(Last Updated On: )
سحَر کہ عید میں دورِ سبو تھا پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا غلط تھا آپ سے غافل گزرنا نہ سمجھے ہم کہ اس قالب میں تو تھا چمن کی وضع نے ہم کو کیا داغ کہ ہر غنچہ دلِ پُر آرزو تھا گُل و آئینہ کیا خورشید و مہ کیا جدھر دیکھا تِدھر تیرا ہی رُو تھا کرو گے یاد باتیں تو کہو گے کہ کوئی رفتۂ بسیار گو تھا جہاں پُر ہے فسانے سے ہمارے دماغِ عشق ہم کو بھی کبھو تھا مگر دیوانہ تھا گُل بھی کسو کا کہ پیراہن میں سو جاگہ رفو تھا نہ دیکھا میرؔ آوارہ کو لیکن غبار اک ناتواں سا کُو بہ کُو تھا