اکھاڑہ شاعری کا دیدنی ہے اس جھمیلے میں
کہ اکثر لوگ اسی کے واسطے آئے ہیں میلے میں
جوان و پیر و مردو زن ہیں یک جا ہر قبیلے کے
بڑے ٹھسے سے ہیں بیٹھے ہوئے افسر قبیلے کے
یہاں بوڑھے جوانوں سے زیادہ تن کے بیٹھے ہیں
جواں بھی کم نہیں مد مقابل بن کے بیٹھے ہیں
حسینہ عورتیں بیٹھی ہوئی نخرے دکھاتی ہیں
یہ اپنے شوہروں اور آشناؤں کو لبھاتی ہیں
تبسم ہے کہ بجلی ہے نگاہیں ہیں کہ چھریاں ہیں
حیا کیسی کہ آدھے سے زیادہ جسم عریاں ہیں
یہ عشوے اور غمزے مرد ہی ان کو سکھاتے ہیں
حیا و شرم کے جوہر یہ ظالم خود مٹاتے ہیں
ہزاروں نازنیں آنکھیں حیاداری سے خالی ہیں
نقاب افگندہ ہیں ان میں جو طبعا شرم والی ہیں
غرض یہ سب کے سب گھیرے ہوئے بیٹھے ہیں میداں کو
مزے سے سن رہے ہیں شاعروں کے سوزو حرماں کو
قبیلے اپنے اپنے شاعروں پر ناز کرتے ہیں
قصائد اپنی اپنی شان میں سن کر بپھرتے ہیں
وہ اٹھ کر ایک شاعر بر سر میدان آیا ہے
خود اپنی شان میں پورا قصیدہ کہہ کے لایا ہے
قبیلہ میرا ایسا ہے، میں خود ایسا ہوں ویسا ہوں
میں چاندی ہوں میں سونا ہوں میں دھیلا ہوں میں پیسہ ہوں
وہ پتھر بھی خدا میرا، یہ پتھر بھی خدا میرا
وہ مجھ کو پالنے والا ہے یہ حاجت روا میرا
فلاں ابن فلاں ہوں اس لیے پکا دلاور ہوں
تخیل ہے مرا خونیں سمندر میں شناور ہوں
بہت سی عورتوں سے عشقبازی کر چکا ہوں میں
اب اس پر مر رہا ہوں، پہلے اس پر مر چکا ہوں میں
فلاں کی اور فلاں کی عصمتیں میں نے بگاڑی ہیں
یہ سب بستی ہوئی آبادیاں میں نے اجاڑی ہیں
یہ عورت مجھ پر مرتی ہے ، وہ عورت مجھ سے ڈرتی ہے
یہ مجھ سے ملتفت ہے اور وہ پرہیز کرتی ہے
میں اس کو چھوڑ دوں گا اور اسے قابو میں لاؤں گا
بغیر وصل دہنے ہاتھ سے کھانا نہ کھاؤں گا
غرض یہ شاعری دکھا کے شاعر بیٹھ جاتا ہے
تو پھر اک دوسرا آتا ہے اور محفل جماتا ہے
بہا دیتا ہے سوکھے دشت میں دریا فصاحت کے
دکھا دیتا ہے نقشے کھینچ کر اپنی حماقت کے
یہ شاعر اس طرح جن عورتوں کا نام لیتے ہیں
جنہیں فحش و زناکاری کے یوں الزام دیتے ہیں
مزا یہ ہے کہ ان میں سے یہیں موجود ہیں اکثر
پھر ان میں بعض شوہر دار ہیں اور بعض بے شوہر
وہ سب بیٹھی ہوئی ہنستی ہیں اس افشاء حالت پر
کوئی ذلت کا دھبہ ہی نہیں گویا شرافت پر
ذرا کچھ آنکھ شرمائی تو اس نخرے سے شرمائی
بھری محفل میں گویا حسن و خوبی کی سند پائی
غرض شاعر پہ شاعر باری باری آئے جاتے ہے
زبان گرم سے بزم سخن گرمائے جاتا ہے
کوئی اترا رہا ہے آبِ خنجر کی روانی پر
کوئی اکڑا ہوا ہے اپنے فخر خاندانی پر
کسی کو فخر ہے اپنی شجاعت پر سخاوت پر
کسی کو ناز ہے اپنی فصاحت پر بلاغت پر
کوئی کہتا ہے ہم نے رہزنی میں نام اچھالا ہے
کوئی کہتا ہے ہم نے عشق کو سانچے میں ڈھالا ہے
کوئی کہتا ہے ہم سفاک ہیں ، ظالم ہیں ، قاتل ہیں
کوئی کہتا ہے ہم بے کار ہی رہنے میں کامل ہیں
بتاتا ہے کوئی تعداد لونڈی اور غلاموں کی
وہ لڑکا اتنے داموں کا یہ لڑکی اتنے داموں کی
یہ طرز خو ستائی اک زمانے سے نرالی ہے
یہ ہے اس ڈھول کی آواز جو اندر سے خالی ہے