اگر کوئی بیک وقت محقق،اصلاح ساز،مصنفِ قوائد و لغت ،سوانح نگار،تنقید نگار اور خاکہ نگار ہو سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف مولوی صاحب کی شخصیت ہو سکتی ہے۔سونح نگاری میں ’’حالی‘‘ کی اولیت مسلم ہے لیکن خاکہ نگاری کے امام بلاشک و شبہ ڈاکٹر مولوی عبد الحق ہی ہیں۔ آپ نے اردو کی خدمت کو اپنا نصب العین بنا لیا تھا اور اپنی تمام توانایئاں اس زبان کی ترقی و تر ویج کیلئے وقف کردیں ،اس لئے بابائے اردو کا خطاب پانے کے مستحق قرار پائے۔
ڈاکٹر مولوی عبد الحق کا شمار اردو کے ان محسنین میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے اس زبان کی بے لوث خدمت کی ہے۔ اسے ترقی دی اور اسے دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ ان کے اردو زبان و ادب پر ان گنت احسانات ہیں اور ہر زمانے میں ہر صاحب طرز ادیب ان کے احسانات کے بوجھ کو اپنے کندھوں پر محسوس کرتا رہے گا۔آپ دبستانِ ’’سر سید ‘‘کے مہکتے پھول ہیں ۔اسی لئے آپ کا طرزِ نگارش بھی مقصدیت ، اصلاح اور خلوص کی چاشنی سے مالا مال ہے۔ اسی لئے آپ کا طرزِ نگارش سہل پسندی کی مثال بن گیا۔اردو زبان کے محسن اور پاکستان کے نامور ماہر لسانیات ڈاکٹر مولوی عبدالحق برِصغیر پاک ہند کے عظیم اردو مفکر، محقق، ماہر لسانیات، معلم، بانی انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کے بانی تھے، آپ کو بابائے اردو کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
مولوی عبدالحق 20 اپریل،1870ء کو برطانوی ہندوستان کے ضلع میرٹھ کے ہاپوڑ نامی قصبے میں پیدا ہوئے، مولوی عبدالحق کے بزرگ ہاپوڑ کے ہندو کائستھ تھے، جنہوں نے عہدِ مغلیہ میں اسلام کی روشنی سے دلوں کو منور کیا اور ان کے سپرد محکمہ مال کی اہم خدمات رہیں۔ مسلمان ہونے کے بعد بھی انہیں (مولوی عبدالحق کے خاندان کو) وہ مراعات و معافیاں حاصل رہیں جو سلطنت مغلیہ کی خدمات کی وجہ سے عطا کی گئیں تھیں۔ ان مراعات کو انگریز حکومت نے بھی بحال رکھا۔
مولوی عبدالحق کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر میرٹھ میں پڑھتے رہے۔ 1894ء میں علی گڑھ کالج سے بی اے کیا۔ علی گڑھ میں سرسید احمد خان کی صحبت میسر رہی۔ جن کی آزاد خیالی اور روشن دماغی کا مولوی عبدالحق کے مزاج پر گہرا اثر پڑا۔ 1895ء میں حیدرآباد دکن میں ایک اسکول میں ملازمت کی اس کے بعد صدر مہتمم تعلیمات ہو کر اورنگ آباد منتقل ہوگئے۔ ملازمت ترک کرکے عثمانیہ اورنگ آباد کالج کے پرنسپل ہوگئے اور 1930ء میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
بابائے اُردومولوی عبدالحقؒ کو ابتدا ءہی میں ریاضی سے گہرا لگاؤ تھا جس نے اُنہیں غور و فکر اور مشاہدے کا عادی بنا دیا ۔اس کے علاوہ انہیں فارسی اور اُردو شاعری، نثرنگاری ،تاریخ ،فلسفہ اور مذہب کا مطالعہ کرنے کا بھی شوق تھا ان علوم اور ادب کے مطالعے نے مولوی عبدالحقؒ کے قلب و ذہن پر مثبت اثرات مرتب کئے انہیں اپنے اطراف سے گہری دلچسپی پیدا ہوئی ۔
غور و فکر ،مطالعے اور مشاہدے کا ذوق مزید گہرا ہوا ان کی فکر میں وسعت ،تخیل میں بلندی اور زبان و بیان کی باریکیاں واضح ہوئیں ۔بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کے بے شمار کارنامے ہیں طلبِ آگہی نے انہیں مزید متحرک اور مضطرب بنا دیا تھا۔ پہلی بار مولوی عبدالحقؒ کی کا وشوں سے دکنی زبان کے علمی اور ادبی شہ پارے سامنے آئے انہوں نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے اس گوشہ ادب کی علمی اور لسانی اہمیت کو اُجاگر کیا۔
قدیم دہلی کالج کے حوالے سے بھی بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحقؒ نے اپنی انتھک محنت اور خلوص سے ”مرحوم دہلی کالج“ لکھ کر اس ادارے کی ادبی اور تعلیمی کاوشوں کو نمایاں کیا۔فورٹ ولیم کالج کی طرز سے ذرا ہٹ کر دوبارہ دہلی کالج قائم کیا جس سے بلاشبہ اُردو میں بیشتر مغربی ادب اور علوم سے آگہی کا موقع میسر آیا ۔
دہلی کالج نے اس دور کے طلبہ کی شخصیت اور ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کیا ۔بابائے اُردو مولوی عبدالحقؒ نے نہ صرف اُردو میں تنقید نگاری، مقدمہ نگاری اور معنویت عطا کی بلکہ اُردو میں پہلی بار حقیقی تبصرہ، جائزہ اور لسانی اکتساب صرف بابائے اُردو مولوی عبدالحقؒ کی مقدمہ نگاری میں میسر آیا انہوں نے اُردو میں تبصرہ نگاری کو ایک نیا رنگ اور ڈھنگ عطا کیا۔جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبدالحق سیکرٹری منتخب ہوئے جنھوں نے بہت جلد انجمن ترقی اردو کو ایک فعال ترین علمی ادارہ بنا دیا۔ مولوی عبدالحق اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے ،وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرح حیدر آباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔
انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی ، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دوسہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیاگیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔
انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتب تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔ اس انجمن کے تحت لسانیات، لغت اور جدید علوم پر دو سو سے زیادہ کتب شائع ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعد انہوں نے اسی انجمن کے زیرِاہتمام کراچی، پاکستان اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لاء کالج جیسے ادارے قائم کیے۔ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ ان کا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔
سنہ 1935ء میں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انہیں بابائے اردو کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ 23 مارچ، 1959ء کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
مولوی عبدالحق کی ویسے تو بے شمار تصانیف ہیں تاہم ان میں مخزنِ شعرا،اردو صرف ونحو، افکارِ حالی، پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ،سرسیداحمد خان، اور دیگر مقبولِ عالم ہیں۔
بقول معروف تنقید نگار عبدالماجد دریا آبادی
“مولوی عبد الحق کی خدمات کا شمار کرنا دشوار کام ہے ، ویسے تو ایک عرصے سے اردو کے محسنوں نے اردو کی خدمات
انجام دی ہیں لیکن اگر کسی ایک کو محسنِ اعظم کا لقب دیا جاسکتا ہے تووہ مولوی صاحب کی ذات ہے۔
(۲) تحقیقی و تنقیدی انداز:
مولوی عبد الحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے قدیم شعراء اور نثر نگاروں کی تخلیقات پر بڑے معرکۃ الاراء مقدمات لکھے۔ یہ اپنی طرز کا واحد کام تھا جو مولوی صاحب کی ذات سے شروع ہوا۔ انہی پر آکر اختتام پذیر ہوگیا۔ یعنی وہ اسفن کے موجد بھی تھےخاتم بھی۔ انہوں نے شاعروں اور نثر نگاروں کے بارے میں جو رائے دی ہیں۔ وہ آج بھی حرف آخر کا درجہ رکھتی ہیں اور کوئی بھی ان میں کسی قسم کی کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتا۔ میر تقی میر اور میر امن کے قصے “چہار درویش” کے بارے میں ان کی رائے ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
“میر تقی میر فی الحققیت سرتاج الشعرائےاردو ہیں۔ اردو زبان میں انکا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا
جائے گا جیسے شیخ سعدی کا کلام فارسی زبان میں۔ اگر دنیا کے چند ایسے شعراء کا کلام منتخب کیا جائے
جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میر تقی میر کا نام اس فہرست میں ضرور شامل ہوگا”۔
(انتخاب کلام میر: مقدمہ شعر و شاعری)
“میر امن کا قصہ” ، “چہار درویش” فی الحقیقت باغ و بہار ہے یہ اردو کی ان چند کتابوں میں سے ہے جو ہمیشہ
زندہ رہنے والی ہے اور شوق سے پڑھی جائے گی۔”
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کہتے ہیں:
“ڈاکٹر مولوی عبد الحق صاحب کو اردو مقدمہ نگاری ایک خاص ڈھب ہے اور اب یہی ڈھب مقدمہ نگاری
معیار کہلاتا ہے۔”
(۳) خاکہ نگاری:
مولوی عبد الحق ایک عظیم خاکہ نگار تھے۔ اس سلسلے میں انکی ایک اہم تصنیف “چند ہم عصر” ہے یہ کتاب اردو ادب میں ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کے خاکے اسلوب بیان کی پختگی ، زبان کی صحت، روانی ، شگفتگی اور جامعیت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ انکی اس تصنیف سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
“سچائی اور ایمانداری کسی کی میراث نہیں، یہ خوبیاں نیچی ذات والوں میں بھی ویسے ہی پائی جاتی ہیں۔ جیسے کہ اونچی ذات والوںمیں اور انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے اور انسان ہونے میں امیر و غریب کا کوئی فرق نہیں۔” (گدڑ ی کا لعل، نور خان)
“دنیا نیکوں ہی کے لئے نہیں ، اس میں بدوں کا بھی حصہ ہے اور شاید دنیا کی بہت کچھ رونق انہیں کے دم سے ہے۔
وہ دونوں سے کام لیتے تھے۔” (تذکرہ محسن، چند ہم عصر)
نثار احمد خان ان کی اس تصنیف کے بارے میں کہتے ہیں:
” چند خاکوں کا یہ مجموعہ اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گاجب تک “غالب کے خطوط” اور ابو الکلام آزاد کی
“غبار خاطر” کا سکہ دلوں میں بیٹھا رہے گا”
(۴) عکسِ حالی:
بقول عبد الماجد دریا آبادی:
“مولوی صاحب سادہ نویس اور سنجیدہ نویس ہیں گویا حالی کے مثنیٰ”
مولوی عبد الحق “دبستانِ سرسید” میں سب سے زیادہ حالی سے متاثر ہیں۔ انہوں نے جس ادبی فضا میں آنکھ کھولی ۔ اس وقت ہندوستان کے آسمان ادب پر اردو کے عناصر خمسہ سرسید، آزاد، نذیر احمد ، شبلی اور حالی ضوفشانی کررہے تھے اور یہ سب اپنی اپنی جگہ ایک تاریخ رقم کررہے تھے لیکن مولوی صاحب کا جھکاؤ حالی کی طرف ہوا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انہوں نے اپنی ذات میں حالی کو جذب کرلیا تھا۔ چنانچہ “مکتوب حالی” پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ خود کہتے ہیں:
“مولانا حالی اُن پاک نفوس میں سے ہیں جن کا ہم ادب کرتے ہیں اور ان سے محبت بھی”
(۵) رنگِ سرسید:
بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ:
“یہی و ہ شخص ہے جسکے کردار اور ذہنی ساخت کی تشکیل میں سرسید کے قول و فعل نے سب سے زیادہ حصہ لیا ہے۔”
مولوی عبد الحق سرسید کے افکار سے بھی متاثر تھے اور انہوں نے ان کے اثرات کو شعوری طور پر محسوس بھی کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب بیان میں سرسید کے رنگ تحریر کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ انہوں نے سرسید کے اسلوب کی سب سے زیادہ پیروی کی۔ اور ان میں سب سے زیادہ کامیاب بھی نظر آئے ہیں۔
(۶) اردو زبان سے عشق:
مولوی صاحب کا اوڑنا بچھونا اردو ہی تھا ۔ انہوں نے ایک طویل عرصے تک اس زبان کی خدمت کی اور اسے بنایا اور سنوارا۔ بلاشبہ وہ اردو زبان کے ایک بہت بڑے عاشق تھے ۔ ان کے کارناموں میں انجمن ترقی اردو کے قیام کے علاوہ جامع عثمانیہ کی تاسیس جس کے ذریعے اردو کے دامن کو وسیع کرنا اور قدیم و جدید علوم و فنون کے خزانوں سے اس زبان کو مالا مال کرنا شامل ہے۔ کراچی میں اردو کالج (موجود اردو یونیورسٹی) کا قیام بھی انہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی کہتے ہیں:
“مولوی عبد الحق نے اردو ادب کی ترقی میں اپنا جیون برت رکھا۔”
(۷) خلوص و سچائی:
مولوی عبد الحق بنیادی طور پر سرسید و حالی سے متاثر تھے۔ لہذا ان کی تحریروں پر بھی انکا پرتو نظر آتا ہے۔ چنانچہ مولوی صاحب کی تحریریں جہاں ادب عالیہ میں شامل سمجھی جاتی ہیں تو اسکی وجہ بھی صرف یہی ہے کہ انکا ہر لفظ خلوص و سچائی سے بھرپور ہے یعنی دل سے بات نکلتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہے۔ انکی تحریریں جہاں خلوص و سچائی سے بھرپور ہیں۔ وہاں ان میں سادگی کا عنصر نمایاں ہے ۔ وہ بقول خود اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ:
“صرف سادگی میں ایک ایسا حسن ہے جسے کسی حال اور کسی زمانے میں زوال نہیں بشر طے کہ اس میں صداقت ہو”
(۸) استدلالیت (مدلل اندازِ تحریر):
حالی اور سرسید کی طرح مولوی عبد الحق کے افکار میں بھی سب سے زیادہ اہمیت “عقل پسندی” کو حاصل ہے۔ وہ استدلال کی روشنی میں بال کی کھال نکالنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ ان کے استدلال کے آگے ان کے مخالفین بھی بے بس نظر آتےہیں۔ ان کی تحریریں منطقی اعتبار سے مربوط و مضبوط ہیں۔
“ان کی تحریریں پڑھ کر ان کی فنی مہارت کا قائل ہونا پڑتا ہےاور یوں لگتا ہے جیسے کسی وکیل کا دعویٰ اور جواب دعویٰ تیار کیا گیا ہے۔”
(۹) مقصدیت:
مولوی عبد الحق کی تحریروں کا مقصد اردو زبان کے دامن کو وسعت دینا اور اسے دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کی صف لاکھڑا کرنا شامل ہے۔ حالی اور سرسید نے جس مقصد کا بیڑا اٹھایا ۔ مولوی عبد الحق نے اسے تکمیل تک پہنچایا۔
بقول آلِ احمد سرور:
“سرسید نے جس اسلوب کی ابتداء کی اور حالی نے جسے پروان چڑھایا مولوی عبد الحق نے اس اسلوب کو اپنی معراج تک پہنچادیا”
(۱۰) خطبہ نگاری:
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی خطباتِ عبدالحق سے متعلق رقمطراز ہیں کہ:
’’ ان خطبات کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو مسحور کر دیتے ہیں ۔ ان میں ایک عالمانہ شان ،ہمہ گیری اور تنوع ہے ۔‘‘
’’خطباتِ عبدالحق ‘‘ آپ کو ایک صاحبِ طرز ادیب و نثر نگار بنانے میں دیگر تصانیف کے مقابلے میں بہت اہم ہیں ۔ یہ خطبات سادگی و سلاست اور صداقت و اثر انگیزی میں بے مثال ہیں ۔یہ خطبات پوری صدی کی اجتماعی زندگی کی مکمل دستاویز ہیں ۔کوئی بھی تاریخ نویس ان خطبات کے مطالعے کے بعد اس دور کی تاریخ رقم کر سکتا ہے۔
(۱۱) تصانیف:
قوعدِ اردو ۔۔۔۔۔ لسانیات
اردو انگلش ڈکشنری ۔۔۔۔ لسانیات
سر سید حالات و افکار ۔۔۔۔ تحقیق و تا ریخ
نصرتی ۔۔۔ تحقیقی مقالہ
مرہٹی زبان پر فارسی کا اثر ۔۔۔۔۔۔ تحقیقی مقالہ
اردو کی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا حصہ ۔۔۔۔تحقیقی مقالہ
خطباتِ عبد الحق ۔۔۔۔۔لیچرز کا مجموعہ
مقدماتِ عبد الحق ۔۔۔۔۔ مضامین
تنقیداتِ عبد الحق ۔۔۔۔ تنقیدی مضامین
(۱۲) مقدمہ نگاری:
آپ نے بے شمار کتب پر سیرِ بحث ا ور معلوماتی مقدمے تحریر فرمائے ہیں۔ اردو ادب میں ان مقدمات کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔ان میں سیرت نگاری اور سوانح نگاری کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔ ان مقدمات کے باب میں بلند پایہ محقق ڈاکٹر عبادت بریلوی کی رائے سے استفادہ کرتے ہیں۔
’’ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان مقدمات میں جو انداز اور اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ حد درجہ شگفتہ اور شاداب ہے یہی وجہ ہے کہ یہ مقدمات دماغ ہی کو متاثر نہیں کرتے ،دل پر بھی ان کا اثر ہوتا ہے۔
(۱۳) ناقدین کی آراء :
پروفیسر حمید اللہ خان کچھ یوں رقمطراز ہیں کہ:
“مستقبل کا مورخ جب بیسیویں صدی کے نصف اول میں اردو کے لسانیاتی اور تنقیدی سرمائے کا جائزہ لے گا
تو اسے مولوی عبد الحق کے عظیم الشان کارناموں کی صحیح عظمت کا اندازہ ہوسکےگا”۔
ڈاکٹر ابو للیث صدیقی کچھ یو ں گویا ہیں کہ :
’’ دورِ جدید میں اردو کی تاریخ و تنقید کا جو عام مذاق تعلیم یافتہ طبقے میں پیدا ہوا ہے اور اردو کی جو علمی سطح قائم ہوئی ہے اس میں مولوی عبد الحق کا بڑا ہاتھ ہے۔‘‘
بقول ڈاکٹر انور سدید :
’’مولوی عبدالحق نے ’’ چند ہمعصر ‘‘ میں عظمتِ کردار کو اہمیت دی اور سر سید ، حالی ، اقبال ، اور محسن الملک جیسی بڑی شخصیات کے ساتھ نور خان اور نام دیو مالی جیسے کرداروں کو بھی محبت کی نظر سے دیکھا۔ چنانچہ انہیں اس صنف میں ایک سنگِ میل کی حیثیت دی گئی۔‘‘
مولوی عبد الحق کی تحریریں جدید اور قدیم اسلوب ِ نگارش کا حسین سنگم ہیں ۔ ان کی تحریریں دبستان ِ سرسید کی تحریروں کا عکس ہیں ۔ ان کی تحقیق و تنقید کی بدولت اردو نظم اور نثر میں ایسی معلومات منظر عام پر آئیں۔ جن سے لوگ پہلے واقف نہیں تھے۔ بلاشبہ وہ اردو کے ایک بہت بڑے عاشق تھے۔ اور ان کی تمام عمر گیسوئے اردو کو سنوارنے میں صرف ہوئی۔آپ کی خدمات نا قابلِ فراموش ہیں ۔ قدیم نسخے ،تذکرے ،شعراء کے مجموعے اور کلیات، قدیم نثری داستانوں کی بازیافت اور اس کی ترتیب و اشاعت آپ ہی کا خاصہ ہے ۔گویا آپ نے بعد کے آنے والے مؤرخین اور محققین کیلئے ہزاروں زاویے سے نئی راہیں کھول دیں ہیں ۔اردو ا زبان آپ پر جتنا بھی ناز کرے کم ہے۔
مولانا غلام رسول مہر نے ان کے بارے میں درست کہا ہے:
“مولوی عبد الحق کی خدمات اس درجہ بلند، گراں مایہ اور پائیدار ہیں کہ آج پاک و ہند کے آسمان کے نیچے کوئی دوسرا شخص علم و ادب اور زبان کے دائرے میں ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔”
مجید امجد کی شعری کائنات
مجید امجد کی شاعری کے متعلق کچھ آرا اکثر سننے کو ملتی ہیں جیسا کہ مجید امجد کے ہاں سائنسی...