بالاخر علی وزیر کی ضمانت پر رھائی کی درخواست منظور؛ جلد رھا ہو جائیں گے۔
13 اپریل 2022کو ہم علی وزیر سے پارلیمنٹ لاجز میں ملے اس ملاقات کا حال احوال
“میں نے ان سے کہا کہ بس اب جیل جیل ختم کرو اور آجاؤ باھر بہت کام ہیں جو مل کر کرنے ہیں۔ کہنے لگے کہ ہم نے تو باجوہ صاحب سے کہا ہے کہ اگر میرا کوئی ذاتی جھگڑا ہے زمین یا ٹرانسپورٹ کا تو اسے حل کر لیتے ہیں اسے سیاست سے نہ جوڑا جائے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے”
ملنا علی وزیر سے
12 اپریل 2022 کو جب علی وزیر سے ملنے پارلیمنٹ لاجز پہنچے تو کئی اور بھی ان سے ملاقات کے منتظر تھے۔ علی وزیر اپنے کمرے میں نہ تھے، تو کامریڈ عثمان اور نثار شاہ ایڈووکیٹ، چئیرپرسن جموں کشمیر عوامی ورکرز پارٹی کی ساتھ انتظار کرنے لگے۔
علی وزیر یہاں ایک قیدی کی حیثیت سے قیام پذیر تھے ان کے ساتھ کراچی جیل کی جانب سے ایک افسر بھی آئے ہوئے تھے۔ غلام عباس کا تعلق لاڑکانہ سے تھا۔ وہ بتا رھے تھے کہ جب میری ڈیوٹی علی وزیر کے ساتھ لگی اور پچھلی دفعہ میں انکے ساتھ کراچی سے اسلام آباد آیا تو اس وقت مجھے علی وزیر “کرنل” کہ کر پکارتے تھے۔ مگر اب یہ عالم ہے کہ علی وزیر مجھے “کامریڈ” کہتے ہیں۔ ان کے ساتھ سندھ کے حالات پر گفتگو ہوئی ان کے کئی دوست ہمارے بھی تھے۔ یوں ان کے ساتھ بات کرتے یہ احساس ہی نہ ہوا کہ ایک جیل آفیسر سے بات ہو رھی ہے۔ ایسا لگا کہ ہم تو ایک دوسرے کے عرصہ دراز سے واقف ہیں۔
علی وزیر سے ملنے صوابی سے بھی ایک وفد تشریف فرما تھا۔ علی کا بھتیجا ساتھ کمرے میں سو رھا تھا۔ ان کا بیٹا بھی آیا تھا مگر اس سے ملاقات نہ ہوئی۔ جب انکی اھلیہ بارے پوچھا تو معلوم ہوا وہ نہیں آئی ہیں۔ علی وزیر آئے تو سب سے گرم جوشی سے ملے انہوں نے جوگر پہن رکھے تھے اور شرٹ اور پینٹ میں تھے بال بھی باندھ رکھے تھے۔ پہلی ہی نظر میں معلوم ہو گیا کہ انہوں نے وزن کم کیا ہوا ہے اور کافی سمارٹ نظر آ رھے تھے۔
علی سے آخری ملاقات لال خان مرحوم کے جنازے پر قصبہ بھون میں ہوئی تھی۔ آتے ہی میری اھلیہ شہناز اقبال کی رحلت پر اظہار افسوس کیا۔ بہت کچھ یاد آ گیا جیسے ہی علی سامنے آئے۔ یادیں تازہ ہو گئیں۔
لاھور لیفٹ فرنٹ کے اپریل 2018 کے موچی گیٹ جلسہ کے موقع پر علی 10 دن پہلے لاھور آ گئے تھے لال خان مرحوم کے گھر رھائش پزیر تھے پھر جب رابطے مذیر بڑھ گئے تو انہیں ہم نے ہوٹل پاک ہریٹیج شفٹ کر دیا۔ وھیں سے روزانہ رابطوں پر نکلتے تھے ان کی نثار شاہ، فانوس گوجر مرحوم اور عصمت شاہ جہان سمیت گرفتاری اور رھائی بھی یہیں ہوئی تھی۔ موچی گیٹ میں انکی تقریر منظور پشتین، محسن داوڑ سمیت بغاوتی پیغام تھا۔ ایک کامیاب جلسے پر خوش تھے۔ لاھور جلسہ نے پی ٹی ایم کو ملک گیر عوامی بنیادیں رکھنے میں بہت مدد دی۔
پھر وہ قومی اسمبلی کا انتخاب جیت کر لال خان مرحوم کو ملنے لاھور آئے تو مجھے بھی رات گیارہ بجے آنے کو کہا وہ اسی وقت لاھور پہنچے تھے۔ میں پھول ڈھونڈھ رھا تھا بمشکل ملے۔ ساتھ میں مٹھائی کا ایک بڑا ڈبہ لے کر پہنچا تو لال خان نے کہا ہمیں تو جشن منانا بھی نہیں آتا۔ چئیرمین آیا ہے تو جیت کا جشن تو اب ہو گا۔ مجھے لال خان چئیرمین کہ کر ہی بلاتے تھے۔ پھر ھار ان کے گلے میں وھاں موجود تمام کامریڈز نے ڈالے۔ فوٹو سیشن ہوئے۔ گپ شپ دیر تک رھی۔ اس کے بعد بھی کئی دفعہ ملاقاتیں رھیں۔
اب علی وزیر پھر سامنے تھا سیاسی گفتگو نہ ہو تو کیا ہو۔ بتانے لگے کہ شہباز شریف سے سیدھی باتیں کی ہیں۔ اور انہوں نے ان پر عمل کرنے کی یقین دھانی بھی کرائی ہے۔ کہنے لگے نام اچھا ہے آپ کی حقوق خلق پارٹی کا۔ بس اسے خلق پارٹی کہنا شروع کریں۔ ایک کابل کی خلق پارٹی اور اب لاھور سے خلق پارٹی کا احیاء ہو رھا ہے۔ کابل کی خلق پارٹی کا نام اب بھی بڑی تعظیم سے لیا جاتا ہے۔ کہنے لگے حقوق تو خلق کے اندر موجود ہیں اسے ایکسٹرا لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان سے کہا گیا کہ اسے ہم خلق پارٹی کے طور پر ہی مشہور کریں گے ان کو بتایا کہ پارٹی رجسٹریشن درخواست الیکشن کمیشن کو جمع کرا دی ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ بس اب جیل جیل ختم کرو اور آجاؤ باھر بہت کام ہیں جو مل کر کرنے ہیں۔ کہنے لگے کہ ہم نے تو باجوہ صاحب سے کہا ہے کہ اگر میرا کوئی ذاتی جھگڑا ہے زمین یا ٹرانسپورٹ کا تو اسے حل کر لیتے ہیں اسے سیاست سے نہ جوڑا جائے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
کوئی ایک گھنٹے بعد اجازت چاھی تو ساتھ باھر آ گئے پھر فوٹوگراف کا سیشن بھی ہوا۔ ایک مارکسسٹ ایم پی سے یہ ملاقات ضروری بھی تھی ان سے اظہار یک جہتی کے لئے اور یادگار بھی۔ علی آج نہیں تو کل باھر آئے گا اور جیل کا دروازہ ٹوٹے گا۔ انکے باھر آنے سے پاکستان میں بائیں بازو کو مذید سہارہ ملے گا۔