میری زندگی کا فارمولا یہی ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں،جس طرح کی بھی صورتحال ہو، زندگی میں جو بھی الٹا سیدھا ہو رہا ہے ،ہر قسم کی صورتحال کو قبول کر لو اور زندگی کو انجوائے کرو ۔مجھے زہن و روح پر دباؤ ڈالنا غیر فطری لگتا ہے
دن ایک بجے کا وقت تھا ۔میں گہری نیند میں تھا ۔دروازہ بجا اور اس شدت سے بجا کہ میں خوف زدہ ہو کر اٹھ بیٹھا۔ فیصلہ کر لیا کہ آج جو کوئی بھی ہوگا ،اس کی خیر نہیں۔دروازہ کھولا تو سامنے دوست دھوپ میں کھڑا میرا انتظار کررہا تھا
گھر کی طرف عازم ِ سفر ہوں۔ اسلام آباد کا موسم بہتر تھا۔ اب بہتر موسم سے حبس اور شدید گرمی کے جہان میں داخل ہونا ہے۔ اگست کی آخری تاریخیں ہیں لوئر پنجاب کے مشرقی، میدانی علاقے جہاں اس موسم میں پیڑوں پہ پھل پکتے ہیں
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا سے یہ توقعات وابستہ کر لی گئی تھی کہ اس کے آنے سے معاشرے میں انقلاب آجائے گا ۔حقیت اور سچ عوام کو دیکھایا جائے گا ۔لیکن بدقسمتی سے ہمارا الیکٹرانک میڈیا سیاستدانوں ،جرنیلوں میں پھنس کر رہ گیا ہے
پریس کلب لاہور کی دلکش پہاڑی کی چوٹی پر نصب بنچ پر براجمان رضا رومی سے جب میں نے سوال کیا کہ صحافت اور صحافیوں کو کیسا ہونا چاہیئے ؟میرے اس سوال پر رضا رومی نے کہا،نیوز جیسی بھی ہو ،بے شک اہمیت کی حامل ہوتی ہے