محمد یونس اَنصاری
مذاہب عالم کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جو علم کا حامی اور سر پرست ہے۔ اسلام نے علم کی فضیلت پر بہت زور دیا ہے اور جہالت کی پر زور مذمت کی ہے۔ تحصیلِ علم کو ہر مردو زن پر فرض قرار دیا ہے۔ علم کی فضیلت اور تحصیل علم کی تاکید اور حکم پرقرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کابہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔یہی وجہ تھی کہ ان احکام نے قرنِ اول کے مسلمانوں کو طلب و تحصیل علم پر اس طرح آمادہ کر دیا تھا کیہ انھوں نے دنیا میں سب سے اہم کام اسی کو سمجھااور اسی کو اپنا اوڑھنا،بچھونا بنا لیا تھا ۔ اسی کے واسطے اپنے گھر بار اور اپنے وطن مالوف کو خیر باد کہا اور اپنی تما م تر عمریں اسی کے لیے وقف کر دی تھیں۔ مسلمانوں کے اس علمی شوق اور حصول علم کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دینے کی مثال تاریخ ِعالم میں ملنی مشکل ہے۔
حصول علم کے اسی جذبے نے نہ صرف عربوں کو بلکہ عجم کے مسلمانوں کو بھی کتابوں کا گرویدہ بنا دیا کہ وہ کتابیں پڑھنے کے علاوہ کتابیں جمع کرنے اور لکھنے میں اپنی زندگی کے بہترین اوقات صرف کر نے لگے۔اسلام میں تالیف کتب سے پہلے اہل عرب لفظـــــــــــ’’ کتابـــــــــ‘‘ کو تحریر یاخط کے لیے استعمال کر تے تھے لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ سب سے پہلے جو چیز کتاب کی صورت میں مدوّن ہوئی، وہ یقیناً کتاب اللہ یعنی قرآن کریم ہے۔
کتابیں لکھنے کی ابتدا اگرچہ پہلی صدی کے آغاز ہی میں ہو چکی تھی لیکن فتوحات اسلامی کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ تصنیف کتب نے اتنی ترقی کی کہ کتابوں کی کثرت کی وجہ سے جا بجا عظیم الشان کتب خانے قائم ہو گئے۔مسلمانوں نے بہت کم عرصے میں جس تیزی اور مستعدی کے ساتھ ملکی فتوحات کا دائرہ وسیع کیا ، تصنیف و تالیف اور جمع و اشاعتِ کتب کے میدان میں اس سے کئی گنا سرعت کے ساتھ پیش رفت کی۔
کتابیں ذخیرہ کرنے کا شوق اتنا پروان چڑھا کہ سلاطین و امراسے لے کر معمولی طالب علم تک دیوانہ وار کتابوں کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہنے لگے ۔نہ صرف جسمانی صلاحیتوں کو اس کام میں کھپا دیا بلکہ بے دریغ مال و دولت بھی اس مقصد کے لیے صرف کی۔کتابوں کو جمع کرنے کا سلسلہ اپنی جگہ برقرار رہا لیکن ساتھ ساتھ مسلمانوں نے بے نظیر علمی فیاضی اور ایثار کا ایسا زبردست مظاہرہ کیا کہ آج بھی متمدن ممالک میں اس پر فخر کیا جاتا ہے۔بزرگان ِسلف میں بے شمار ایسے نفوس تھے جنھوں نے اپنی کتابیں اور کتب خانے اپنی قوم کے لیے وقف کر دیے۔
مطالعۂ کتب کا شوق بھی مسلمانوں میں بے پایاں تھا۔ مسلمان ممالک میں جہاں ایک طرف کتابوں اور کتب خانوں کی کثرت تھی تو دوسری طرف کتابیں پڑھنے اور مطالعہ کرنے کا شوق بھی کچھ کم نہ تھا۔جو لوگ مطالعے اور کتابت کا مشغلہ رکھتے تھے ،ان کو باقاعدہ وظیفہ دیا جاتا تھا۔ نقل ِکتاب کے لیے عام طور پر سہولتیں مہیا کی جاتی تھیں۔ ذاتی کتب خانوں میں داخلے کی عام اجازت ہوتی تھی۔بعض اوقات وقف شدہ کتب خانوں میں سے لوگ کتابیں اٹھا لے جاتے تھے، ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔
مطالعۂ کتب کا شوق اس قدر بڑھ گیا تھا کہ تیسری صدی کے مشہور ادیب جاحظ کی موت کتابوں کی وجہ سے ہوئی۔ وہ ایک دن کتابوں کے جھرمٹ میں بیٹھے مطالعے میں مصروف تھے کہ اچانک تمام کتابیں ان پر گر پڑیں جن کے بوجھ تلے دب کر وہ وفات پا گئے۔ بعض اہل قلم نے ہر قسم کی خوش حالی کے باوجود صرف مطالعے کے شوق میں ساری زندگی شادی نہیں کی۔ بعض لوگوں کو شوق مطالعہ نے ایسا گرویدہ بنایا کہ اس کی محبت میں اپنے بیوی بچوں کو بھلا بیٹھے۔
کتاب کو چار دانگ عالم میں پھیلانے کا جس قدر کام مسلمانوں نے سر انجام دیا ہے، وہ بھی بے مثال ہے۔مسلمانوں نے نہ صرف کتابیں لکھیں بلکہ جمع بھی کیں ،انھیں مرتب انداز میں لکھنے کا اہتمام کیا اور ان سے بھرپور استفادہ بھی کیا ۔ مسلمانوں کی یہ متاع بے بہا ،مخطوطات کی صورت میں آج بھی یورپ کے کتب خانوں میں موجود ہے۔ علامہ محمد اقبال اسے دیکھ کر حسرت بھرے لہجے میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ۲؎
نوع انسانی کی بہت بڑی خدمت یہ بھی ہے کہ مختلف زبانوں میں جو علمی کتابیں تصنیف ہوئی ہیں، انھیں زمانے کی دستبرد سے محفوظ کر دیا جائے اور ایسا بندوبست کر دیا جائے کہ آنے والی نسلیں ان سے بھرپور استفادہ کر سکیں۔ مسلمانوں نے جہالت کی اس اندھیری شب میں ایسا کارنامہ سر انجام دیا کہ نہ صرف مذکورہ علوم کو جمع کیا بلکہ انھیں پھیلانے کا مناسب انتظام کیا۔ علم کے کسی شعبے کو بھی انھوں نے نہیں چھوڑا۔ اگر آج بچے بچے کی زبان پر افلاطون ،ارسطو، بقراط، جالینوس وغیرہ کے نام جاری ہیں تو یہ سب مسلم حکمرانوں اور مشاہیر کی خدمات کا کرشمہ ہے ۔۳؎
مولانا قاری محمد طیب صاحب’’ خطباتِ حکیم الاسلا م ‘‘جلد چہارم میں امام اوزاعی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’دنیا میں کوئی قوم تصنیف میں مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ حجاز کے کتب خانوں میں لاکھوں بلکہ کروڑوں کتابیں محفوظ ہیں۔ اندلس کے کتب خانوں کے متعلق ایک عیسائی عورت اپنی کتاب’’حاضر الاندلس و غاربہا‘‘ میں لکھتی ہیں کہ تعصب میں آ کر عیسائیوں نے ارادہ کیا کہ مسلمانوںکو لٹریچر ضائع کر دیا جائے۔ چناچہ حکومت کی طرف سے اس کام کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا گیا، جس کا کام یہ تھا کہ کتب خانوںکو جلائے یا دریا برد کر دے ۔ وہ عورت لکھتی ہے کہ پچاس برس تک یہ مہم جاری رہی۔ تاتاریوں نے حکومت ِ بغداد کے کتب خانوں کو دریا میں ڈال دیا، تو وہ ایک بڑا پل بن گیا۔۔۔۔ تاریخ کی کتب میں لکھاہے کہ ایک ماہ تک دریا کا پانی سیاہ رہا۔۔ جب ایک کتب خانے کی یہ حالت تھی تو باقیوں کا کیا حال ہو گا؟ انجیل کے شباب کے زمانے میں بھی عیسائی اتنے کتب خانے نہ بنا سکے اور نہ ہی یہودی تورات کے شباب کے زمانے میں ایسے کتب خانے بنا سکے اور آج بھی انھوں نے
جو تصانیف کی ہیں وہ بھی مسلمانوں کی برکت سے ہیں‘‘۔(۴)
کتاب و کتب خانے کسی قوم کے تہذیبی و تمدنی ورثے کی امین ہیں۔یہ معاشرے کو ایک شناخت دیتی ہیں ۔کتابیں طاقتور افکارو نظریات کو جنم دیتی ہیںاور بعض اوقات انقلابات کی راہ بھی ہموار کر دیتی ہیں۔ کتب خانوںکی بدولت سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ یہ زندگی کے ہر صفحے کے لیے ایک مینارِ نور و شعور ہیں۔ کتاب وکتب خانے حکمت و دانش کا بیش بہا خزانہ ہیں ان سے جذبۂ تحقیق کو تقویت ملتی ہے۔ انسانی شخصیت کو ان کی بدولت اعتبارو و قار حاصل ہوتا ہے۔ تحقیق کی پیش رفت میں کتاب سے بڑھ کر کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ کتاب استاد کا درجہ رکھتی ہے۔ کتاب و کتب خانہ ایک صدقہ جاریہ ہے جس سے لوگ ہر دور کے اندر مستفیض ہوتے رہے ہیں۔ کتاب و کتب خانہ نیکو کاروں کی نیکیوں میں اضافے کا سبب ہے جب کہ مجرموں کے لیے اصلاح و تربیت کا ذریعہ ہے۔ کتاب و کتب خانے ہمارے سماجی مسائل کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور مسائل کے حل کرنے میں مددگار بھی ہیں۔محقق بننا، سچ کو پرکھنا، حق و باطل میں تمیز کرنا سب کچھ کتاب و کتب خانوں کا ہی مرہون منت ہے۔
الغرض کتاب نے مٹی کی تختی سے لیکر برقی تختی تک طویل سفر طے کیا ہے ہر دور کے اندر اس کی افادیت مسلمہ رہی ہے۔ کتب خانہ کتاب کے حصول اور مطالعے کی جگہ ہے کتب خانہ خواہ روایتی ہو،سمعی ہو یا برقی صورت میں ہو بہر حال الکتاب علم کا ذریعہ و منبع ہے۔
جہاں تک انسانی زندگی پرکتاب اور کتب خانہ کے اثرات کا تعلق ہے تو یہ بات مسلمہ ہے کہ کتاب سے زیادہ کسی چیز نے بھی انسانی زندگی پر اثر نہیں ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے پہلے جو چیز ودیعت کی وہ الہامی کتاب ہے۔ انھی الہامی کتابوں میں انسانوں کے لیے دستور العمل وضع کیا گیا۔ انسانوں کو گذشتہ حالات و واقعات کا علم کتاب کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ گذشتہ لوگوں کا فلسفہ ، ایجادات، حکمت اور نظام مملکت کا علم کتابوں کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔ قرآن کریم کے مطالعے نے نہ صرف مسلمانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا بلکہ غیر مسلم بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چونکہ قرآن کریم میں انسانی زندگی کے ہرشعبے کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں، اس لیے قرآن کریم کے مطالعے نے انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں پر مثبت تبدیلی پیدا کی،انھیں جینے اور مرنے کا سلیقہ سکھایا۔
قرآن کریم کے علاوہ دیگر تاریخی اور ادبی کتابوں کے مطالعے سے بھی انسانی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ انسانی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ مختلف زبانوں پر عبور حاصل ہوتا ہے۔ کتابوں کے مطالعے سے انسان کی سوچ مثبت ہوجاتی ہے اور اس کے ذہن سے شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں۔ مطالعۂ کتب سے علم و فکر کا اعادہ ہوتا رہتا ہے۔ اس سے پیشہ ورانہ زندگی میں آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ کتاب بینی سے تصنیف و تالیف کی انتہائی منزل تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔ کتابوں کی مسلسل اور تواتر کے ساتھ مطالعے سے خود انسان کے اندر لکھنے ،لکھانے کا شعور آ جاتا ہے اور وہ تصنیف تالیف کے لیے اپنی طبیعت میں آمادگی محسوس کر تا ہے۔کتاب کے مطالعے سے ہر شخص کو اپنے دور کی سیاسی ، سماجی، تہذیبی اور اقتصادی پریشاں حالی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ ملک کو درپیش مسائل سے واقفیت حاصل ہونے کے علاوہ مغربی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور اسلامی ممالک کی تباہی و بربادی اور زوال سے بھی آگاہی حاصل ہوجاتی ہے
کتاب و کتب خانہ کا تحقیق سے نہایت گہرا تعلق ہے۔ تحقیق و تدوین ہر دور میں کتاب و کتب خانے کی مرہون منت رہی ہے۔ چاہے زمانہ قدیم ہو یا جدید، ترقیاتی مواصلاتی دور، تحقیق کتاب و کتب خانہ کے بغیر ممکن نہیں۔ کتب خانہ ایسی جگہ ہے جہاں سے ایک محقق مواد لیتا ہے اور اپنی تحقیق کو آگے بڑھاتا ہے۔کتب خانے کے بغیر ایک تہذیب یافتہ سماج کا تصور ہی محال ہے۔ کتب خانوں میں قدیم اور جدید مواد فراہم کیا جاتا ہے جس سے نہ صرف طلبہ اور اساتذہ استفادہ کرتے ہیں بلکہ تحقیق کرنے والے بھی بھر پور فائدہ لیتے ہیں۔ گویا کوئی بھی تحقیق چاہے وہ جس قسم کی بھی ہو، کتب خانوں سے استفادہ کیے بغیر شروع ہو سکتی ہے نہ مکمل ہو سکتی ہے۔ کتب خانے علم کی حفاظت اور اس کی ترسیل کا بہترین ذریعہ ہیں اور یہ قوم کے افراد میں ثقافتی، تمدنی، معاشرتی اور سیاسی شعور پیدا کر دیتے ہیں اور ذہنی تفریح کا تعمیری اور معیاری ذریعہ فراہم کرتے ہیں۔ آجکل کے مہنگائی کے دور میں کتابوں کی قیمتیں ایک عام قاری کی پہنچ سے بہت دور ہیں ،لہٰذا کتب خانہ قاری کو وہ کتابیں ایک جگہ فراہم کر دیتا ہے جنھیں عام آدمی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ کتب خانہ ایک صدقہ جاریہ ہے۔ جس سے لوگ ہر دور میں مستفید ہوتے رہیں گے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی موجودہ ترقی علم کی مرہون منت ہے اور علم حاصل کرنے کے لیے کتب خانے نا گزیر ہیں۔
آج کا دور انٹرنیٹ سے استفادے کا ہے اور دنیا نے بہت ترقی کر لی ہے۔ ہر روز نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ جہاں ایک قاری کے ہاتھ میں کتاب ہونی چاہیے ،اس کی جگہ سمارٹ موبائل نظر آتا ہے۔ کتاب انٹر نیٹ پر آ گئی ہے۔ ای کتب خانوں(e۔libraries )کا قیام عمل میں آتا جا رہا ہے، پبلشرز نے کتب کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا ہے تاکہ قاری کا کسی نہ کسی طریقے سے کتاب سے تعلق قائم رہے۔اس سب کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہ ہو گی۔انسان نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کتاب کو جدید شکل (PDF)میں منتقل کر دیا ہے۔ جہاں کتابیں کتب خانوں کے اندر موجود تھیں، اب وہ ای لائبریری (e۔library )ڈیجیٹل لائبریری ، ورچوئل لائبریری اور آن لائن لائبریری کی شکل میں مل جاتی ہیں،لیکن اس کے باوجود کتاب اور کتب خانے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ آج بھی تمام ذی شعورحضرات کتابیں پڑھتے ہیں۔ بلکہ نوجوان نسل کو بھی کتاب سے دوستی بڑھانے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ گو کہ ہمارے معاشرے سے لائبریری کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے اب ان کی جگہ موبائل فون مارکیٹ، پلے لینڈ اور شادی ہالوں نے لے لی ہے ۔ لیکن اس سے وہ ضرورت پوری نہیں ہو پاتی جو براہ راست کتابوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ انٹر نیٹ سے لیے جانے والے حوالہ جات ثانوی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں جب کہ کتابوں کے حوالے مستند ہوتے ہیں۔گذشتہ کئی سالوں سے بحیثیت لائبریرین خدمات انجام دینے کے بعد، مجھے کتاب و کتب خانہ کی ا ہمیت کا بھر پور احساس ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ جو خوشی کتاب پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے ،کمپیوٹر سے ہر گز حاصل نہیں ہو سکتی۔ الغرض معاشرے میں محبت، رواداری اور امن کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کتاب سے ٹوٹتے رشتے کو از سر نو بحال کر دیں۔ جو نہی ہاتھ میں کتاب آ جائے گی تو کلاشنکوف کے کلچر سے ہمیں از خود نجات مل جائے گی:
ہر ایک فکر کا محور کتاب ہوتی ہے
سب ہی گلوں میں گلِ تر کتاب ہوتی ہے
ہر ایک بدن میں اترتی ہے خوشبوؤں کی طرح
ہر ایک وجود کے در پر کتاب ہوتی ہے
کبھی بھی اس کے بگڑنے کا احتمال نہیں
وہ جس کسی کا مقدر کتاب ہوتی ہے
جہاں کہیں میں کسی راہ کا مکین ہوا
میرا وجود میرا گھر کتاب ہوتی ہے
پھر اس گھڑی کسی شے کی مجھے طلب نہ ہوئی
کبھی جو ہاتھ میں منظر کتاب ہوتی ہے
حوالا جات:
(۱)بانگ ِ درا۔علامہ محمد اقبال ،خطاب بہ جوانانِ اسلام
(۲)سو تاریخی واقعات ۔ولیم اے ڈیوٹ ، مترجم: غلام رسول مہر،فیروز سنز،لاہور،ص۱۰۹
(۳) زندگی پر کتاب و کتب خانہ کے اثرات۔ ڈاکٹرنسیم فاطمہ،شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی،۲۰۱۶،ص ۱۳
(۴)خطبات حکیم الاسلام،جلد چہارم۔مولانا قاری محمد طیب، ادارہ اسلامیات،لاہور۱۹۹۸، ۱۰۲
٭٭٭
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...