عرشِ اعلیٰ پہ ربّ سبز گنبد میں تم کیوں کہوں میرا کوئی سہارا نہیں
میں مدینے سے لیکن بہت دور ہوں یہ خلق میرے دل کو گوارا نہیں
مجھ کو کچھ غم نہیں اشک بہتے رہیں دل مرا سوزِ الفت میں جلتا رہے
آپ کے نام پر مر کے مٹ جائوں میں میرا ایمان ہے پھر بھی خسارا نہیں
آپ کا عشق ہے عشقِ رب العلیٰ آپ کا ذکر ہے خاص ذکرِ خدا
خود خدا کا یہ قرآں میں اعلان ہے جو تمہارا نہیں وہ ہمارا نہیں
ٹھوکروں کے سوا اور پائے گا کیا جس کی منزل کا کوئی نہ ہو رہنما
اپنی منزل پر ہرگز نہ پہنچے گا وہ ہاتھ میں جس کے دامن تمہارا نہیں
اسم احمد کی تعظیم کے منکرو اُن کی عظمت کو قرآن میں دیکھ لو
بے لقب اُن کا نامِ مبارک کہیں اُن کے معبود نے بھی پکارا نہیں
عقل جن و بشر کا یہاں ذکر کیا عقل روح الدمیں دنگ حیران ہے
عظمتِ مصطفی کی ملے حد کسے یہ وہ دریا ہے جس کا کنارا نہیں
وہی روضے پہ بلوائیں گے ایک دن اے سکندرؔ ذرا صبر سے کام لے
اُن کے در کا گدار اور مایوس ہو میرے سرکار کو یہ گوارا نہیں