“اسلام و علیکم بی جان کیسی ہیں آپ”
شاہ زیب نے رضیہ بیگم کے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا
“ارے وعلیکم سلام میرا بچہ ”
پیار سے بولیں
“آپ تو آتیں نہیں میں نے سوچا میں ہی دیدار کر آتا ہوں آپ کا”
بولتا ہوا دهپ سے انکے برابر بیٹها
“بس بیٹا پیروں میں جان ہی نہیں اب زیادہ چلنا پهرنا هوتا نہیں تم بتاؤ سارہ کیسی ہے باقی سب بچے کیسے ہیں”
“مما بهی ٹهیک ہیں اور باقی سب بهی مزے میں ہیں”
“اللہ ٹهیک رکهے سب کو آمین”
دل سے دعا دیتے ہوۓ بولیں
“ویسے بی جان باقی سب کہاں ہیں ممانی جان وغیرہ نظر نہیں آ رہی کدهر هیں”
شاہ زیب بولا
“بہو اور سماهر ذرا صدیقی صاحب کے ہاں میلاد پہ گئے ہوۓ ہیں اور ایمان کچن میں ہوگی”
“اچها اب تو میں کهانا کها کر ہی جانے والا ہوں”
“سو بسم اللہ میرا بچہ ضرور کهانا کها کر جانا جا کر کچن میں بول دے ایمان کو جو کهانا هو بنا دے دی”
رضیہ بیگم بولیں اور پهر سے تسبح کے دانے گرانے میں مصروف ہو گئیں
جبکہ شاہ زیب اٹھ کر کچن کی جانب چل دیا
۔
۔
“هیلو ڈئیر”
ایمان جو پوری طرح برتن دهونے میں مگن تهی بری طرح چونکی
“اففف خدایا!! کسی دن هارٹ اٹیک آ جاۓ گامجهے آپکی ان حرکتوں کی وجہ سے”
سانس برابر کرتی ہوئی بولی
“ایسے کیسے هارٹ اٹیک آۓ گا تم فضول بکواس مت کیا کرو”
اسے برا لگا تها
“اچها اور آپ جو هر وقت مجهے ڈراتے رہتے ہیں وہ۔ ۔ ۔ ۔ بندہ آنے سے پہلے بتا دیتا ہے”
برتن دهوتے ہوۓ بولی
“اچها تو آئندہ پہلے تمهیں انفارم کروگا کہ میں تم سے مخاطب ہونے لگا ہوں اوکے”
دونوں بازو سینے کے گرد لپیٹے وہ اسے دیکهکر بولا
“گڈ آئیڈیا ویسے آپ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہیں آپکو تو آفس ہونا چاہیے”
گهڑی کی طرف دیکهتے ہوۓ بولی جو ایک بجا رہی تهی
“یار آفس میں آج کوئی خاص کام نہیں تها تو سوچا ذرا درشن ہی کر آؤں”
اسے دیکهتے هوۓ بولا
پنک سمپل سے ڈریس میں لاپرواهی سے دوپٹہ لئے وہ اسکے دل کی دهڑکن بڑها رہی تهی
“آپ کے ڈرامے کرنے کی عادت کب جاۓ گی”
“جب تم میرے ڈراموں میں هیروئن آؤ گی”
دوبدو جواب دیا اور وہ بس اسے گهور کر رہ گئی
“اچها سنو بی جان نے بولا هے کہ آج میری پسند کا کهانا بنے گا تو تم ذرا غور سے مینو سنو۔۔
چکن بریانی۔ مٹن کڑاهی آلو کے کباب اور ساتھ سلاد چٹنی سمجهی”
مزے سے اسے مینو گنوایا
“مسٹر شاہ زیب صاحب یہ هوٹل نہیں گهر هے”
“هاں تو مجهے بهی نظر آ رها هے ڈئیر””تو اگر آپ کو یہ سب کهانے کا شوق آ رها هے تو پلیز آپ هوٹل چلے جائیں”
بنا کوئی لحاظ رکهے وہ بولی
“توبہ ایمان کتنی بے مروت هو گهر آۓ مہمان کو کیسے منع کر رہی ہو”
منہ بنا کر بولا
“میں چکن بریانی بنانے لگی هوں آپ کو کهانی هوئی تو رک جائیں ورنہ جا کر پهپهو سے فرمائش کریں”
چکن فرائی کرنے لگی
“فرمائش تو کر دی هے میں نے مما سے”
مغی خیز انداز میں بولا اور ایمان چونکی
“کیا مطلب”
“مطلب کہ بہت جلدی تمهارے نام کے آگے میرا نام جڑنے والا هے”
ٹماٹر اچهالتے هوۓ بولا
“مجهے آپکا نام جوڑنے سے کوئی مطلب نہیں ہے اوکے”
سنجیدگی سے بولی
“مطلب تو سارے مجهی سے ہیں”
اسکے چہرے پہ قوس قزح کے رنگ بکهرتے دیکهکر بولا
“نکلیں آپ یہاں سے چلیں اگر دوبارہ آپ آۓ نا تو بریانی کی جگہ کدو ملیں گے آپکو”
دهکیلتے هوۓ کچن سے باهر نکالا
“چیپکو”
اور مسکرادی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“شاہ زڑ بیٹا سماهر اور ایمان کو ذرا انکی فرینڈز کے گهر تک ڈراپ کرآؤں”
فیضان صاحب نے شاہ زر کو کہا جو اس وقت لان میں بیٹها سب کے ساتھ چاۓ پینے میں مصروف تها
“کہاں ماموں جان”
“انکی کسی دوست کی برتھ ڈے ہے تو ذرا وہاں چهوڑ آؤ دونوں کو”
فیضان صاحب بولے اور شاہ زر نے سرهلا دیا
۔
“تم دونوں نے جانا هے بهی یا نہیں”
نجمہ بیگم نے کمرے میں آ کر سماهر اور ایمان کو دیکهکر کہا
“جانا هے مما”
سماهر کمرہ سمیٹتے هوۓ بولی
“چلو پهر باهر شاہ زر انتظار کر رها هے چلو شاباش”
“مما آپ چلیں هم آتے هیں بس دو منٹ”
ایمان دوپٹہ سیٹ کرتی بولی اور نجمہ بیگم دونوں کو جلدی آنے کا کہہ کر باهر نکل گئیں
۔
“بی جان ہم جا رہے ہیں”
کہیں بهی جانے سے پہلے سماهر رضیہ بیگم سے دعائیں لینا کبهی نہ بهولتی
“خیر سے جاؤ میرا بچہ”
نجانے کیا کیا پڑھ کر پهونکا اور وہ مسکراتی هوئی باهر کی طرف هولی جہاں شاہ زر ایمان کیساتھ اسکا منتظر تها
“کیسی لگ رهی هوں شاہ زر بهائی”
اسکے سامنے کهڑی ہوکر پوچها
“میری چهوٹی سی گڑیا ہمیشہ سے هی بہت پیاری لگتی هے”
اسکے سر پہ پیار سے ہاتھ پهیر کر بولا
“اور میں بهائی”
ایمان کہاں پیچهے رهنے والی تهی۔
“تم بهی بہت کیوٹ لگ رهی هو اب چلو جلدی سے بیٹهو کار میں”
اسکا ناک کهنچ کر بولا
شاہ زر نو سال کا تها جب سماهر نے دنیا میں آنکھ کهولی تهی پہلی هی نظر میں اسے یہ معصوم اور پیاری گڑیا جیسی بچی بے حد پسند آئی تهی اکثر اسکول کے بعد وہ کهیلنے کی غرض سے یہاں چلا آتا اور گهنٹوں سماهرسے کهیلتا رهتا اسے یہ گڑیا جیسی بہن بہت پسند تهی ایشال اور منال کے بعد بهی سماهر سے اسکا پیار کسی طور کم نہ هوا تها دوسری طرف سماهر بهی شاہ زر پر جان چهڑکتی تهی سگے بهائیوں سے زیادہ اسے چاهتی تهی
۔
۔
۔
“بی جان بهابی آج میں یہاں ایک خاص مقصد سے آئی ہوں”
سارہ بیگم نے اپنی ماں اور بهابی کو مخاطب کرکے کہا
تینوں اس وقت بی جان کے روم میں بیٹهے تهے
“خیریت هے سارہ”
بی جان بولیں
“ہاں ہاں بالکل خیریت ہے بی جان آپ پریشان نہ ہوں”
انہیں ٹنشن میں دیکهکر جلدی سے بولیں
“پهر کیا بات هے میں سمجهی نہیں”
نجمہ بیگم بهی ناسمجهی سے بولیں
“بهابی میں آج یہاں آپ سے ایمان کو مانگنے آئی
ہوں اپنے شاہ زیب کے لئے منع مت کرائیۓ گا”
انکی هاتهه پہ اپنا ہاتھ رکهتے ہوۓ مان سے بولیں
“مجهے بهلا کیا اعتراض ہوسکتا هے مگر آپ جانتی هیں نا سماهر بڑی هے اور میں پہلے اسکے لئے۔۔۔۔”
دانستہ بات ادهوری چهوڑی
“میں سمجهتی ہوں بهابی آپ فکر مت کریں شادی تو ایمان کی سماهر کے بعد هی هوگی مگر ابهی میں صرف آپکی رضامندی چاهتی هوں”
“مجهے کوئی اعتراض نہیں هے۔۔۔ بی جان آپ کیا کہتی هیں”
نجمہ بیگم نے بی جان کو مخاطب کرتے ہوۓ پوچها جو کسی گہری سوچ میںڈوبی ہوئیں تهیں
“هاں شاہ زیب اچها بچہ هے مگر سارہ فیضان سے بات کرنا بهی ضروری ہے آخر کو اسکی بیٹی کا معاملہ ہے”
بی جان بولیں
“ہاں ہاں بهابی آپ اطمینان سے بهائی جان سے مشورہ کریں ایمان کی مرضی معلوم کریں مجهے کوئی جلدی نہیں هے”
سارہ نے کہا اور نجمہ بیگم نے مسکرا کر سر ہلا دیا
جبکہ دوسری طرف بی جان گہری سوچ میں گم تهی اور اپنی اس سوچ کو وہ نجمہ اور فیضان سے ڈسکس کرنے کا فیصلہ کر چکی تهیں
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
نظم کی اقسام
♧ نظم کی اقسام پابند نظم، آزاد نظم، نظم معّریٰ، اور نثری نظم۔ ~ پابند نظم : پابند نظم میں...