(Last Updated On: )
جیتے جی کوچۂ دل دار سے جایا نہ گیا اُس کی دیوار کا سر سے مرے سایا نہ گیا کاو کاوِ مژہِ یار وہ دل زار و نزار گُتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا ہم سے ہی حالِ تباہ اپنا دکھایا نہ گیا خاک تک کوچۂ دل دار کی چھانی ہم نے جستجو کی پہ دلِ گم شدہ پایا نہ گیا زیرِ شمشیرِ ستم میرؔ تڑپنا کیسا سر بھی تسلیمِ محبت میں ہلایا نہ گیا جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزوں کیجے دردِ دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا