(Last Updated On: )
دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا لے یار مرے سلمہ اللہ تعالا کچھ میں نہیں اس دل کی پریشانی کا باعث برہم ہی مرے ہاتھ لگا تھا یہ رسالا معمور شرابوں سے کبابوں سے ہے سب دَیر مسجد میں ہے کیا شیخ پیالا نہ نوالا گزرے ہے لہو واں سرِ ہر خار سے اب تک جس دشت میں پھوٹا ہے مرے پاؤں کا چھالا جس گھر میں ترے جلوے سے ہو چاندنی کا فرش واں چادرِ مہتاب ہے مکڑی کا سا جالا دیکھے ہے مجھے دیدۂ پُر چشم سے وہ میرؔ میرے ہی نصیبوں میں تھا یہ زہر کا پیالا