وہ علی کو لے کر گاٶں واپس آۓ تاکہ اپنے باپ سے معافی مانگ سکیں لیکن انکے والد نے نہ صرف ان سے ملنے سے انکار کردیا بلکہ دس لوگوں کے سامنے یہ وصیت بھی کردی کہ عابد کو انکے جنازے میں شرکت کی بھی اجازت نہیں۔ چارو ناچار وہ واپس آگۓ۔ اسلامآباد والا گھر تو ڈاکٹر شاہینہ کے نام کرچکے تھے اس لۓ وہ کراچی آگۓ لیکن اس تمام واقعہ کا انکے دماغ پر گہرا اثر پڑا، وہ ذہنی مریض بنتے چلے گۓ۔ انہیں لگنے لگا کہ وہ جس سے بھی محبت کریں گے وہ ایک نہ ایک دن انہیں چھوڑ جاۓ گا، جیسے انکے ماں باپ اور انکی سابقہ بیوی۔ اس لۓ انہوں نے علی سے نفرت کرنا شروع کردی۔ وہ چھوٹا سا بچہ انکے پاس آتا تو اسکی آنکھیں دیکھ کر ڈاکٹر عابد کو اپنی بےوفا بیوی یاد آجاتی۔ وہ اسے جھڑک کر، دھتکار کر واپس بھیج دیتے۔ وہ رونے لگتا تو اسے مزید ڈانٹ دیتے۔ ایک مرتبہ ملازم چھٹی پر تھا عابد صاحب اسپتال میں علی صبح سے بھوکا تھا۔ اس وقت وہ صرف سات سال کا تھا۔ جب ڈاکٹر عابد گھر آۓ تو وہ انکے سامنے جاکر رونے لگا۔ وہ پہلے ہی کسی بات پر غصے میں تھے انہوں نے اسے تھپڑ جڑ دیا۔ اور پھر یہ سلسہ چل نکلا۔
وہ بات بات پر علی کو مارتے اسے سزا دیتے۔ وہ خود تو علی کو پڑھاتے نہ تھے لیکن اگر زرا بھی کسی ٹیسٹ میں اسکے نمبر کم ہوجاتے تو اسے سخت سے سخت سزا دیتے۔ کبھی اسکا کھانا بند کردیتے تو کبھی تپتی دھوپ میں اسے گھر سے باہر کھڑا کردیتے۔ علی کے دل میں انکا خوف بیٹھ گیا۔ جب اس نے میٹرک کر لیا تو عابد محمد نے اسے انٹر میں میڈیکل لینے کہا تو پہلی بار اس نے ان سے اختلاف کیا
”پر بابا میں آگے بزنس پڑھنا چاہتا ہون“ اور یہ اختلاف اسے بہت مہنگا پڑا اس دن عابد صاحب نے سخت طیش کے عالم میں اسے بیلٹ سے مارا تھا
”مجھ سے بحث کرو گے؟ میرے خلاف جاٶگے؟“ وہ غصے سے بولتے جارہے تھے، اس دن علی نے فیصلہ کیا کے اسے آگے میڈیکل ہی لینی ہے۔
اس نے انٹر میں میڈیکل لی لیکن وہ دل سے پڑھ نہ پایا اور بہت برے نمبروں سے پاس ہوا۔ نتیجاتاً اسے میڈیکل میں ایڈمیشن نھیں ملا اور اسے بزنس لینی پڑی۔ عابد صاحب کو لگا کہ اس نے یہ سب جان بوجھ کر کیا ہے لہزٰا انہوں نے اس سے بات چیت بند کردی- علی انہیں بتانا چاہتا تھا کہ اس نے ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا لیکن انکے چہرے کی سختی دیکھ کر وہ خاموش ہوجاتا۔
علی کی سزا کے طور پہ انہوں نے اسکا جیب خرچ بند کردیا حتٰی کے اسکی سمسٹر فیس بھی نہ بھری۔ وہ ان سے فیس کے پیسے مانگنے آیا تو انہوں نے یہ کہہ کر پیسے دینے سے انکار کردیا کہ
”تم نے اپنی مرضی کرنی تھی سو کرلی اب میرے پاس کیا لینے آۓ ہو؟ تم خود ہی اپنی سمسٹر فی بھرو چاہے چوری کرو یا بھیک مانگو۔ یہ میرا مسلہ نہیں“ انکی اس بے حسی پر علی کا دل خون کے آنسو رویا۔ مجبوراً اس نے اپنی باٸیک بیچ دی۔ یہ بات جب عابد صاحب کو پتہ چلی تو گھر میں ایک طوفان کھڑا کردیا
”تم نے میری اجازت کے بغیر گھر کا سامان بیچا؟ اب تم چوری کرو گے؟“ اس الزام پر علی تڑپ اٹھا۔ آخر کب تک؟ جانور بھی اپنے اوپر کۓ جانے ہولے ظلم پر احتجاج تو کرتا ہے، وہ تو پھر انسان تھا
”بس کرے بابا۔۔۔۔۔آج آپ مجھے بتا ہی دیں کہ میرا قصور کیا ہے؟ کیوں ماما کے گناہ کی سزا آپ مجھے دیتے ہیں؟“ اسکی بات سن کر تو وہ مزید غضبناک ہوگۓ
”مجھ سے جواب طلب کرتے ہو؟ نکل جاٶ اس گھر سے“
”مجھے بھی آپ کے اس محل میں رہنے کا کوٸ شوق نہیں جہاں انسان کو انسان نہ سمجھا جاتا ہو۔ “ وہ کہتے ساتھ ہے گھر سے نکل گیا۔ پیچھے عابد صاحب غصے سے پاگل ہو رہے تھے۔ ان کے بیٹے نے بھی انکے ساتھ بےوفاٸ کی، وہ بھی ان کو چھوڑ گیا۔ وہ کبھی پیر پٹختے تو کبھی اپنے بال نوچنے لگتے
”کافی دیر بعد جب انکا غصہ اترا تو انھیں وقت کا احساس ہوا۔ رات کے دو بج رہے تھے اور علی اب تک واپس نہ آیا تھا۔ اب انکے اندر کا باپ بے چین ہوا۔ انہوں نے علی کو کال کی مگر اسکا نمبر آف جارہا تھا۔ پھر انہوں نے شہریار اور حنان کو کال کی۔ لیکن وہ دونوں لاعلم تھے۔ اب تو وہ پریشان ہو گۓ۔ انہوں نے مزید ایک گھنٹہ انتظار کیا لیکن جب علی کی کوٸ خبر نہ ملی تو وہ اپنے آپ کو کوسنے لگے
”صرف چند پیسے ہی تو دینے تھے۔ کیا تھا جو اگر میں دے دیتا“ انہیں خود پر غصہ آنے لگا۔ جب رات کے چار بج گۓ اور علی تب بھی نہ لوٹا تو نہایت مجبوری کے عالم مں انہوں نے پورے بارہ سال بعد شاہنہ کو کال ملاٸ
”ہیلو۔۔۔۔۔۔۔کیا علی۔۔۔علی تمہارے پاس آیا ہے“ انہوں نے چھوٹتے ہی پوچھا
”کون علی؟“ دوسری طرف سے پوچھا گیا تو وہ ساکت رہ گۓ۔ کیسی ماں تھی وہ جسے اپنے بچے کا نام تک نہ یاد تھا۔ کتنا بدنصیب تھا انکا بیٹا جسے نہ باپ کا پیار ملا نہ ماں کا
”یااللّٰہ ایک بار علی گھر واپس آجاۓ میں اسے دوبارہ نہیں ڈانٹوں گا“ انہوں نے دل ہی دل میں دعا کی، اسی وقت موباٸل کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے فون اٹھایا تو پتہ چلا کسی ہسپتال سے کال تھی۔ علی کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا اور اسکی حالت بہت خراب تھی۔ انکے تو پیروں تلے زمین ہی نکل گٸ۔
وہ دوڑے دوڑے اسپتال آۓ۔ علی وینٹیلیٹر پر پڑا مصنوٸ سانسوں کے زیراثر زندہ تھا۔ انکی تو جان ہی نکل گٸ علی کو دیکھ کر۔
اس دن اسپتال کے کوریڈور میں بیٹھ کر روتے ہوۓ انہیں احساس ہوا تھا کہ وہ کتنے برے انسان ہیں۔ جب زندگی نے انہیں آٸینہ دکھایا تو ان سے اپنا مکروہ چہرہ دیکھا ہی نہ گیا۔ اپنے گریبان میں جھاکنا مشکل کام ہے، مگر وہ اپنے گریبان میں دیکھ رہے تھے۔ آج ضمیر ملامت کر رہا تھا۔
دور کہیں سے فجر کی ازان سناٸ دی تو وہ اٹھے۔ جاۓ نماز بچھاٸ اور فجر کی نماز ادا کی۔ سلام پھیر کر دعا کے لۓ ہاتھ اٹھاۓ تو اپنے سارے جرم یاد آگۓ۔ کسں منہ سے دعا مانگتے وہ اپنے بیٹے کے لۓ؟ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گے۔ کتنے بدنصیب باپ تھے وہ کے اپنے بیٹے کے لۓ دعا بھی نہ مانگ سکتے تھے۔ وہ وہیں بیٹھے روتے رہیں، صبح آٹھ بجے کے قریب ڈاکٹرز ان کے پاس آۓ اور انہیں یہ خوشخبری سناٸ کے انکا بیٹا ٹھیک ہے۔ وہ سجدے میں گر پڑے۔
جب علی کو کمرے میں شفٹ کردیا گیا تو وہ اس سے ملنے آٸیں۔ علی نے منہ پھیر لیا۔ وہ اسے اس ناراضگی کا حقدار سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ انکا بیٹا اعلیٰ ظرف ہے وہ آج نہ کل انہیں معاف کردے گا۔ لیکن وہ غلط تھے۔۔!!!
اس دن کے بعد سے سب بدل گیا۔ کھیل وہی رہا، مگر بازی پلٹ گٸ۔ کہانی وہی رہی، لیکن کرداروں نے اپنی جگہیں تبدیل کرلیں۔ پہلے علی اپنے باپ کی محبت کے لۓ ترستا تھا۔ تب سے عابد صاحب اپنے بیٹے کی محبت کے لۓ تڑپنے لگے۔ پہلے علی انکے پیچھےآتا تھا اور وہ اسے دھتکارتے اور جھڑک دیتےتھے، لیکن اس دن کے بعد سےوہ علی کے پیچھے آنے لگے۔ پہلے تو علی انہیں نظرانداز کردیتا اور کسی بات کا جواب نہ دیتا لیکن آہستہ آہستہ وہ ان سے بدتمیزی کرنے لگا۔
علی کا موت کے منہ میں جانا، ڈاکٹرعابد کو انکے دماغی مرض سے باہر کھینچ لایا تھا۔ وہ علی کو ہر بدتمیزی اور بدتہزیبی کے لۓ حق بجانب سمجھتے تھے۔ اور خود کو مجرم سمجھتے ہوۓ اسکی ہر بدتمیزی برداشت کرتے تھے۔ یہ سوچتے ہوۓ کہ ایک نہ ایک دن تو وہ انہیں معاف کر ہی دے گا۔
———*———–*—————*
پت جھڑ میں جو پھول مرجھا جاتے ہیں
وہ بہاروں کے آنے سے کھلتے نہیں
کچھ لوگ، ایک روز جو بچھڑ جاتے ہیں
وہ ہزاروں کے آنے سے ملتے نہیں
عمر بھر چاہے کوٸ پکارا کرے انکا نام
وہ پھر نہیں آتے
حنان اپنے کمرے کی کھڑکی پہ کھڑا باہر برستی بارش دیکھ رہا تھا۔ کھڑکی کے شیشے کے پار اسے دھندلا سا ایک منظر ابھرنے گا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ منظر واضع ہوگیا۔ ایک سولہ سالا لڑکا کالج یونیفارم میں ملبوس، کندھوں پر بیگ لٹکاۓ گھر میں داخل ہوا۔ سامنے ہی لاٶنج میں ایک دس سالہ بچی کتابیں اور کلر پینسل پھیلاۓ ڈراٸنگ بنانے میں مصروف تھی۔ اسے اندر آتا دیکھ کر بچی کے چہرے پر خوشی کے رنگ پھیلے
”حنان بھاٸ آگۓ“ وہ بچی چہکی
”کیسی ہے میری گڑیا؟“ حنان جوتے اتارتا اسکے پاس آیا اور اسکے سر پر ہاتھ رکھا
”میں بلکل ٹھیک ہوں۔ آپ کو پتہ ہے دادی نے آج آپکے پسند کا فراٸیڈ راٸس بنایا ہے۔ پر آپ دادی کو بتانا مت میں نے آپکو بتایا ہے وہ آپکو سرپراٸیز دینا چاہتی ہیں“ مرجان نے رازداری سے بتایا۔ گول مٹول سے گلابی گالوں والی اس بچی کے آنکھوں میں بے پناہ شرارت تھی۔
”اور تم نے انکا سرپراٸیز خراب کردیا۔ کتنی بری بات ہے ناں یہ؟“ حنان نے خفگی سے کہا تو اس نے جھٹ سے اپنے کان پکڑ لۓ
”سوری۔۔۔۔۔۔“ دونوں کان پکڑ کر اس نے معصومیت سے کہا تو حنان کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔ اس نے مرجان کے دونوں گال کھینچے اور مسکراتا ہوا کپڑے چینچ کرنے چلا گیا۔
منظر چھٹ گیا۔ پہلے والے منظر کی جگہ ایک دوسرا منظر بننے لگا
حنان پورچ میں کھڑا تھا، ڈراٸیور اسکا سفری بیگ گاڑی کی ڈگی میں رکھ رہا تھا۔ اسکی دادی، مرجان وہیں کھڑی تھیں۔ دادی تو اس پر دعاٸیں پڑھ پڑھ کر پھونک رہی تھیں جبکہ مرجان ناراض ناراض سی کھڑی تھی۔
”بھاٸ۔۔۔۔۔پہلے آپ لاہور کی اتنی اچھی یونیورسٹیاں چھوڑ کر کراچی پڑھنے چلے گۓ، اور اب جاب بھی وہیں کرلی“ مرجان نے خفگی سے کہا
”کیا کروں مجبوری ہے میری۔ ایک بار تمہارا ماسٹرز کمپلیٹ ہو جاۓ پھر میں تمہیں اور دادی کو بھی وہیں بلالونگا۔“ حنان نے اسے تسلی دی مگر وہ ہنوز خفا رہی
” اچھا اب ایسے رخصت کروگی بھاٸ کو؟“ اس نے اسے منانے کی کوشش کی پر مرجان نے کوٸ جواب نہ دیا۔ حنان نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک چاکلیٹ نکال کر اسکی طرف بڑھاٸ تو اس نے لینے کے بجاۓ حنان کو گھورا اور کہا
”بس ایک؟“ اسکی بات پر وہ مسکرایا اور دوسرے ہاتھ سے کوٹ کی دوسری جیب سے دوسری چاکلیٹ نکال کر اسکی طرف بڑھاٸ تو اس مسکراتے ہوۓ دونوں چاکلیٹ لے لی۔
یہ منظر بھی مٹ گیا اور ایک تیسرا منظر بننے لگا۔ وہ اس آخری دن کا منظر تھا جب مرجان اس سے ملنے چند گھنٹوں کے لۓ کراچی آٸ تھی۔ اور اسکے بعد وہ دوبارہ اسکا چہرہ نہیں دیکھ سکا۔ وہ اٸیرپورٹ کا منظر تھا، وہ اسے رخصت کرنے کے لۓ ساتھ آیا تھا۔ وہ بار بار اسے مڑ کر دیکھتی اور ہاتھ ہلاتی۔ اگر حنان کو اس وقت معلوم ہوتا کہ وہ اسے آخری بار دیکھ رہا ہے تو وہ اسے کہیں جانے ہی نہ دیتا۔
بارش تیز ہوگٸ۔ سارے مناظر ہوا میں تحلیل ہوگۓ۔ پتہ نہیں اسکی بہن اس وقت کہاں ہوگی؟ اس طوفانی بارش سے بچنے اور سر چھپانے کے لۓ اسکے پاس چھت بھی ہوگی کہ نہیں؟“
———*—————*————*
”امّی صبح تک اگر بارش رک گٸ تو پھر میں آپ کو لے کر ڈاکٹرکے پاس جاٶنگی“ فاطمہ نے لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوۓ زہرہ بیگم کو یاد دہانی کراٸ۔
”پر بیٹا تمہارا آفس؟ اسکا کیا ہوگا؟“
”میں آفس سے ہاف لیو لے لونگی“
”کتنی محنت کرتی ہو تم۔ میں خود چلی جاتی ہسپتال، اب تم آفس سے تھکی ہوٸ آٶگی پھر میرے ساتھ ہسپتال بھی جاٶگی“
”کچھ نہیں ہوتا، ہسپتال بہت سارے ٹیسٹ ہونگے آپ کہاں کہاں اکیلی جاۓ گی۔ میں ہاف لیو لے لونگی کہا تو ہے“
”اچھا ابھی تو جاکر سوجاٶ“ انھوں نے فکر مندی سے کہا
”میرا تھوڑا ساکام رہ گیا ہے۔ وہ کر کے سوجاونگی“ اس نے کہا تو زہرہ بیگم اپنے کمرے میں چلی گٸ۔ وہ لیپ ٹاپ میں سردیۓ مصروف تھی۔ جب کام کرتے کرتے اسکے انگلیاں رکی، کچھ نامعلوم سا احساس ہوا تھا اسے جو اس نے گردن اٹھاکر دیکھا، جیسے ہی اس نے سر لیپ ٹاپ پر سے سر اوپر کیا وہ ششدرہ رہ گٸ۔
وہ کسی کھلے میدان میں موجود تھی۔ اس نے گھبرا کہ واپس اس جگہ دیکھا جہاں اسکا لیپ ٹاپ تھا، وہ اب وہاں موجود نہیں تھا۔ اس کھلے میدان میں فاطمہ گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی۔ جیسے کوٸ بھاگتے بھاگتے تھک کر گرجاتا ہے۔ اسکے سر سے دوپٹہ غاٸب تھا۔ بارش تڑ تڑ برس رہی تھی۔ وہ اس میں پوری طرح بھیگ چکی تھی۔ داٸیں ہاتھ کی ہتیلی سے خون رس رہا تھا، جیسے کسی نے چھری سے کٹ لگایا ہو۔ لیکن اس وقت اسے اپنے زخموں کی فکر نہ تھی۔ اپنے پیچھے اسے بھاگتے قدموں کی دھمک سناٸ دی تو وہ اٹھ کر کھڑی ہوٸ اور بھاگنا شروع کردیا۔ وہ اندھا دھند بھاگ رہی تھی۔
کبھی کبھی بجلی کڑکتی تو اسکا دل دہل جاتا۔ بھاگتے قدموں کی آواز شاید دور ہوگٸ تھی اس لۓ وہ تھوڑی دیر کے لۓ رکی اور ہانپنے لگی۔ وہ کافی دیر تک گھنٹوں پر ہاتھ رکھے جھکی کھڑی رہی اور گہرے گہرے سانس لیتی رہی۔ تھوڑی دیر میں جب اسکی حالات کچھ بہتر ہوٸ تو وہ سیدھی ہوٸ۔ لیکن اسی وقت کوٸ بھاری سی چیز اسکے سر پہ آلگی۔ اسکی چیخ نکل گٸ۔۔۔!!`
اس نے سر جھٹک کہ یہاں وہاں دیکھا سب کچھ اپنی جگہ پر موجود تھا۔ وہ اپنے کمرے میں تھی اور اسکا لیپ ٹاپ سامنے کھلا پڑا تھا۔ وہ کب ان یادوں سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہوگی
———*—————*————*
”شیری۔۔۔۔۔۔اٹھ جاۓ۔ صبح ہوگٸ ہے“ شہرذاد کی آواز سے وہ نیند سے جاگا
”آپ ساری رات یہیں لاٶنج میں سوتے رہیں؟“
”ہاں وہ بس آنکھ لگ گٸ تھی۔ پتہ ہی نہیں چلا“
”اچھا آپ منہ ہاتھ دھو آۓ ہم ناشتہ لگواتے ہیں“ وہ کہہ کر جانے کے لۓ مڑی ہی تھی کہ شہریار کی آواز نے اسکے قدم روک لۓ
”شہی۔۔۔۔۔۔ایک بات بتاٶ شہیر کو مرے ہوۓ کتنا عرصہ ہوا ہے؟“
”چھ سال“ شہرذاد نے حیرت سے جواب دیا
”تو تم اسے ابھی تک بھولی کیوں نہیں؟ دیکھو شہی۔۔۔۔۔میری بھی مں جیسی چاچی مری تھی۔ اشرف بابا کی بھتیجی بھی مری تھی تو کیا ہم سب انکی یاد میں پاگل ہو گۓ؟ نہیں ناں۔۔۔۔ مرنے والے کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔ نہ ہی انکے جانے سے زندگی رک جاتی ہے۔ شہیر میرا بھی بہت اچھا دوست اور بھاٸ تھا، میں بھی اسکو یاد کرتا ہوں۔ لیکن تم نے اسکی موت کا صدمہ لے لیا ہے۔ اب تم اسے بھول جاٶ اور نکل آٶ اس صدمے سے۔ بھول جاٶ اسے اور اگر وہ یاد بھی آتا ہے تو اسکے ایصال ثواب کے لۓ دعا کیا کرو۔ ٹھیک ہے“ شہریار اسے سمجھاتا رہا اور وہ سر جھکاۓ سنتی رہی۔ پھر وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا
”آپ اس صدمے سے اس لۓ باہر آگۓ کیونکہ آپ اور بابا وہ نہیں جانتے جو ہمیں معلوم ہیں۔ جو راز ہمارے سینے میں دفن ہے اسے ہم آپ دونوں کے سامنے نھیں کھول سکتے ورنہ آپ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ وہ دل ہی دل میں شہریار سے مخاطب تھی
————-*————-*———*
وہ آفس کے لۓ نکل رہی تھی جب اسے سامنے سے پھپھو آتی دکھاٸ دی۔ اسکا حلق تک کڑوا ہوگیا تھا
”کیسی ہو بیٹا؟ کتنے دن ہوگۓ تم نے اپنا چہرہ نہیں دکھایا تو میں نے سوچا خود ہی آجاٶ تم سے ملنے“ چہرے پر محبت کا لبادہ اوڑھ کر انہوں نے کہا
”اچھا کیا۔ اب یہ بتاۓ کوٸ کام تھا آپ کو؟“ وہ چاہ کر بھی مسکرا نہ سکی
”ہاں ابھی تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ وہ۔۔۔۔وہ تم نے اظہر کے بارے میں کیا سوچا؟“ انہوں نے پوچھا تو اسکے چہرے پر ناگواری چھاگٸ۔
”میں نے آپ سے پہلے بھی کہا ہے کہ میں آپ کے بیٹے سے شادی نھیں کرونگی“ اسکی بات پر پھپھو نے غصے سے اسے دیکھا
”تو پھر کس سے کروگی؟ اس سے جو تمہیں چھوڑ گیا؟ تم نے اپنی مرضی کرنی تھی سو کرلی۔ نتیجا دیکھ لیا نہ۔ ویسے بھی تمہارے آگے پیچھے تو کوٸ ہے نہیں بھاٸ صاحب کے بعد ہم ہی تمہارے وارث بچے ہیں“
”میرے وراث یا میری جاٸیداد کے وارث بنا چاہتے ہیں آپ“ اس نے چبھتا ہوا طنز کیا۔ ان کو تو آگ ہی لگ گٸ
”تم جو بھی کہہ لو شادی تو تمہیں میرے بیٹے سے ہی کرنا ہوگی۔ چاہے اپنی مرضی سے کرو یا زبردستی“ انہوں نے کہا اور پیر پٹختے ہوۓ باہر نکل گٸ۔ ماہین افسوس سے انکو جاتے ہوۓ دیکھ رہی تھی۔
———*—————*————*
”علی نہیں آیا؟“ حنان نے شہریار کے آفس میں داخل ہوتے ہوۓ پوچھا
”نہیں وہ آج نہیں آۓ گا۔ اسکا میسج آیا تھا کہہ رہا تھا کہ بخار ہے اسے“
”کہیں وہ مجھ سے ناراض تو نہیں؟“ حنان نے فکرمندی سے پوچھا
”ہوسکتاہے، تمہیں اسکے سامنے اسکے بابا کی حمایت نہیں کرنی چاہیۓ تھی جانتے تو ہو وہ کتنا ٹچی ہو جاتا ہے“ اس نے حنان کو دیکھتے ہوۓ کہا۔ حنان اسکے سامنے والی کرسی کی پشت پر دونوں کہنیاں ٹکاۓ ذرا سا جھک کہ کھڑا تھا۔ شہریار کو کافی پہلے کا کہا ہوا پنا ایک جملہ یاد آیا ” اگر اس نے تیرا سر پھاڑ دیا تو فکر مت کرنا ہم ہیں ناں۔۔۔۔۔ہم تیرے چنے پڑھ دینگے“ انسان بھی مذاق مذاق میں کتنی غلط بات کر جاتا ہے۔ کونسی گھڑی قبولیت کی ہوتی ہے ہم اس بات سے انجان ہوتے ہیں۔ جب تک حنان کوما میں رہا، تب تب شہریار کو اپنا کہا ہوا جملہ یاد آتا اور وہ شرمندہ ہو جاتا۔ آج حنان کو اپنے سامنے صیح سلامت کھڑا دیکھ کر اسنے دل سے اسکی زندگی کی دعا مانگی تھی
”کیا سوچ رہے ہو شیری؟“ اسے خود کو تکتا پاکر حنان نے پوچھا تو وہ گہری سانس لےکر سیدھاہوا اور اس سے گویا
”دیکھو حنان ہم تینوں تقریباً دس سالوں سے دوست ہیں۔ ایک دوسرے کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ اگر تم علی کو کچھ سمجھانا چاہتے ہو تو بلکل سمجھاٶ یہ تمہارا حق ہے لیکن۔۔۔۔۔اس طرح نہیں جیسے تم نے کل اس سے کہا۔ اسطرح اسے یہ لگے کا تم اسکے بابا کی وکالت کر رہےہو اور اسے غلط کہہ رہے ہو“
”لیکن وہ غلط کر رہا ہے“
”ہاں۔۔۔۔میں مانتا ہوں کہ وہ غلط کر رہا ہے لیکن اسکے ساتھ بھی کتنا برا ہوا تھا ناں۔۔۔اب دیکھو ساری رات وہ یہی سب باتیں سوچتا رہا ہوگا اور صبح اسے بخار چڑھ گیا“ اس سے پہلے کے حنان کچھ کہتا ماہین دروازہ کھول کر اندر داخل ہوٸ
”اسلام علیکم۔۔۔۔۔۔شہریار یہ فاطمہ آج ہاف لیو پہ۔۔۔۔۔“اسکی بات ادھوری رہ گٸ جب اسکی نظر حنان پہ پڑی وہ سامنے دیوار کو دیکھ رہا تھا۔ شاید وہ ماہین کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
”ہاں۔۔۔۔۔وہ آج ہاف لیو پر ہیں“ شہریار نے اسکی بات کا جواب دیا
”اچھا میں چلتا ہوں شیری۔۔۔۔۔“حنان نے داٸیریکٹ شہریار کو مخاطب کیا اور اسکے روم سے نکل گیا۔ ماہین نے بےحد دکھ سے اسے جاتے ہوۓ دیکھا
————*————*————*
سر سید اشرافیہ اور اجلافیہ دو قومی نظریہ
یہ حضرت جنگ آزادی کے دوران ایسٹ انڈیا کمپنی کے وفادار رہے۔ سر سید اور ان جیسے قماش کے لوگوں...