(Last Updated On: )
غمزے نے اُس کے چوری میں دل کی ہنر کیا اُس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں آخر انھیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا کیا جانوں بزمِ عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ میں صحبتِ شراب سے آگے سفر کیا جس دم کہ تیغِ عشق کھنچی بوالہوس کہاں سن لیجیو کہ ہم ہی نے سینہ سپر کیا دل زخمی ہو کے تجھ تئیں پہنچا تو کم نہیں اس نیم کشتہ نے بھی قیامت جگر کیا ہے کون آپ میں جو ملے تجھ سے مستِ یار ذوقِ خبر ہی نے تو ہمیں بے خبر کیا وہ دشتِ خوف ناک رہا ہے مرا وطن سن کر جسے خضر نے سفر سے حذر کیا چاروں طرف ہیں خیمے کھڑے گرد باد کے کیا جانیے جنوں نے ارادہ کدھر کیا لکنت تری زبان کی ہے سحر جس سے شوخ اک حرفِ نیم گفتہ نے دل پر اثر کیا بے شرم محض ہے وہ گنہ گار جس نے میرؔ ابرِ کرم کے سامنے دامان تر کیا