ابھی ابھی میرے بچے نے میرے بائیں ہاتھ کی چھنگلیا کو اپنے دانتوں تلے داب کر اس زور سے کاٹا کہ میں چلائے بغیر نہ رہ سکا اور غصے میں آ کر اس کے دو تین طمانچے بھی جڑ دئیے ہیں ، بیچارہ اسی وقت سے ایک معصوم پلے کی طرح چلا رہا تھا، یہ بچے کم بخت دیکھنے سے کتنے نازک ہوتے ہیں ، لیکن ان کے ننھے ننھے ہاتھوں کی گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے، ان کے دانت یوں تو دودھ کے ہوتے ہیں ، لیکن کاٹنے میں گلہریوں کو بھی مات کرتے ہیں ، اس بچے کی معصوم شرارت سے معاً میرے دل میں بچپن کا ایک واقعہ ابھر آیا ہے، اب تک میں اسے بہت معمولی واقعہ سمجھتا تھا اور اپنی دانست میں اسے قطعاً بھلا چکا تھا، لیکن دیکھئے یہ لاشعور کا بھی کس قدر عجیب ہے، اس کے سہارے میں بھی کیسے کیسے عجائب مستور ہیں ، بظاہر اتنی سی بات ہے کہ بچپن میں نے ایک دفعہ اپنے گاوں کے ایک آدمی بھگت رام کے بائیں ہاتھ کا انگوٹھا چبا ڈالا تھا، اور اس نے مجھے طمانچے مارنے کے بجائے سیب اور آلوچے کھلائے تھے اور بظاہر میں اس واقعہ کو اب تک نہیں بھول چکا ہوں ، لیکن ذرا اس بھان متی کے بارے پٹارے کی بو العجبیاں ملاحظہ فرمائیے، یہ معمولی سا واقعہ اک خوابیدہ ناگن کی طرح ذہن کے پشتارے میں دبا ہے اور جونہی میرا بچہ میری چھنگلیا کو دانتوں تلے دباتا ہے اور میں اسے پیٹتا ہوں ، یہ پچیس تیس سال کا سویا ہوا ناگ بیدار ہو جاتا ہے، اور پھن پھیلا کر میرے ذہن کی چار دیواری میں لہرانے لگا، اب کوئی اسے کس طرح مار بھگائے، اب تو اسے دودھ پلانا ہو گا، خیر تو وہ واقعہ بھی سن لیجئے، جیسا کہ میں یہ پچیس تیس سال کا سویا ہوا ناگ بیدار ہو جاتا ہے، اور پھن پھیلا کر میرے ذہن کی چار دیواری میں لہرانے لگا، اب کوئی اسے کس طرح مار بھگائے، اب تو اسے دودھ پلانا ہو گا، خیر تو وہ واقعہ بھی سن لیجئے، جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں یہ میرے بچپن کا واقعہ ہے جب ہم لوگ رنگپور کے گاؤں میں رہتے تھے، رنگپور کا گاؤں تحصیل جوڑی کا صدرمقام ہے اس لئے اس کی حیثیت اب ایک چھوٹے موٹے قصبے کی ہے، لیکن جن دنوں ہم وہاں رہتے تھے، رنگپور کی آبادی بہت زیادہ نہ تھی، یہی کوئی ڈھائی تین سو گھر ہوں گے، جن میں بیشتر گھر برہمنوں اور کھتریوں کے تھے، دس بارہ گھر جلاہوں اور کمہاروں کے ہوں گے پانچ چہ بڑھئی اتنے ہی چمار اور دھوبی اور یہی سارے گاؤں میں لے دے کے آٹھ دس گھر مسلمانوں کے ہوں گے لیکن ان کی حالت نا گفتہ بہ تھی، اس لئے یہاں تو ان کا ذکر کرنا بھی بیکار سا معلوم ہوتا ہے۔ گاؤں کی برادری کے مکھیا لالہ کانشی رام تھے، یوں تو برہمنی سماج کے اصولوں کے مطابق برداری کا مکھیا کسی براہمن ہی کو ہونا چاہئیے تھا اور پھر برہمنوں کی آبادی بھی گاؤں میں سب سے زیادہ تھی اس پر برادری نے لالہ کانشی رام کو جو ذات کے کھتری تھے، اپنا مکھیا چنا تھا، پھر وہ سب سے زیادہ لکھے پڑہے تھے، یعنی شہر تک پڑہے تھے، جو خط ڈاکیہ نہیں پڑہ سکتا تھا، اسے بھی وہ اچھی طرح پڑہ لیتے تھے، تمسک ہنڈی، نالش، سمن، گواہی، نشان دہی کے علاوہ نئے شہر کی بڑی عدالت کی ہر کاروائی سے وہ بخوبی واقف تھے، اس لئے گاؤں کا ہر فرد اپنی ہر مصیبت میں چاہے وہ خود لالہ کانشی رام ہی کی پیدا کردہ ہو، لالہ کانشی رام ہی کا سہارا ڈھونڈتے تھے، اور لالہ جی نے آج تک اپنے کسی مقروض کی مدد کرنے سے انکار نہ کیا، اسی لئے وہ گاؤں کے مکھیا تھے، گاؤں کے مالک تھے اور رنگ پور سے باہر بھی دور دور تک جہاں تک دہان کے کھیت دکھائی دیتے تھے، لوگ ان کے گن گاتے تھے۔ ایسے شریف لالہ کا منجھلا بھائی لالہ بانشی رام، جو اپنے بڑے بھائی کے ہر نیک کام میں اس کا ہاتھ بٹاتا تھا، لیکن گاؤں کے لوگ اسے اتنا اچھا نہیں سمجھتے تھے، کیونکہ اس نے اپنے برہمن دہرم کو تیاگ دیا تھا، اور گورو نانک جی کے چائے ہوئے پنتھ میں شامل ہو گیا تھا، اس نے اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا گورودوارہ بھی تعمیر کرایا تھا اور ان کے شہر سے ایک نیک صورت، نیک طینت، نیک سیرت، گرنتھی کو بلا کر اسے گاؤن میں سکہ کے پرچار کیلئے مامور کر دیا تھا۔ ۔ ۔ لالہ کانشی رام کے سکہ بن جانے سے گاؤں میں جھٹکے اور جلال کا سوال پیدا ہو گیا تھا۔ مسلمانوں اور سکھوں کے لئیے تو گویا یہ اک مذہبی سوال تھا، لیکن بھیڑ بکریوں اور مرغے مرغیوں کیلئے تو زندگی اور موت کا سوال تھا، لیکن انسانوں کے نقار خانے میں جانوروں کی کون سنتا ہے۔ لالہ بانشی رام کے چھوٹے بھائی کا نام تھا بھگت رام، یہ وہی شخص ہے جس کا انگوٹھا میں نے بچپن میں چبا ڈالا تھا، کس طرح یہ تو میں بعد میں بتاؤں گا، ابھی تو اس کا کردار دیکھئے، یعنی کہ سخت لفنگا، آوارہ بدمعاش تھا یہ۔ ۔ ۔ ۔ شخص نام تھا بھگت رام لیکن دراصل یہ آدمی رام بھگت رام نہیں شیطان کا بھگت تھا، رنگ پور کے گاؤں میں آوارگی، بدمعاشی ہی نہیں ، ڈھٹائی اور بے حیائی کا نام اگر زندہ تھا محض بھگت رام کے وجود سے ورنہ رنگپور تو ایسی شریف روحوں کا گاؤں تھا کہ غالباً فرشتوں کو بھی وہاں آتے ہوئے ڈر معلوم ہوتا ہو گا، نیکی پاکیزگی اور عبادت کا ہلکا سا نور گویا ہر ذی نفس کے چہرے سے چھنتا نظر آتا تھا، کبھی کوئی لڑائی نہ ہوتی تھی، فرقہ وقت پر وصول ہو جاتا تھا، ورنہ زمین قرق ہو جاتی تھی اور لالہ کانشی رام پھر روپیہ دے کر اپنے مقروض کو کام پر لگا دیتے تھے، مسلمان بچارے اتنے کمزور تھے اور تعداد میں اس قدر کم تھے کہ ان میں لڑنے کی ہمت نہ تھی، سب بیٹھے مسجدوں کے مناروں اور ا سکے کنگروں کو خاموشی سے تکا کرتے کیونکہ گاؤں میں انہیں اذان دینے کی بھی ممانعت تھی، کیروں اور اچھوتوں کا سارا دھندا دو جنمے لوگوں سے وابستہ تھا اور وہ چوں تک نہ کر سکتے تھے، اس کے علاوہ انہیں یہ احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ زندگی اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہے بس جو ہے وہ ٹھیک ہے، یہی مسلمان سمجھتے تھے، یہی براہمن، یہی کھتری۔ ۔ ۔ ہی چمار اور سب مل کر بھگت رام کو گالیاں سناتے تھے کیونکہ اس کی کوئی کل سیدہی نہ تھی۔ بھگت رام لٹھ گنوار تھا، بات کرنے میں اکھڑا دیکھنے میں اکھڑ، کندۂ نا تراش، بڑے بڑے ہاتھ پاؤں بڑے بڑے دانت بتیسی ہر وقت کھلی لبوں سے رال ٹپکی ہوئی جب ہنستا تو بتیسی مسوڑہوں کی بھی پوری پوری نمائش ہوتی۔ گاؤں میں ہر شخص کا سر گھٹا ہوا تھا اور ہر ہندو کے سر پر چوٹی تھی، لیکن بھگت رام نے بلوچوں کی طرح لمبے لمبے بال بڑھا لئے تھے اور چوٹی غائب تھی بالوں میں بڑی کثرت سے جوئیں ہوتیں ، جنہیں وہ اکثر گھراٹ کے باہر بیٹھ کر چنا کرتا تھا، سرسوں کا تیل سر میں دو تین بار رچایا جاتا، گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے اور بیچ میں سے سیدہے مانگ نکال کر اور زلفیں سنوار کر ہ سر شام گاؤں کے چشموں کا طواف کیا کرتا، اپنی ان بری حرکتوں سے کپ بار پٹ چکا تھا لیکن اس کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا، بڑی موٹی کھال تھی اس کی اور پھر اس میرا خیال ہے کہ اس کے شعور میں ضمیر کی آگ کبھی روشن نہ ہوئی تھی، وہ شرارہ بیدار تھا، جو حیوان کو انسان بنا دیتا ہے، بھگت رام سو فیصد حیوان تھا اور اسی لئے گاؤں والے برہمن اور کھتری، امیر اور غریب ہندو اور مسلمان اور سنار اور چمار سب اس سے نفرت کرتے تھے۔ لیکن چونکہ لالہ کانشی رام کا چھوٹا بھائی تھا، اور بظاہر گاؤں کے سب سے بڑے گھر کا ایک معزز فرد، اس لئے اپنی ناپسندیدگی کے باوجود گاؤں کے لوگ اس کے وجود کو اور اس کے وجود کی بد حرکات کو برداشت کرتے تھے، اور آج کرتے چلے آئے تھے، لیکن جب رنگ پور میں آئے اس وقت بھگت رام کے بڑے بھائی نے پریشان ہو کر اسے اپنے گھر سے نکال دیا تھا، توی کا یاک گھراٹ اس کے سپرد کر دیا تھا، جہاں بھگت رام رہا کرتا تھا، اور وہ رات کو سوجاتا بھی وہیں تھا، کیونکہ گھراٹ تو دن رات چلتا تھا، نہ جانے کس وقت کسے آٹا پسانے کی ضرورت پیش ہو اور وہ چادر میں یا بھیڑ کی کھال میں کئی یا گندم کے دانے گھراٹ پر چلا آئے اور پھر اس کے علاوہ یہ بھی تو ہے کہ دن بھر میں جو گیہوں جمع ہوتا ہے یا اناج ابھی پسا نہیں جاتا وہ ہیں ، گھراٹ پر دھرا رہتا ہے اور اس کی نگہبانی کیلئے بھی تو ایک آدمی کا وہاں موجود ہونا ضروری ہے، یہی سوچ کر لالہ منشی رام کا گھراٹ گاؤں میں سے نامی گھراٹ تھا، یعنی تقریباً سارے گاؤں کا اناج وہیں پسوایا جاتا تھا، ایک اور گھراٹ بھی تھا، لیکن بالعموم مسلمانوں ، اچھوتوں اور کمیروں کیلئے اناج جہاں پسایا جاتا تھا، جب کبھی بڑا گھراٹ چلتے چلتے رک جاتی اور اس کی مہیب چکی کام کرنے سے انکار کر دیتی یا جب پاٹوں کی سطح پر پتھریلے دندانے بنانے کیلئے انہیں الٹا دیا جاتا۔ تو اس صورت میں دوسرے گھراٹ والوں کو چند روز کیلئے اچھی آمدنی ہو جاتی تھی، بصورت دیگر بڑے گھراٹ پر گاہکوں کی بھیڑ لگی رہتی، جب بڑا گھراٹ چلتا تھا، اس وقت کسی مسلمان، کسی کمیرے، کسی اچھوت، کی یہ جرات نہ تھی، جرات تو کیا کبھی ان کے ذہن میں یہ خیال بھی نہ آیا تھا، کہ ان کا اناج کبھی بڑے گھراٹ پر پس سکتا ہے، شروع شروع میں جب بھگت رام نے کام سنبھالا تو اس نے چند روز تک یہی وطیرہ اختیار کیا، لیکن بعد میں اسے مزاج کے لا ابالی پن نے بلکہ یوں کہئے کہ شیطانی پن نے زور مارا اور اس نے سوچا جی کیا ہے اس میں جو آئے، آٹا پسا کر لے جائے، ان پتھروں کے دو پاٹوں میں دہرا ہی کیا ہے، اور یہ آخر اناج ہی تو ہے، جسے کتا بھی کھاتا ہے اس سے گھراٹ کی آمدنی میں اضافہ بھی ہو گا، دسرے گھراٹ بالکل ہی بند ہو جائے نہ جانے اس نے کیا سوچا، بہر حال اس نے کوئی ایسی ہی بات سوچی ہو گی، جو اس نے گاؤں کے چماروں اور کمیروں کو بھی اپنے گھراٹ پر سے آٹا پسانے کی دعوت دی، پہلے تو لوگوں نے بڑی شد و مد سے انکار کیا، بھلا ایسا بھی ہو سکتا ہے کیا کہتے ہو لالہ ہم رعیت، ہیں تم راجہ ہو، یہ تمہارا گھراٹ ہے، ہمارا گھراٹ ہے، ہم بھلا یہاں آٹا پسانے کیوں آئیں گے نا بابا نہ یہ کام ہم سے نہ ہو گا، اور جو چاہے ہم سے کام لے لو یہ کام ہم سے نہ ہو گا، لیکن بھگت رام نے آخر اپنی چالاکیوں سے ان بیچاروں کو پھسلا ہی لیا اور انہیں اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ اناج اسی کے گھراٹ پر لایا کریں گے وہیں پسایا کریں گے۔ بھلا ایسی بات بھی برادری میں چھپی رہ سکتی ہے، برادری میں اک کہرام مچ گیا، چہ می گو ئیاں ہونے لگیں ، ہر روز بھگت رام سے لڑائی ہونے لگی، تگڑا آدمی تھا، اس لئے گالیاں سہہ گیا ہنس ہنس کر ٹالتا تھا، پھر اسے غصے میں آ کر دو چار کو پیٹ دیا، پھر ایک دن خود پٹ گیا، یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے لالہ کانشی رام کے پاس پہنچا، انہوں نے بھگت رام کو بلا کر ڈانٹا سمجھایا ٹھنڈے دل نرمی سے پچکار کر باتیں کیں ، اونچ نیچ سمجھائی لیکن جس دل میں کمینہ پن ہ وہ دہرم کرم کی بات کب سننے گا۔
درود و سلام
درود و سلام مدح نگار: سید عارف معین بلے یہ احکم الحاکمین کا حُکم ہے کہ ان پر درود بھیجو...