بیساکھی کا تہوار برصغیر کے ان حصوں میں منایا جاتا ہے جہاں کا (خصوصاً پنجاب) زریعہ معاش زراعت ہے ۔ یہ ثقافتی تہوار مقامی سال (بکرمی) کے آغاز پر یعنی پہلے مہینے (بیساکھی) کی پہلی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔
پرانے زمانے سے پنجاب اور ملحقہ علاقوں میں مقامی کلینڈر کے مطابق نئے سال کی ابتدا پر بہار کا میلہ بیساکھی (ویساکھی یا پشتو میں ایساکئی) کا تہوار بمطابق 13 یا 14 اپریل کو ہر سال منایا جاتا ہے ۔ اس وقت جب بہار اپنے جوبن پر ہوتا ہے اور گندم کے فصل کی کٹائی کے آغاز پر کسان بلا تفریق مذہب اس عید کی خوشی مناتے ہیں ۔ آدھے سال کی محنت کے بعد جب گندم کا فصل پک کر سونا بن جاتی ہے اور اس کے کٹائی کا وقت آتا ہے تو اس پر مسرت موقع پر مختلف قسم کے لذیذ طعام ، بھنگڑا ، لڈی ناچ ، میلے ٹیلے اور مویشیوں کی منڈی لگائی جاتی ہے ۔
یکم بیساکھی سکھوں کے لئے دوگنی اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ اسی دن 1699 کو صوفی مزاج گورو نانک کے پیرو کاروں نے دسویں گرو گوبند سنگھ کے تحت پہلی مرتبہ سکھ فوج بنائی اور خالصہ پنتھ کی بنیاد رکھی تھی ۔ یہ وجہ ہے کہ اکثر اوقات اس ثقافتی تہوار کو صرف سکھ برادری سے جوڑ دیا جاتا ہے ، جو درست نہیں ہے۔
بیساکھی کا تہوار ایک علاقائی و ثقافتی تہوار ہے جو موسم کی مناسبت سے فصل کی کٹائی کے وقت منایا جاتا ہے ۔ لیکن ہمارے یہاں ماضی میں ایک پالیسی کے تحت اس تہوار کو ہندوانہ رسم اور سکھوں کی مذہبی تاریخ سے مستقلاً جوڑا گیا اور یوں رفتہ رفتہ مملکت خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس کو منانے کا رواج ماند پڑنے لگا ۔
پچھلے سال بیساکھی کے موقع پر پنجاب کے وزیر اعلی جناب بزدار صاحب نے سکھ برادری کو تہنیتی پیغام بھیجا ہے ، جبکہ اپنے صوبے میں بسنے والے 11 کروڑ پنجابیوں کو مبارکباد دینا فراموش کر گئے ہیں ۔ ایک خاص نظریہ کے فروغ ، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال ، دنیا کا گلوبل ویلج بننا اور مادہ پرستی کے رجحان نے کامیابی کے ساتھ دھیرے دھیرے ہم سے ہماری اپنی شناخت اور پہچان چھین لی ہے۔
پنجاب کے علاوہ ان پختون علاقوں میں جہاں گندم کی کاشت ہوتی ہے وہاں پر بھی گندم کی کٹائی خوشی کا موقع ہوتا ہے ۔ جس میں سارے دیہاتی مل کر گندم کٹائی ( لو ) پھر تھریشر (مشین کے استعمال سے پہلے اس کو “غوبل” کہا جاتا تھا) اور پھر بھوسہ کو سنبھالنا (بوساڑا) میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔ اس پورے عمل کو “اشر” اور اس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے والوں کو “اشر گندی” کہا جاتا ہے ۔ کام سے فراغت کے بعد مشترکہ دعوت کا اہتمام ہوتا ہے جس میں دیسی گھی میں پکائے گئے دیسی مرغ کا سالن بنایا جاتا ہے ۔ بوساڑے کے ماہر کو اس کے ماہرانہ کام کی وجہ سے دو عدد چکن پیس کھانے کو دئے جاتے ہیں ۔
اسی تہوار کے دن 1919 میں انگریز سرکار نے امرتسر (مشرقی پنجاب) میں نہتے عوام پر گولی چلائی اور بچوں و عورتوں سمیت سینکڑوں لوگوں کو شہید اور اس سے بھی زیادہ کو زخمی کردیا تھا۔
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...