکن کہیں بھی افسانے میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔ یہود کو سبت کے دن یعنی ہفتے والے دن مچھلی کے شکار کی ممانعت تھی
لیکن ہفتے والے دن ہی مچھلیاں زیادہ تر سطح پر نمودا ر ہوتی تھیں۔ انہوں نے ایک مکر والی ترکیب طبعیت کے حیلے پن سے یہ نکالی کہ ساحل کے کنارے چھوٹی چھوٹی نالیاں بناکر ایک گڑھے سے جوڑ دیا۔ سبت کے دن کثیر تعداد میں ان نالیوں سے بہتے ہوۓ گڈھے میں گرجاتیں ۔ حیلے ساز لوگ اتوار کی صبح پکڑ لیتے تھے۔ یہ خدائی قانون کو ظاہری طور پر مانتے ہوۓ ایک طرح سے حیلہ سازی تھی۔ایک مکر تھا۔
۔یہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی تھی اس عقلی حکم عدولی پر انہیں سخت سزا دی گئی۔ ان کی شکلیں بندروں جیسی بنا دی گئیں ۔ (یہ بھی پڑھیں تنویر احمد تما پوری کا افسانہ کیمیاگر – نثار انجم )
ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جواس جرم کے مرتکب نہ تھے لیکن نہی عن المنکر سے غفلت برتتے تھے۔یہ لوگوں کو منع بھی نہیں کرتے تھے۔ اللہ کا عذاب سے وہ لوگ بچ گۓ جو سبت والے دن مچھلیاں نہیں پکڑتے تھے ۔
اللہ سے مکر کرنے کی کوشش نافرمانی سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔ گرچہ سبت کے دن ان لوگوں نے مچھلی کا براہ راست شکار تو نہ کیالیکن ایک ناجائز حیلہ ضرور اختیار کیا تھا۔
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
ترجمہ: اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور الله نے بھی خفیہ تدبیر کی ، اور الله سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے.(القرآن ٣/٥٤)
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ انہوں نے مکر کیا اور الله نے بھی “مکر” کیا.
(٢)إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا ، وَأَكِيدُ كَيْدًا وہ “کید” سے کام لیتے ہیں اور میں بھی “کید” سے کام لیتا ہوں.
(٣)وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا “برائی” کی سزا ویسی ہی ایک “برائی” ہے.
(٤)إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ، اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وہ کہتے ہیں کے ہم تو محض “ہنسی” کرتے ہیں۔
قرآن کی آیات کے مطابق
اصحاب سبت بنی اسرائیل کا وہ گروہ تھاجو خدا کے ایک خاص احکام کی نافرمانی اور ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار کرنے کی حکم عدولی کی وجہ سے عذاب الہی میں گرفتار ہو گئے۔تھے قرآن میں اصحاب سبت کا قصہ بیان ہوا ہے کہ وہ خدا کے حکم سے بندر کی شکل اختیار کر گئے ۔ اصحاب سبت کا واقعہ حضرت داود کے زمانے میں شہر ایلہ میں پیش آیا جو آج کل مقبوضہ فلسطین میں ہے اور اس وقت وہ ایلات کے نام سے مشہور ہے
کہاجاتا ہےکہ اصحاب سبت میں سے صرف وہ لوگ نجات پاگۓ تھے جنہوں نے نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے میں غفلت نہ برتی تھی۔ گناہگار اور وہ لوگ جو خاموش بیٹھے تھے سب عذاب الہی میں گرفتار ہو گئے تھے۔ (یہ بھی پڑھیں بیگ احساس کا افسانہ کھائی – نثار انجم )
سَبت کے معنی کسی عمل سے ہاتھ کھینچنے کے ہیں ، عبرانی زبان میں اسے شبات کہتے ہیں یہودیوں اسے ہفتے کے دن کو سبت کے نام سے پکارتے تھے عبرانی میں اسے آرام کرنے کےمعنی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔یہودیوں کی تعلیمات کے مطابق ہفتے کے دن کا احترام اور اس دن کام نہ کرنا حضرت موسی کو دی گئی دس احکامات Ten commandment میں سے ایک تھا۔
ترسیل کی اونچی چوٹی سے افسانہ نگار ماضی کےان انسانوں کی زندگی کا عملی موازنہ عصر حاضر کے انسان سے کرتا ہے۔ افسانہ نگار کو فن پر دسترس حاصل ہے انہوں نے عربی لب و لہجہ اور أہنگ کو بہترین انداز اور تکنیک میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔یہاں داستانی لہجے سے قریب رہکر ماضی کی گمشدہ صالح تہذیب کی بازیافت افسانے کے تعمیری شعور میں لہریں لے رہا ہے۔ ۔انتظار حسین معاشرتی شکست و ریخت کے ملبے پر اساطیری کردار فکر کے کاندھے پر ڈالے ملتے ہیں۔ٹوٹتے قدروں کے ملبے میں دبی معاشرتی تہذیب کی سسکیوں پر بھی اپنے کان چپکاۓ ملتےہیں۔مدھم ہوتی انسانی لالٹین کےساتھ گمشدہ انسانیت کی بازیافت کی تڑپ بھی ہے تقسیمِ ہند کے نو حے بھی اور ہجرت کا ناسٹیلجیا بھی ہے۔ آخری آدمی میں انتظار حسین نے ایک ایسےبشری دائرے کو پیش کیا ہے ۔جس کے شب وروز پر ربانی احکام نے ایک لکیر ممنوعہ کھینچ دیا ہے اور ایک خاص دن بشریت کو اس دائرے سے باہر قدم رکھنا منع تھا۔ اس لکیر کے پھلانگتے ہی بشری ہییت اور خصائص اپنی شناخت بدلنے لگتے ہیں نفس کےچکمے اور عقل کے چرکے کھا شجر ممنوعہ کے چھأ ؤں کے نیچے کھینچے گۓ ایک بڑے سے محفوظ دائرے سے بشر نے سبت والے دن ایک عقلی حیلے کا استعمال کر باہر أنے کی جسارت کی۔اس طرح بشر اشرف المخلوقات کے دائرے سے exit کر جاتا ہے۔
’ ۔افسانہ نگار نے آخری آدمی کےموضوع کے لۓ مواد ربانی مخزن ہدایت سے اٹھایا ہے ۔ ۔
ان کے افسانے بجھے ہوۓ سماجی رابطے سےکٹے الأؤ کے گرد ماضی کا نوحہ ہے۔ ماضی کی مسرت کی بازگشت میں حال کی مادی افراتفری اور غم ہجرت بھی ہے۔انہوں نے دیو ہیکل مشینی تہذیب کے پہیوں میں پأمال انسانی قدروں اور جبریہ حالات کی چکی میں پس جانے والی استحصالی زندگی ، اور اس کی چیختی روحوں کے بأزگشت میں اس درد و کرب اور شکست ریختگی اور أبلہ پائی کو اپنی جلد پر محسوس کیا ہے۔
انتظار حسین کو اس صالح روایت کی تلاش ہے ۔ میراثی تہذیب کی عمارتوں کے ٹوٹ کر بکھرنے اور ماضی سے قلبی دور کا سماجی احساس انہیں اسلاف کی روایت کی طرف رجوع کرنے کے لۓ ایک تڑپ پیدا کرتا ہے۔تاکہ پرانی اینٹ اور گارے سے اس گرتی ہوئی اسلافی عمارت کو بچایا جاسکے تاکہ نشانی کے طور پر کم ازکم ہماری تہذیبی ورثہ میں باقی رہ سکے جب تک مادیت شکن روح کا اعتماد بحال نہ ہوجاۓ۔أج کا انسان مادیت اور صارفیت کے چکا چوند میں خود سے غافل ہوگیا ہے ۔ (یہ بھی پڑھیں معین الدین جینا بڑے کا افسانہ گیت گھاٹ اور گرجا – نثارانجم )
شناختی بحرانidentity crises کی بھول بھلیوں میں سلامتی گرین زون والے اسلاف کے کارناموں سے بےخبری کا شکار ہے اور ان کے بناۓ راستوں سےبھٹک گیا ہے۔ اس نۓ صارفی انسان کو ماضی کی طرف اپنے گمشدہ مال کی طرف مراجعت کرنے کی ضرورت ہے
یہی وجہ ہے کہ انتظار حسین قاری کی انگلی پکڑے وہ ماضی کی سیر کی طرف نکل پڑتے ہیں ۔تاکہ ماضی کی سنہری روایت سے راہ سازی کا کام لیا جاسکے۔پرانا أدمی اپنی کینچل اتار داستانوں اساطیر سے ہوتے ہوۓ موجودہ سائبر دور میں توأگیا ہے لیکن اپنی سرشت ابائی صالح روایتی میراث پیچھے چھوڑ أیا ہے۔(یہ بھی پڑھیں!“کیوں نہیں” پرویز انیس- تبصرہ نگار: نثارانجم)
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...