(Last Updated On: )
شکوہ نہ کر سکے ہیں نہ طاقت ہے آہ کی
اے دوست اب نہ پوچھ خبر رسم و راہ کی
باقی رہیں اُمیدیں نہ باقی رہا سلوک
اِک درد کی سی لہر ہے اُن سے نباہ کی
ہم سے کوئی نہ پوچھے رفاقت کا اضطراب
اِس راستے میں زندگی ہم نے تباہ کی
سب کچھ یہی رہے گا اگر وہ بھی چھوڑ دے
قاتل سے اب اُمید بھلا کس دواہ کی
اِک شُغل بن چکا ہے محبت کا سلسلہ
خوابوں میں اب تُو ڈھونڈ کہانی وفاہ کی
ہر واسطے کے پیچھے اب منطق ہے غرض کی
باقی رہی نہ راہ وہ بے غرض چاہ کی
تل جھل رہے نہ سبز کبھی تیرا عمر بھر
اِک رُو سیاہ نے ہم کو کچھ ایسی دعاہ کی
روح مضطرب ہے اور بدن ہو چکا نحیف
پر التجا نہیں ہے خدا سے شفاہ کی
اثر: راگ بھیرویں
سکیلE-major:
تال: کہروا (8ماترے)
٭٭٭