وہ مٹھی میں بند پرزے کو بھینج کر یکدم وہاں سےبھاگ کھڑی ہوی تھی اور گھر آکر سیدھی اپنے کمرے میں آی تھی رات بہت ہو چکی تھی بابو جی سو چکے تھےالبتہ بواجی جاگ رہی تھی اسکےانتظار میں وہ یقنا”سونا چاہا رہی تھی تب ہی اسکے پیچھے نہیں آیں اور یہ بھی غنیمت تھا جب اسےیقین ہو گیا کہ بوا جی سو گی تب اسنے دھیرے سے دروازہ بند کیا دروازےکے ساتھ لگ کر بیٹھ گی اور چند گہرے سانس لیے دل جیسے مٹھی میں بند تھا اور وہیں نیچے بیٹھ گی بہت ڈرتے ڈرتے اسنے مٹھی کھولی اور اک خوشبودار سا کاغذ اسکی ہتھیلی پر جیسے دل بن کر ڈھرک رہا تھا کچھ کہنے والا بےقرار دل جزبوں سے معمور احساس سےمنور دل
اسنے دھیرے کاغذ کھول دیا جگمگاتی ہوی موتیوں سی اردو ہینڈ رایٹنگ اسکےربرو تھی
اک بات جو تم سے کہنی ہے
اک بات جو تم سے سننی ہے
وہ بات کوی عام بات نہیں
وہ لفظ بھی ہرگز عام نہیں
جزبے دل میں دبے ہیں مگر
لب سے کہنا آسان نہیں
وہ بات کوی عام بات نہیں
وہ لفظ کوی عام لفظ نہیں
بات اک عمرکی ہے جو تمہیں
اک پل میں ہمیں بتانی ہے
فقط ایک اسیر
دھک ; دھک ; دھک ; دھک اسنے آنکھیں بند کر کے سر دروازے سے ٹکا دیا
پوجا کے اندر اک طوفان موجزان تھا اک سمندر ٹھاٹھیں ماررہاتھا وہ اب دل کے اور قریب محسوس ہو رہاتھا بے حد قریب ڈھرکنوں میں ڈھرکتا ہوا
ہر دیوار ڈھاگی تھی مذہب کی فرقے کی قوم کی ملک کی سرحدکی محبت حدوں کی محتاج نہیںہوتی اور جو ہوتی وہ محبت نہیں ہوتی محبت بس اپنا آپ دیکھتی ہے
اور بلا تامل وہ اسکا اظہار کر گی تھی
بنا بابوجی کی پروا کیے
اسکےلب ہل رہے تھے سرگوشی کررہےتھے اس کاغذ پر جھکےلفظوں کو جیسےزندگی بخش رہےتھے
ہم ہار گے-تم جیت گے -ہاں اقرار ہے-ہمیں اقرار ہے-پیار ہے-ہمیں پیار ہے-
اور تب وہ نفی میں سر ہلانےلگی
¤¤¤¤****¤¤¤¤****¤¤¤¤
اسنےوقتی جزبات میں خود سے اقرار تو کر لیا تھا مگر تلخ حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں کے درمیان مذہب اور ملک اور معاشرے کی دیوارحایل تھی سو اسنے خود پر بند باندھ لیے تھے اگرچہ دشوارتھا اسنے طے کر لیا تھا کہ وہ اب اسکا سامنا نہیں کرے گی نہ ماہا کے گھر جاےگی
مگر اسی شام اسے یاد آیاکہ صبح ٹیسٹ ہےاور ماہا سے ضروی نوٹس درکار تھے تب وہ بواجی کو بتا کر جلدی سے نکل آی
اسکا ارادہ اندر جانے کا نہیں تھا مگر ماہا زبردستی اندر لے گی
بدتمیز کہاں غایب تھی ماہا بگڑ کر بولی بواجی کی طبیعت خراب تھی اسنے بہانہ گھڑا
کچھ فاصلےپر وہ ماہا کے بہن بھایوں کے ساتھ کیرم کھیل رہا تھا اگرچہ مصروف تھا مگر ساری توجہ اس پر تھی اور پوجا خاصی پریشان ہو رہی تھی مجھے آی-آرکے نوٹس دےدو وہ جلدی سے بولی
ماہا لوگوں سےکہہ دو آی-آر پرھنےیا رٹنے کچھ نہیںہوگا جب تک بندےکی پی آر اچھی نہ ہو وہ وہیں سےبنا اسکی جانب دیکھےباآوازبلند بولا تھا زبردست قہقہ پڑا تھا اور وہ شرمندہ ہو کر سرجھکا گی تھی اور وہ مزید کہہ رہا تھا
ان سےکہو پہلےپی آر اچھی بنایں پھر آی آر پڑھیں
اف یہ اعیان بھای آپ تو بلکل زچ کر دیتے ہیں بندےکو ماہا سےچھوٹی صبا نے اسکا مکمل دفاع کیا
یہ تم دفاعی مورچہ کس خوشی میں بنارہی ہو کیا محترمہ کےمنہ میں زبان نہیں؟اسکے ماتھے پر نمی کے کی قطرے آن ٹھرے سب مسکرارہے تھےموضوع گفتگو وہ تھی اور موضوع گفتگو بنانےوالا دل کا حکمران تھا مگر اس پل کیسا پرایا لگ رہا تھا
بس اعیان اب آپ کچھ نہیں بولیےگا پوجا بہت بھولی ہے خبردار اب آپ اسے مزید کچھ کہا آخر کار ماہا نے بھی اسکا دفاع کیاوہ اسکا جھکا سر دیکھ کرمسکرادیا
اور اک نگاہ اس پرڈال کر دوبارہ کھیل میں مصروف ہوگیا اسکا دل کیا بھاگ جاے مگر جانےکیوں وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی اور ماہا اٹھ کھڑی یہ کہہ کر کہ وہ نوٹس لاکر دیتی ہے وہ اپنے قدموںپر نگاہ جماےبیٹھی رہی جب تک ماہا نہ آگی-
سوری ذرادیرہوگی دراصل مل ہی نہیں رہے تھےشادی والےگھرمیں تو بندہ اک جگہ رکھ دو تو وہ بھی گم ہو جاےگایہ تو پھر نوٹس ہیں
ماہا پتا کر لو کہیں کوی بندہ بھی کھونہ گیاہوکہیں اعیان کے ساتھ بیٹھا فرحان جو کہ اسکی تمام حرکتوں کو برابر نوٹ کررہاتھا مسکراکربولاتو وہ بڑے جاندارطریقے سےہنس پڑا
ماہا نےانہیں اک تیز نظرسےدیکھاپھر اسے لے کر کمرے میں چلی گی-
مجھےذرا یہ سمجھا دو وہ اندر کی تمام کفیات پر قابو پاکر بولی تھی اور ماہا اسےلیکچر سمجھانے لگی اسکا ذہن اگرچہ حاضر نہ تھا پھر بھی پوری توجہ سےسمجھنے لگی اسی چکر میںشام گہری ہوگی اس نےجب کھڑکی کے باہر دیکھا تو فورا”کھڑی ہو گی بابوجی آگےہو گےوہ ڈپٹہ سر پر جما کر کھڑی ہوگی ہال کے کمرے میں وہ لوگ اب تک محفل جماے بیٹھے تھے
نہ پیار کیے نہ اقرار کیے
نہ روٹھے نہ تکرار کیے
نہ بولے نہ اقرار کیے
یہ ملنا بھی کیا ملنا ہے
کہ آے اور چل دیے
سب مل کر گا رہے تھے بہت آوازیں تعاقب میں تھی مگر اک آواز بہت بلند تھی ان میں سے مگر اسنے قدموں کو روکا نہیں تھا تیزی کےساتھ دہلیز پار آی تھی
¤¤¤¤****¤¤¤¤****¤¤¤¤
یہ کیا چکر ہےیار؟فرحان اسکےسامنے بیٹھا پوچھ رہاتھا
کون سا؟
وہی جو میں بہت دنوں سے دیکھ رہا ہوں اب مکرمت جانا کہ نظریں ہم بھی رکھتے ہیں وہ ہاتھ اٹھاکر باور کرانے والے انداز میں بولا تواعیان عمر شیخ مسکرادیا۔۔
سب کچوجانتے ہو پھر کیوںپوچھ رہے ہو؟
پوچھ اسلیے رہا ہوں کہ آپکے والدین نےماہا بیگم کےلیےآپکویہاں بھیجا ہے اور آپ مذہب تک کو پھلانگتے نظر آرہے ہیں۔۔یہ ماہا بیگم کس خانےمیں فٹ ہوںگی؟
فکر کیوں کر رہےہو یار -میرے دل کےابھی تین خانے مزیدخالی پڑے ہیں اسکاانداز شریر تھا
فرحان اسے مصنوعی خفگی سے گھوررہاتھا
کیا ماہا تمہیں پسند نہیںآی؟
میں نے ایسا کب کہا
تمہیں اس لڑکی سےمحبت ہے؟
ایسا بھی نہیں کہا میںنے
پھر؟
ابھی کوی فیصلہ نہیں کیا
ویسےیار اتنی جلدی کیا ہے سوچیں گےسمجھے گے آرام سے کسی نتیجے پر پہنچیں گے
مجھے تمہاری منطق کی سمجھ نہیں آرہی۔
آخر انکل آنٹی کو کیا جواب دو گے تم؟
”اٹ ازمای ہیڈک۔۔۔اونلی مای ہیڈک۔۔۔اوکے۔۔۔
اوکے مگرشادی ختم ہوے اک ہفتہ بھر ہونے کو ہے واپس کب چلنا ہےمجھے اپنے وطن کی یاد شدت سےآرہی ہے-
وطن کی یاد نہیں اس کالی بلی کی یاد کہو۔۔۔وہ یکدم ہنس پڑا۔
خبردار جواسے کالی بلی کہو تہماری ہونے والی بھابھی ہے وہ اور فرح نام ہے اس کا-فرحان نےاسےکشن مارتے سبیہ کی وہ شیشے کےسامنے کھڑا ہوکراپنا جایزہ لےرہاتھا_فرحان نے اپنے اونچے لمبے پروجیہہ پرسنالٹی کےحامل کزن اور دوست کو دیکھااورمسکرادیا۔۔
ویسے لڑکی اچھی ہے کیانام ہے اس کا؟
کس کا؟وہ یکسرانجان بن گیا
اس سانولی شام کا فرحان نےشرارت_
خبردار اسکا نام پوجا ہے۔۔ سانولی شام-ویسے یہ نام بھی برا نہیں لیکن اسےتمام خطابات والقابات سےنوازنےکا حق فقط مجھے ہے۔۔
تمہاری میراث کب سے بن گی وہ؟وہ شوخی سے مسکرایا
جب سے نظروں کے راستے دل میں گھسی ہے اعیان نےبھی برجستہ جواب دیاتھا
ویسے کیاتم اس معصوم لڑکی کےساتھ اس طرح فقط ٹایم پاس کرکےغلطی نہیں کررہے فرحان کو اس بھولی سی صورت والی لڑکی پر اچانک ہی ترس سا آگیا تھا۔۔۔
تمہیں کس نے کہہ دیا ک میں اسکے ساتھ ٹایم پاس کررہاہوں؟ وہ خود پر پرفیوم اسپرے کرنے لگا۔۔
گویا سریس ہو-اس معاملے میں
میں نے ایسا بھی نہیں کہا وہ بولا تو فرحان نے اسےکشن کھینچ مارا اور تب وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگا
****۔۔۔۔۔۔****
ابھی وہ کلاس لے کر باہر نکلی تھی اور آکر اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھی تھی کہ اچانک دو بھاری قدم اس کے قریب آن رکے اس نے سراٹھا کر دیکھااور نگاہ ساکت رہ گی وہ ایک اٹل حقیقت کی مانند اس کے روبرو تھا–
آپ؟لیکن ماہا تو آج نہیں آی–
ماہا سےملنے کےلیے مجھےیہاںآنے کی کیا ضروت تھی اسے تو میں گھر پر بھی سیکڑوں بار بلاتامل مل سکتاہوں اسکا جواب اتنا مفصل تھا کہ پوجاکےلب جامدہوگے-وہ اور کچھ نہ بول سکی وہ اسکےقریب گھاس پر بیٹھ گیا-پوجا کی جان جیسےفنا ہونےلگی تھی اردگرد کے ماحول پر اک نگاہ ڈالی-اسے لگاجیسے ہر کوی اسکی طرف متوجہ ہو–
اعیان عمر شیخ شاید اسکی کیفت بھانپ گیا تھا تبھی مظبوط لہجے میں بولا
دنیا کی پروامت کرو کیونکہ دنیا ہماری کبھی پروا نہیں کرتی-
لیکن پروا کرنی پڑتی ہے وہ ٹھوس لہجے میں بولی تو وہ اسے دیکھ کر مسکردیا–
خوشی ہوی جان کر کہ آپ بھی منہ میں زبان رکھتی ہیں اور تب جانے کیوںوہ سختی سےہونٹ بھینچ کر سرجھکاگی
پوجا-اس نےپکارا-
ہوں اس نےسر اٹھاےبغیر جواب دیا-
میں نے تمہیں اپنے دل کی بات بتا دی کیا تم مجھے اپنے دل کی بات نہیں بتاوگی اپنی مرضی سے آگاہ نہیں کروگی؟
اف دل میں لاکھ طوفان سہی لکین کہنا یار کس میں ہے-
میری۔۔۔۔ کلاس۔۔۔۔ہے وہ یکدم اٹھنے لگی–
میں جانتا ہوں تمہاری کلاس ابھی ختم ہوی ہےاور دوسری کلاس شروع ہونےمیں ابھی بہت وقت ہے وہ مظبوط انداز میں بولا اور وہ اسے دیکھ کرسرجھکا گی–
کیا جاننا چاہتے ہیں آپ مجھ سے؟ اپنا مدعابیان کر تو چکاہوں کیا تم پھر سےمیری زبان سےسننےکی آرزومند ہو؟وہ اسکی آنکھوںمیں دیکھتا ہوا بولا تو وہ سٹپٹاکررہ گی—
میرے۔۔۔۔۔۔پاس کوی جواب نہیں
کیوں؟
پتا نہیں۔۔اسکا انداز معصوم اور بھولا تھا شکست آمیز ہتھیارڈالنے والا تب جانے کیوں اعیان کو اس پر ترس آگیا اور نظریں اسکے چہرے پر سے ہٹا لیں پھر دھیرے سےدوستانہ انداز میں اسکا ہاتھ تھام لیا–
مجھ پر یقین کرتی ہو؟پوجا کو جیسےکرنٹ چھوگیا-ہاتھ اسکی گرفت سے نکلاناچاہا مگروہ اسکیجانب قطعی متوجہ نہ تھا ہاتھ پر بنا مہندی کے ڈایزاین کوبغور دیکھ رہاتھا-
آپ کو میںٹھیک سےجانتی تک نہیں اور آپ یقین اعتبار کی بات کررہے ہیں-وہ اتنےپراعتمعاد لہجے میں بولی ک وہ یکدم اسے دیکھنے لگا-
یعنی-اگرتم مجھے جاننےلگوگی تو مجھ پریقین کرلوگی؟وہ مسکراکربولا-مگروہ ایک کتاب کھول کر یونہی ورق گردانی کرنے لگی
پوجا میری طرف دیکھ کر جواب دو مجھے
میں آپ سےبات نہیں کرسکتی-
کیوں ڈرتی ہو مجھ سے؟وہ شرارت سے مسکرایا
نہیں–
پھر؟
آپ کیوں میرے پیچھے پڑگے ہیں؟وہ زچ ہوکر بولی اعیان خاموش ہوگیا اور اسکی نوٹ بک اٹھا کر یونہی صفحےالٹنے لگا اچانک اک جگہ اسکی نگاہیں منجمدہوگیں–ورق پر جگہ جگہ اسکانام لکھا اور مٹایاگیاتھا
لکھ ک کاغذ پہ میرانام مٹاتے کیوں ہو
ہم سے اقرار کرو پیار چھپاتے کیوں ہو
پوجا نےسراٹھا کر دیکھااسکی کھلی ہوی نوٹ بک اسکی آنکھوں کے سامنے ثبوت کے طورپر پیش کردی-
یہ لفظ تمہارےاقرارکاثبوت ہیں گواہ ہیں میری محبت کے اسکے چہرے پر مسکراہٹ تھی
پوجا کی وہ کفیت تھی کاٹو تو بدن میں لہو نہیں اسنے بمشکل خود پر کنڑول کرتےہوے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر انکو تر کیا مگرجواب نہ تھا کوی گویا اسکے اپنے فراہم کیے گے ثبوت نے اسے لاجواب کر دیاتھا وہ اس سےنظر چراکر گھاس کو دیکھنے لگی تبھی وہ بک اک طرف رکھ کر دھیمےانداز میں بولا تھا
بھولی لڑکی اگر میں کہو کہ یہ حقیقت میں پہلے سےجان چکا تھا تو؟
کیسے؟بلاارادہ بول گی پھر احساس ہوا تو فورا”ہونٹ دبا کر سر جھکا گی تبھی وہ مسکراتاہوابولا
تمہاری ان آنکھوں سے میں چہرہ شناس نہیں مگر تمہاراچہرہ اک دلچسپ اور دلکش کتاب ہے کہ بے ساختہ پڑھنے کو دل چاہتا ہے وہ معصومت بولا تودھیرے سےنظر اٹھا کر دیکھنے لگی
تم خوفزدہ کیوں ہو؟ وہ اسکی کیفیت بھانپ کر بولا تھا-
مجھے ڈر لگتا ہےاس نے شکست خوردہ لہجے میں کہا
کیوں؟
پتا نہیں
مگر کس سے ڈرتی ہو؟ بابوجی سے خود سے دنیا سے
محبت کرنا گناہ تو نہیں پھر؟
یہ سب کتابی باتیں ہیں حقیقت بہت تلخ اور کڑوی ہے اسنےحقیقت پسندی کا ثبوت دیا تھا وہ متاثرکن انداز میں اسے دیکھنے لگا پھر بولا حقیقت کو گولی مارو -دل کی بات مانو-
دل تو پاگل ہے دل دیوانہ ہےمیں دماغ سےفیصلے کرنے کی عادی ہوں–خوب اسنے اسکی حاضر جوابی کو سراہا لیکن دماغ کےفیصلےبڑےحاکمانہ ہوتےہیں
گویاتم دماغ کےفیصلےکوترجیع دوگی وہ اسکی آنکھوںمیںدیکھتاہواپوچھنےلگا وہ خاموش رہی اورتب وہ دھیرےسےمسکرایا آہستہ سےشہادت کی انگلی سےاسکاچہرہ اٹھایا۔
روہتاس کے سرکٹے بزرگ حضرت سخی خواص شاہ آف خواص پور
برِّ صغیر، جی ہاں ہمارے والے برِّصغیر میں سن سینتالیس میں کھنچی سرحد کے اِس پار یعنی ہماری طرف کچھ...