(Last Updated On: دسمبر 23, 2022)
ہوئی یہ آتش نمرود تختہ باغ جنت کا
ہوا الہام ابراہیم کو بابل سے ہجرت کا
کہ یہ بھی خدمت تبلیغ کا اک پاک حیلہ ہے
سفر کہتے ہیں جس کو کامرانی کا وسیلہ ہے
مشیت تھی کہ ابراہیم سے کچھ کام لینا تھا
انہی ہاتھوں سے بھر کر معرفت کے جام دینا تھا
وطن کو چھوڑ کر نکلا خدائے پاک کا پیارا
برادر زادہ تھا ہمراہ یا تھیں حضرتِ ساراؓ
اندھیری شب کے دامن سے مہ تاباں نکل آیا
بحکم حق تعالٰی جانب کنعاں نکل آیا
یہاں وعدہ کیا حق نے کہ ہاں اے بندہ ذیشاں
تری اولاد کی قسمت میں ہے یہ خطہ کنعاں
مقدر ہو گئی اولاد میں دارین کی شاہی
تو پیغمبر دیار مصر کی جانب ہوا راہی
یہ ایسا دور تھا انسان سب کافر ہی کافر تھے
زمیں آباد تھی اللہ کے بندے مسافر تھے