<p dir="rtl"><span dir="RTL">اِررئیل فکشن</span> ( Irreal Fiction ) <span dir="RTL">۔ 6</span><br /> <span dir="RTL">انگریزی افسانچہ</span><br /> <span dir="RTL">سرحد پر</span> ( At the Border )<br /> <span dir="RTL">ایان سیڈ</span> ( Ian Seed )<br /> <span dir="RTL">اردو قالب؛ قیصرنذیر خاورؔ</span></p> <p dir="rtl"><span dir="RTL">سرحد پر مسئلہ یہ بنا کہ مجھے اپنا پاسپورٹ دِکھانا پڑا اس لئے کہ میری بیوی اور بچے کے پاسپورٹوں کی تصدیق ہو سکے ۔ سرکاری کارندے اسے لے کر غائب ہو گئے اور کافی دیر گزر جانے کے بعد ، اُس وقت واپس آئے جب ہماری ریل گاڑی چھوٹنے والی تھی ۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ پاسپورٹ پر مہر لگی ہے یا نہیں ، میں نے اسے کھول کر دیکھا تومجھے پتہ چلا کہ انہوں نے اس پر میری تصویر ، بار کے پاس تھڑے پر کھڑے لوگوں میں سے ایک ایسے بندے کے ساتھ بدل دی ہے جس نے بیئر کا مگ اپنے ہونٹوں سے لگا رکھا ہے ۔</span><br /> <span dir="RTL">دیکھنے میں یہ ایک ایسی تصویر لگتی ہے جو کسی چھٹی کے دن ، تفریح کے دوران کھینچی گئی ہو ۔ ۔ ۔ ہاں ، البتہ یہ اتنی مدہم اور مبہم ہے جیسے کسی ایسے آدمی کی ہو جو حال ہی میں فوت ہوا ہو ۔ ۔ ۔ اب اتنا وقت نہیں ہے کہ میں اسے بدلوا سکوں ۔ ۔ ۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں یہ پاسپورٹ ابھی بھی استعمال میں لا سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ تصویر میں چہرہ اتنا دھندلا اور غیر واضح ہے کہ کوئی نہیں جان پائے گا کہ یہ میں نہیں ہوں ۔</span> #<br /> <span dir="RTL">۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</span><br /> <span dir="RTL">ایان سیڈ</span> ( Ian Seed ) <span dir="RTL">اس وقت یونیورسٹی آف چیسٹر، برطانیہ میں ’ تخلیقی تحریر</span> ' ( Creative Writing ) <span dir="RTL">کا استاد ہے ۔ اس سے پہلے وہ یونیورسٹی آف لنکاسٹراور یونیورسٹی آف کُمبریا میں پڑھاتا تھا ۔ وہ نثر( فکشن اور نان فکشن) لکھنے کے علاوہ شاعر اور مترجم بھی ہے ۔ اب تک اس کی شاعری اور نثر کی پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جبکہ وہ فرانسیسی شاعر</span> ’ Pierre Reverdy ‘ <span dir="RTL">کی شاعری کا ترجمہ</span> ’ The Thief of Talant ‘ <span dir="RTL">کے نام سے کر چکا ہے ۔ اس کی تازہ ترین کتاب</span> ’ New York Hotel ‘ 2018 <span dir="RTL">ء میں سامنے آئی ہے ۔</span></p> <p dir="rtl"><span dir="RTL">مندرجہ بالا کہانی مئی 2007 ء میں</span> ' The Cafe Irreal ' <span dir="RTL">کے شمارہ نمبر 23 میں سامنے آئی تھی اور اس کا ترجمہ مصنف کی اجازت سے کیا گیا ہے ۔ مصنف نے اسے جنوری 2002 ء میں پولینڈ اور جرمنی کے بارڈر پر لکھا تھا ۔</span></p>