بنے گا نیا پاکستان!
سب سے پہلے تحریک انصاف کے دوستوں کو جیت کی مبارک باد۔
اس وقت کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف وفاق میں ایک سو گیارہ بارہ نشستوں پر لیڈ لے رہی ہے۔ گو کہ میری حمایت پاکستان مسلم لیگ نون کے لیے تھی، لیکن اس صورت احوال میں دُعا گو ہوں کہ تحریک انصاف کم سے کم دس پندرہ مزید نشتیں جیت جاے، تا کہ نسبتا مضبوط حکومت بنا سکے، کیوں کہ پاکستان کے مستقبل کے لیے اچھا ہے کہ مستحکم حکومت بنے۔
جہاں تک پولنگ کی اطلاعات ہیں، اور جو میں نے دیکھا سنا، پولنگ کے عمل میں کوئی بڑی بے ضابطگی نہیں دکھائی دی، جسے دھاندلی سے منسوب کیا جا سکے؛ معمول کے واقعات پاکستانی الیکشن میں ہوتے رہتے ہیں۔ غیر معمولی واقعہ الیکشن کمیشن کا سسٹم کولیپس کر جانا ہے، الیکشن کمیشن کی وضاحت پیش کرنے میں کوتاہی نے افواہوں جنم دیا۔ ایسے میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، اور دیگر جماعتوں نے دھاندلی کا شور مچایا۔ میرا نہیں خیال کہ ایسا دھاندلی کے لیے کیا گیا، مجھے الیکشن کمیشن کی وضاحت پر بھروسا ہے، الیکشن کمیشن سے شکوہ ہے تو اتنا کہ یہی عذر وہ پہلے میڈیا کے سامنے رکھ دیتے۔ اگر مخالفین اپنے دعووں کے حق میں ٹھوس شواہد لے آتے ہیں، تو پھر ان کی بات پر یقین کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ دھاندلی کے الزام کا جواز نہیں۔
عدلیہ کے فیصلوں اور پری پول رِگنگ کہ الیکٹ ایبلز کو اِدھر سے اُدھر بھیجنا، اخلاقی طور پہ معیوب سہی، لیکن میری نظر میں معنی نہیں رکھتا، کیوں کہ انھی الیکٹ ایبلز کو ووٹ نہ دینے کا اختیار ووٹر کے ہاتھ میں تھا۔ ووٹرز ان توتا چشموں کو مسترد کر دیتے، نہیں کیا تو انھیں بھگتیں۔ پاکستانی سیاست میں ایسا ہوتا آیا ہے، اور آگے بھی ہوتا رہے گا، جب تک عوام ان الیکٹ ایبلز کو پارٹی بدلنے کی سزا نہیں دیتے۔
پھر یہ بھی ہے کہ انھی جماعتوں نے انتخابی اصلاحات کے نام پر جو کچھ منظور کیا، اس میں خامی ہی کیوں چھوڑی کہ دھاندلی ہو سکے۔ بہ تر یہی ہے کہ اب اس الیکشن کو قبول کریں، اور تحریک انصاف سے بدلہ لینے کے لیے اسی کی نقالی میں دھرنے دے کر ملک کو پیچھے کی طرف مت لے کر جائیں۔ ایک مہینے دو مہینے تین مہینے بعد پھر الیکشن کرواے جائیں تو کیا ضمانت ہے، اس الیکشن کو سب قبول کر لیں۔ یہ تماشا اب ختم ہونا چاہیے۔
اب آتے ہیں ان نکات کی طرف؛ عمران خان وزیر اعظم بنتے ہیں یا نہیں؛ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا؛ عدلیہ پہ منحصر ہے کہ وہ عمران خان کو سر عام ووٹ کاسٹ کرنے کے جُرم میں سزا دیتی ہے، یا نہیں؛ سزا ہو گئی تو کہنا مشکل ہے کتنے برس کے لیے نا اہل ہوں گے۔ مان لیا کہ اس واقعے کو نظر انداز کر دیا جاے گا، جیسا کہ پی ٹی وی اور پارلیمان کی عمارتوں کے پر حملے کے الزامات کی تاریخ پہ تاریخ پڑتی جاتی ہے، تو سوال یہ ہوگا، کیا عمران خان وزیر اعظم بن کے ثاقب نثار کو حکومت کرنے دیں گے، یا پارلیمان کو عزت دو کا نعرہ بلند کریں گے؟
وہ جس پارلیمان پر لعنت بھیج کے قائد ایوان بننے کا خواب دیکھتے آے، کیا وہاں اتنی طاقت کے حامل ہوں گے کہ قوانین سازی کر سکیں؟ بالکل بھی نہیں! ایک تو یہ کہ ان کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں؛ نہ وہ زرادری جیسا تحمل کا مظاہرہ کر پائیں گے کہ اتحادیوں کو خوش رکھ سکیں۔ پھر اتحادی بھی کسے کریں گے؟ وہ آصف علی زرداری کو سب سا بڑا چور کہتے آے، جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی بات کرتے ہیں؛ سو پیپلز پارٹی کی متوقع پینتالیس پچاس نشستوں کو ساتھ ملانے سے رہے۔ بیس کے لگ بھگ آزاد ارکان میں سے کتنے ہیں جو ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، اور کن شرائط پر؟ مسلم لیگ نون کی متوقع پینسٹھ سے ستر نشستیں بھی عمران خان کا اتحادی ہونے سے رہیں، ما سواے پاکستان مسلم لیگ میں فارورڈ بلاک بن جاے، اور عمران سے آن ملے۔
مان لیا کہ قومی اسمبلی میں یہ سب ہو گیا؛ تحریک انصاف اور اتحادی مل ملا کے ایک سو ستر اسی نشستیں لیتے ہیں، تو سینیٹ کا کیا ہوگا؟ سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی کُل نشستیں محض 7 ہیں۔ سینیٹ میں مسلم لیگ نون 26 اور پاکستان پیپلز پارٹی 27 کا راج ہے۔ قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا بِل جب سینیٹ میں پیش ہوگا، تو پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی اس بِل کا کیا حشر کریں گی، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ تو پھر پرانے قوانین سے کیسے بنے گا نیا پاکستان؟
پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کا کیا ہوگا، کہ جن سے وعدہ کیا گیا ہے، چوروں کا خاتمہ کیا جاے گا؛ کرہشن جڑ سے اکھاڑ پھینکی جاے گی۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جاے گی؛ ملک کا قرض اتار دیا جاے گا؛ نوے روز میں ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی؛ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنا دیا جاے گا؛ گورنر ہاوس، وزیر اعظم ہاوس کو یونے ورسٹی میں تبدیل کر دیا جاے گا؛ اسٹیٹس کو کا خاتمہ ہوگا۔ یہ ڈھیروں خیالی پلاو ہیں، ایسے وعدوں کی حقیقت اب سامنے آے گی، جب حکومت سنبھالتے ہی سب سے پہلا دورہ سعودی عرب کا ہوگا، کہ سرکار مفت تیل کی ترسیل جای رکھیے گا، دو ارب ڈالر کی امداد تو ابھی دے کر لوٹائیے گا، باقی اخراجات کی ہم فہرست بھیجتے ہیں۔ آئی ایم ایف بھی اسی انتظار میں ہے کہ منتخب حکومت کب ہمارے پاس پہنچتی ہے، اور کیا شرائط پیش کرنا ہیں۔
گزشتہ حکومت، ہر گزشتہ حکومت کی طرح خزانہ خالی کر کے جاتی ہے، سو طے بات ہے کہ خزانے میں تو کچھ نہیں ہے۔ شروع میں تحریک انصاف کے حامیوں کو مبارک باد پیش کی تھی، آخر میں ان سے ہم دردی کا اظہار کرتا ہوں، کہ حکومت میں رہ کے اپوزیشن کو گالیاں دے کر حکومتیں نہیں چلائی جاتیں؛ سڑکیں بند کر کے حکومت کا گھیراو تو کیا جا سکتا ہے، منہ سے فائر کرنا، اور عملی اقدام کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جان لیجئے کہ اب ڈلیوری نہ ہوئی تو ہم آپ تو یہیں ہیں۔ والسلام!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔