’’وہ آخر مجھے اتنا بے وقوف کیوں سمجھتا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘عائشہ جب سے گھر آئی تھی بس یہی ایک بات سوچ رہی تھی۔ اُس دن محفل موسیقی سے وہ موحد کو زبردستی خرابی طبیعت کا بہانہ کر کے گھر لے آئی تھی اور گھر آ کر بھی بے چین رہی۔
’’پہلے ماہم اتنا عرصہ مجھے بے وقو ف بناتی رہی،اب اس کی کمی رہ گئی تھی۔۔۔‘‘اپنے اسٹوڈیو کی صفائی کرتے ہوئے ایک تلخ سوچ نے اُس کے ذہن کا احاطہ کیا۔’’انسان کو اتنا سادہ دل بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی سادگی ہی اس کا سب سے بڑا امتحان بن جائے۔۔۔‘‘موحد کی ایک بات اُس کے ذہن میں ابھری۔
’’لیکن ،ان لوگوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔۔۔‘‘ قنوطیت نے بڑی قوت سے ایک بھرپور حملہ کیا۔وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔
’’اب وہ مجھے کس خوشی میں صفائیاں دینا چاہتا ہے۔۔۔‘‘وہ حد درجہ بدگمان تھیں۔
’’تم نے بھی تو آج اگلے پچھلے سارے ہی حساب برابر کر دیے۔اس لیے اب کیوں افسردہ ہو۔۔۔‘‘دل نے عجیب سے موقعے پر یاد دلایا۔
’’میرا حق بنتا تھا،آخر لوگ کب تک میرے ساتھ بُرا کرتے رہیں گے۔۔۔‘‘دماغ نے اُسے سیدھی راہ پر رکھنے کی کوشش کی۔
’’لیکن وہ بیچارا،کتنا پریشان اور کمزور سا لگ رہا تھا،تم کم از کم اسے ایک صفائی کا موقع تو دیتیں ناں۔۔۔‘‘ دل نے دہائی دی۔
’’تم نے بھی تو دن رات کی اذیت سہی ہے،اُسے بھی کچھ اس کا احساس ہونے دو۔۔۔‘‘دماغ نے اُس کی طرفداری کی۔ دل اور دماغ کی اس کشمکش سے تنگ آکر وہ اسٹوڈیو سے باہر نکل آئی ۔سامنے ہی لاؤنج میں موحد اپنے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھتے ہوئے کسی گہری سوچ میں تھا۔
’’کیا ہوا بھائی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ کو اس کے چہرے پر کسی انہونی کا احساس ہوا۔
’’کچھ نہیں ،اپنے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ کیا کسی خوشی پر میرا حق نہیں۔۔۔‘‘ موحد کی بات پر اُس نے الجھ کر اُسے دیکھا۔
’’آپ آج آفس نہیں گئے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ کو اس کے رف سے حلیے سے احساس ہوا۔
’’دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔۔۔‘‘ وہ افسردگی کی انتہاء پر تھا۔
’’دل کی باتوں پر چلنے سے بزنس نہیں چلتے،اور دل کا کام تو بس خوار کرنا ہے۔۔۔‘‘عائشہ اس کے پاس ہی فلور کشن پر بیٹھ گئی ۔
’’تمہیں ہاتھ دیکھنا آتا ہے عائشہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ موحد نے بڑے عجیب لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں بھائی،کیا ہوا ہے آخر۔۔۔؟؟؟؟‘‘عائشہ نے محبت سے اُس کے ہاتھ تھامے۔
’’پتا نہیں میری خوشیوں کی ہر راہ پر وہ لڑکی آکر اُس خوشی کو ملیامیٹ کیوں کر دیتی ہے۔۔۔‘‘ موحد افسردہ کم اور مایوس زیادہ تھا۔
’’کون ماہم۔۔۔؟؟؟؟‘‘عا ئشہ چونکی۔۔۔’’اب کیا،کیا اُس نے۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’یہی تو سارا مسئلہ ہے کہ وہ کچھ نہیں کرتی،لیکن پھر بھی بہت کچھ کر جاتی ہے۔۔۔‘‘موحد کی بات پر وہ بُری طرح الجھ سی گئی۔اُس نے کھوجتی نگاہوں سے اپنے بھائی کا چہرہ دیکھا۔
’’آپ کی دوست کیسی ہے۔۔۔؟؟؟کوئی لڑائی تو نہیں ہو گئی۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’لڑائی تو نہیں ہوئی لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ مجھ سے دوبارہ کوئی تعلق رکھے گی۔۔۔‘‘موحد نے پہلی دفعہ کھل کر اُس سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
’’اللہ نہ کرئے،ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔‘‘عائشہ نے دہل کر اس کا چہرہ دیکھا،جو خاصا تاریک تھا۔
’’میں نے اُس کے سامنے ماہم کے بارے میں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار جو کر دیا۔۔۔‘‘وہ بچوں کی سی معصومیت سے بولا۔
’’تو کیا ہوا۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ الجھی۔’’اس سے ،اُسے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے ہلکی سی خفگی سے پوچھا۔
’’وہ اُس کی بہت بڑی فین ہے۔۔۔‘‘موحد کی بات پر عائشہ کو کرنٹ سا لگا۔
’’ماہم کی فین۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُسے یقین نہیں آیا ۔
’’ہاں،اُس کے پاس ،وہ اکثر جاتی رہتی ہے۔۔۔‘‘موحد نے سنجیدہ انداز میں کہا اور گلاس وال سے باہر برستی بارش کو دیکھنے لگا۔
’’لیکن کس سلسلے میں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ تھوڑا سا پریشان ہوئی۔
’’کوئی مسئلہ ہو گیا تھا اسے۔اس سلسلے میں۔۔۔‘‘موحد نے گول مول انداز میں جواب دیا۔
’’کیا اُس نے آپ سے کوئی ایسی بات کہی ہے،جس سے آپ پریشان ہو گئے ہیں۔۔۔‘‘ عائشہ نے اس کے ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے پوچھا۔
’’محبت میں ضروری تو نہیں کہ ہر بات کہی جائے،انسان بعض دفعہ تو بس مبہم اشاروں سے بھی ساری گفتگو سمجھ لیتا ہے۔۔۔‘‘موحد نے اسے لاجواب کیا۔
’’اگر اسے واقعی آپ سے محبت ہوئی تو بے فکر رہیں،وہ کہیں نہیں جائے گی۔۔۔‘‘ عائشہ نے اُسے تسلی دی تو وہ بے یقینی سے اُسے دیکھنے لگا۔جیسے اس کی بات کا یقین نہ آ رہا ہو۔
عائشہ کچھ دیر تو اُس کے پاس بیٹھی رہی ،لیکن شاید موحد کا مزید گفتگو کرنے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔اس لیے عائشہ اکتا کر اٹھ گئی۔اپنے کمرے میں جا کر اُس نے شاور لیا اور گاڑی کی چابی لے کر باہر نکل آئی ۔
سعید بک بینک پر کتابوں کے درمیان گھنٹوں وقت گذارنا ،عائشہ کا من پسند مشغلہ تھا۔اس لیے اُسے جب بھی وقت ملتا،وہ کتابوں کی خریداری کے لیے جناح سپر میں موجود اس بڑی شاپ کا رخ کرتی ۔اس وقت بھی وہ انگلش سیکشن سے نکل کر اردو سیکشن میں آ گئی تھی،نئی آنے والی کتابوں کی لسٹ اُس کے ہاتھ میں تھی۔وہ اس شاپ کی ایک ریگولر کسٹمر تھی اس لیے زیادہ تر ملازمین اسے پہچانتے تھے۔
اپنی پسند کی کتابیں ریک سے نکال کر وہ دھیرے دھیرے سیڑھیاں اترتے ہوئے گراؤنڈ فلور پر واقع کاؤنٹر کی طرف بڑھی لیکن وہاں پہلے سے موجود لڑکی کو دیکھ کر وہ چونک گئی۔ وہ کاؤنٹر پر موجود لڑکے کے ساتھ بحث کر رہی تھی۔
’’یہ تو وہ ہی لڑ کی ہے ،جو اُس دن علی کے ساتھ تھی۔۔۔‘‘ وہ اپنی جگہ پر ٹھٹک کر رہ گئی اورآخری سیڑھی پر آکے رک گئی۔اُس کی نگاہیں اُس لڑکی پر جمی ہوئیں تھیں جو اچھی خاصی خوبصورت اور دلکش تھی۔اس وقت اس کا چہرہ غصّے کی زیادتی سے سرخ ہو رہا تھا۔
’’دیکھیں میم ،ہمیں آپ کے ہسبینڈ نے اسی کتاب کا آرڈر کیا تھا۔۔۔‘‘کاؤنٹر پر کھڑے ملازم نے اُسے صفائی دینے کی کوشش کی۔
’’علی نے میرے سامنے آپ کو آرڈر لکھواتے وقت یاد دہانی کروائی تھی کہ اس کا نیو ایڈیشن منگوائیے گا۔۔۔‘‘ اُس کی بات پر سیڑھیوں پر کھڑی عائشہ کے پاؤں وہیں منجمد ہو گئے۔اُس کے دماغ سن سا ہو گیا۔وہ منہ کھولے سخت حیرت،صدمے اور بے یقینی سے اُسی لڑکی کو دیکھے جا رہی تھی ،جس نے اشتعال کے عالم میں کال ملا ئی۔
’’علی،ذرا اسے بتائیں کہ آپ نے اسے نیو ایڈیشن کا کہا تھا یا اولڈ کا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس لڑکی کا استحقا ق بھرا انداز عائشہ کو ایک لمحے میں یقین دلا گیا کہ وہ غلط نہیں تھی۔
’’یہ لیں میرے ہسبینڈ (شوہر)سے بات کریں۔۔۔‘‘ اُس نے سیل فون شاپ کیپر کی طرف بڑھایا۔جب کہ عائشہ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ شاپ کی فرسٹ فلور کی تین سیڑھیاں طے کر کے گراؤنڈ فلور پر جا سکے۔
* * *
جب وہ کتابوں کی دکان سے نکلی تو اُس کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا،پورا وجود ہچکولوں کی زد میں تھا۔آج تو امید اور ناامیدی کی درمیانی کیفیت بالکل ختم ہو گئی ۔ اپنے قدموں کو بمشکل گھسیٹتی ہوئی وہ پارکنگ کی طرف جا رہی تھی۔آنکھوں کے گرد تنی آنسوؤں کی دھند کی وجہ سے چلنا دشوار ہو رہا تھا۔اچانک اُس کو چکر سا آیا اور وہ فٹ پاتھ پر ہی بیٹھ گئی۔
’’عائشہ۔۔۔‘‘کسی نے پیچھے سے آ کر بہت نرمی سے اُسے پکارا ۔
’’آر یو او کے۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ رامس کی آواز نے اس کی سماعتوں پر دستک دی لیکن وہ اس وقت ایسی حالت میں تھی کہ گردن اٹھا کر اُس کا چہرہ دیکھنا دنیا کا مشکل ترین کام لگا۔
’’عائشہ ،کیا ہوا؟؟؟؟طبیعت ٹھیک ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ بالکل اُس کے پاس بیٹھ کر فکرمندی سے بولا۔
’’میں ٹھیک نہیں ہوں۔۔۔‘‘عائشہ کے منہ سے بمشکل پھسلا اور اگلے ہی لمحے وہ اپنی گود میں سر رکھے دھواں دھار رو دی۔رامس کے تو چھکے ہی چھوٹ گئے۔
‘‘اُف مائی گاڈ عائشہ ،کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟؟ ‘‘ اُس کے لہجے میں تشویش کے سبھی رنگ تھے۔
’’آپ تو بہت بہادر ہیں ۔۔۔‘‘ اُس نے تسلی دینے کی کوشش کی جو خاصی مہنگی پڑی۔
’’نہیں ہوں میں بہادر،مجھے بہادری کا ٹیگ گلے میں لگا کر اپنے آپ کو اندر سے ختم نہیں کرنا،پلیز مجھے رونے دو،ورنہ مجھے کچھ ہو جائے گا۔۔۔‘‘ عائشہ نے رُندھے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ اب بالکل ایسے بچے کی طرح رو رہی تھی جس کی پسندیدہ چیز اُس سے چھن گئی ہو۔۔۔
’’خیر ہے یہ آپ دونوں یہاں کون سی جذباتی فلم کی شوٹنگ کر رہے ہیں ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماہم جو شاپنگ کی غرض سے جناح سپر میں تھی ۔اس وقت ان دونوں کو اچانک اپنے سامنے پا کر عجیب سی نظروں سے گھور رہی تھی۔ماہم کو سامنے دیکھتے ہی رامس کا سارا خون ابلنے لگا۔
’’مائنڈ یور اون بزنس پلیز۔۔۔‘‘وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا اور انگلی کے اشارے سے ماہم کو وارننگ کے انداز میں کہا۔
’’مائنڈ یور لینگویج پلیز۔۔۔‘‘آگے سے بھی ماہم تھی۔رامس کی بات پر اُسے آگ ہی تو لگی ۔
’’کیا ،کہا ہے تم نے اسے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماہم نے اب شعلہ برساتی آنکھوں سے رامس کو دیکھا۔جس کے چہرے پر اجنبیت اور بیگانگی کی ایک گہری تہہ تھی۔
’’میں لوگوں کے دل کودکھانے والی باتیں نہیں کرتا،یہ شعبہ آپ کا ہے اور آپ ہی کو سوٹ کرتا ہے۔۔۔‘‘وہ بھی تڑخ کر بولا۔ماہم کو ایک لمحے میں ادراک ہوا کہ سامنے کھڑا شخص کسی بھی لمحے تہذیب کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوڑ سکتا ہے۔اس لیے اس نے اُسے نظر اندازکر کے بڑے اپنائیت بھرے انداز سے عائشہ کو مخاطب کیا۔
’’عائشہ کیا ہوا ہے میری جان۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس کے طرز تخاطب پر رامس نے طنزیہ نگاہوں سے ماہم کی طرف دیکھا جو عائشہ کا ہاتھ پکڑے بڑی محبت سے پوچھ رہی تھی۔
’’ہوئے تم دوست جس کے،دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو۔۔۔‘‘ رامس بلند آواز میں بڑبڑایا۔ماہم نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اُسے غصّے سے دیکھا۔
’’رامس مجھے ایک گلاس پانی چاہیے۔۔۔‘‘عائشہ کا اس سچوئشن میں دماغ پھٹا۔اُس نے مناسب سمجھا کہ کسی ایک کو اس منظر سے غائب کرئے۔اس کی بات پر رامس فوراً سامنے ڈرنک کارنر کی طرف بڑھا۔
’’عائشہ ،کیا ہوا ہے مائی ڈئیر،کیا اس رامس کے بچے نے کچھ کہا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘اس کے تھوڑا دور جاتے ہی ماہم بے تابی سے بولی۔
’’کم آن ماہم۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں ۔‘‘عائشہ نے زبردستی خود کو سنبھالا۔
’’وہ تو خود ابھی ابھی یہاں پہنچا ہے ،جیسے تم آئی ہو۔۔۔‘‘عائشہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی صفائی دی تو ماہم نے کچھ سکون کا سانس لیا۔
’’میں شاپ سے باہر نکلی تو مجھے چکر سا آ گیا،ایسا لگتا ہے کہ بی پی لو ہو گیا ہے۔۔۔‘‘ عائشہ نے اس کے بڑھائے ہوئے ٹشو سے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے اُسے مزید مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
’’واقعی چکر آیا تھا یا تم مجھے چکر دینے کی کوشش کر رہی ہو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماہم کا چہرہ سپاٹ اور لہجہ عجیب سا ہوا۔ عائشہ نے الجھن بھرے انداز سے اُسے دیکھا جس کے چہرے پر کسی گہری سوچ کا تاثر واضح تھا۔
’’کسی بھی انسان کو چکر دینے کے لیے دماغ میں فالتو بھیجا ہونا چاہیے جو اس پر سوچ و بچا ر کر سکے۔الحمداللہ میرے دماغ میں ایسی کوئی فالتو چیز نہیں ۔۔۔‘‘ عائشہ اب مکمل طور پر خود کو سنبھال چکی تھی ۔اُسے اب اپنی جذباتیت پر افسوس ہو رہا تھا۔اُس نے خفت زدہ انداز سے سامنے آتے ہوئے رامس کو دیکھا جس کے ہاتھ میں جوس کا کوئی پیکٹ تھا۔وہ اب سوچ رہی تھی کہ اُسے ماہم اور رامس دونوں سے کیسے جان چھڑا کر گھر پہنچنا ہے۔۔۔
* * *
’’یہ تو کوئی ایسی بات نہیں،جس کی وجہ سے غبارے کی طرح منہ پھلا لیا جائے۔۔۔‘‘نابیہ نے سارا قصّہ سن کر ثنائیلہ کی کلا س لی ۔وہ آج کافی دن کے بعد اس کی طرف آئی تھی۔آگے سے ثنائیلہ نے اپنی ناراضگی کا قصّہ کھول کر سنانا شروع کر دیا۔دونوں باورچی خانے کے فرش پر بیٹھیں دوپہر کے لیے سبزی بنا رہی تھیں۔
’’یہ چھوٹی بات نہیں ہے نابیہ،وہ اتنی اچھی لڑکی کے خلاف ایسی باتیں کر رہا تھا۔۔۔‘‘ثنائیلہ روہانسی ہوئی۔
’’مسئلہ باتیں کرنے کا نہیں ہے یار،مسئلہ یہ ہے کہ وہ ’’اُسی ‘‘کے بارے میں ہی کیوں ایسی باتیں کر رہا تھا۔۔۔؟؟؟‘‘ نابیہ کے سوال پر وہ بھونچکا سی گئی۔’’یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ۔۔۔‘‘اُس کے منہ سے بمشکل نکلا۔وہ اب چھری پلیٹ میں رکھ کر حیرت سے نابیہ کو دیکھنے لگی جو پالک کے پتوں میں الجھی ہوئی تھی۔
’’حالانکہ بے وقوف لڑکی ،یہی بات تو تمہیں اُس سے سب سے پہلے پوچھنی چاہیے تھی۔۔۔‘‘نابیہ کو بھی غصّہ آ گیا۔۔۔
’’بس مجھے دھیان ہی نہیں رہا،اصل میں مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ ماہم منصور کو جانتا ہوگا۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے صاف گوئی سے کہا۔
’’وہ اُسے صرف جانتا نہیں بلکہ بہت اچھی طرح جانتا ہے میڈم۔۔۔‘‘وہ نابیہ کی طنزیہ نگاہوں سے خائف ہوئی ۔
’’مجھے تو کچھ سمجھ نہیںآ رہا یار۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے بے بسی سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی۔
’’تم اپنے ننھے منے دماغ پر زور نہ ہی ڈالو تو اچھا ہے۔۔۔‘‘نابیہ نے دانستہ ہلکا پھلکا انداز اپنایا۔وہ اب بڑی مہارت سے پالک کاٹ رہی تھی۔
’’یہ پالک کہیں بھاگی نہیں جا رہی ۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے غصّے سے اُس کے ہاتھ سے چھُری پکڑی۔ ’’مجھے بتاؤ کہ میں کیا کروں۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’میں کیا کہہ سکتی ہوں۔۔۔‘‘نابیہ ہنسی۔
’’کیا اُسے فون کر کے پوچھوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ثنائیلہ کا اچانک خیال آیا۔
’’کیا پوچھنا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘نابیہ چونکی۔
’’یہی کہ وہ ماہم کو کیسے جانتا ہے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کے معصومانہ انداز پر نابیہ نے جھنجھلاہٹ بھرے انداز میں اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔
’’خدا کے واسطے یہ بے ہودہ سوال کرنے کے لیے اُسے فون نہ کرنا۔۔۔‘‘نابیہ نے باقاعدہ اپنے دونوں ہاتھ اُس کے آگے جوڑے۔
’’تو پھر کیا پوچھوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ نے بے بسی سے اُسے دیکھا ۔
’’تم فی الحال کچھ بھی نہ پوچھو،بڑی مہربانی ہو گی۔۔۔‘‘نابیہ کو ایک دم غصّہ آ گیا ۔’’ابھی تو تم جب بھی بولو گی کفن پھاڑ کے ہی بولو گی۔۔۔‘‘
’’تو پھر کیا کروں۔۔۔؟؟؟‘‘اُس نے بے چارگی سے مزید کہا۔’’میرے تو سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں ماؤف ہو گئی ہیں ۔وہ حقیقتاً پریشان ہوئی۔
’’ابھی چپ رہو،جب اُس کی کال آئے تو کوئی ایسی بات نہ کرنا۔۔۔‘‘نابیہ نے اُسے سمجھایا۔
’’اگر اُس نے خود سے کوئی ایسی بات کر دی۔۔۔‘‘؟؟؟؟ ثنائیلہ نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔
’’اگر وہ خود سے بات کرئے تو تب ہلکے پھلکے لہجے میں پوچھ لینا ،ہو سکتا ہے کہ اُس کے پاس کوئی مضبوط دلیل ہو۔۔۔‘‘نابیہ کی بات پر اُسے کچھ تسلی ہوئی ۔
’’لیکن اگر اُس نے ایسا کوئی ذکر ہی نہ کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ کو ایک نئی فکر نے گھیرا۔
’’پھر تم خود ہی باتوں ہی باتوں میں اُس دن کے واقعے کا ذکر کر کے ایکسکیوز کر لینا۔۔۔‘‘نابیہ نے تحمل سے جواب دیا۔
’’لیکن نابیہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ کو ایک دم خیال آیا۔
’’بول دو میری امّاں بول دو،آج تو میرا سارا دماغ چٹ کر گئی ہو۔۔۔‘‘نابیہ کے چڑ کر بولنے پر وہ ایک دم شرمندہ سی ہوئی۔
’’یہ پلکیں جھپک جھپک کر ستّر کی دہائی کی ہیروئنوں کی طرح ادائیں مجھے بعد میں دِکھا لینا،پہلے وہ نادر خیال اپنے حلق سے نکال دو،جو تمہارے ذہن میں آیا ہے۔۔؟؟؟؟‘‘ نابیہ کے طنزیہ لہجے پر وہ زبردستی مسکرائی۔
’’میں سوچتی ہوں کہ اگر اُس نے مجھے کال ہی نہ کی تو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ کی بات پر نابیہ کا دماغ بھک کر کے اڑا۔یہ بات تو اُس نے سوچی ہی نہیں تھی۔اسے پہلی دفعہ معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔اس لیے وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اُسے دیکھتی رہ گئی۔
* * *
’’ڈاکٹر صاحب،آپ کو کوئی پریشانی ہے کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ جمیلہ مائی نے اُس دن ڈاکٹر خاور کو اپنی پیشانی مسلتے دیکھ کر کچھ جھجک کر پوچھا۔
’’بس امّاں جی پریشانیاں تو زندگی کا حصّہ ہیں ۔ان سے کٹ کر تھوڑی رہا جاتا ہے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور بمشکل مسکرائے۔آج صبح ہی سے انہیں سر میں درد تھا۔اس کے باوجود وہ اپنے فرائض پوری ذمے داری سے سر انجام دے رہے تھے۔
’’پتّر،وہ جو سات آسمانوں کے اوپر رہنے والی ذات ہے ناں،وہ اپنے بنائے ہوئے ایک پتّے سے بھی غافل نہیں ،پھر تونے کیسے سوچ لیا کہ وہ تیری پریشانی کا حل نہیں نکالے گا۔۔‘‘جمیلہ مائی نے بڑے پرسکون انداز سے ڈاکٹر خاور کو دیکھا۔جن کی پیشانی پر پڑا بل ایک دم ہی ہلکا ہوا۔
’’امّاں جی ،میں نے کب کہا کہ اللہ تعالی میری طرف سے غافل ہو گیا ہے۔۔۔‘‘ وہ اب کے کھل کے مسکرائے۔
’’اگر ایسی کوئی بات نہیں پتر فیر پریشان شکل بنا کر پھرنے کا کیا فائدہ۔جب سوہنے رب نے فکر،پریشانی اور غم کے گیڑے (دائرے)میں ڈالا ہے تو وہ نکالے گا بھی۔بس اللہ پر اعتبار رکھ۔‘‘ جمیلہ مائی نے میز پر سے تسبیح اٹھائی۔
’’بس ماں جی میرے لیے دعا کریں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور بڑے تھکے تھکے سے انداز کے ساتھ وہیں کرسی پر بیٹھ گئے۔
’’پتّر،تیری اللہ کے ساتھ کوئی لڑائی ہے کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘جمیلہ مائی کے سوال پر وہ ہکّا بکّا رہ گئے فورا ہی نفی میں سر ہلایا۔
’’جب اللہ سوہنے سے کوئی لڑائی نہیں تو پھر سچے دل سے خود اپنے لیے دعا کر،پترّ جو دکھ اور پریشانی تیرے حصّے میں آئی ہے۔اُسے تو جانتا ہے یا تیرا رب۔بھلا کوئی اور اتنے سچیّ دل سے تیرے لیے دعا کر سکتا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘جمیلہ مائی نے ڈاکٹر خاور کو لاجواب کیا۔
’’لیکن اماّں جی ایک مومن تو دوسرے مومن کے لیے دعا کر سکتا ہے ناں۔۔۔‘‘ انہوں نے یاد دلایا۔
’’میں نے کب انکار کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ جمیلہ مائی نے سادگی سے کہا۔’’لیکن جب انسان کو کوئی چوٹ لگتی ہے یا اُس کے جسم کا کوئی حصّہ ہلکا سا جل ہی جاتا ہے تو اگلا بندہ اس کی تکلیف کا اندازہ تو کرسکتا ہے لیکن ویسا محسوس تو نہیں کر سکتا ناں۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کے زندگی کو برتنے کے اپنے اصول تھے۔
’’کہا تو آپ نے ٹھیک ہے لیکن پھر بھی،دعا تو کوئی بھی کر سکتا ہے ناں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور بڑی دقت سے مسکرائے تو جمیلہ مائی نے بھی بات بدلنے کی غرض سے پوچھا۔
’’پتر یہ سکینہ کا اپریشن کب ہوگا۔۔۔؟؟؟؟‘‘جمیلہ مائی نے نسبتاً ہلکے لہجے میں پوچھا۔اس وقت سکینہ ادویات کی وجہ سے غنودگی میں تھی۔
’’انشاء اللہ بہت جلد۔آپ بس دعا کریں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے سکینہ کی فائل دوبارہ اٹھا لی ۔’’آپ اپنی بیٹی کے لیے تو دعا کرتی ہونگی ناں۔۔۔‘‘ ؟؟؟انہیں اچانک یاد آیا۔
’’ماں باپ کو تو دعا کے لیے کہنے کی لوڑ(ضرورت)ہی نہیں ہوتی۔ان کے دل سے دعا تو خود بخود نکلتی ہے۔‘‘ جمیلہ مائی نے سادگی سے کہا تو ڈاکٹر خاور نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’ ڈاکٹر صیب کوئی خطرے والی بات تو نئیں۔۔۔؟؟؟‘‘جمیلہ مائی نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’خطرے والی بات تو ہے ماں جی۔بس اللہ سے اچھی امید رکھیں۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے صاف گوئی سے کہا تو جمیلہ مائی کے چہرے پر فکرمندی کی ایک لہر بڑی سرعت سے پھیلی اور اگلے ہی لمحے غائب ہو گئی۔
’’ماں جی، سکینہ آپ کی اکلوتی اولاد ہے۔اللہ سے دعا کریں کہ وہ اسے زندگی اور صحت دے۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے کمرے میں پھیلی افسردگی کی تہہ کو ختم کرنے کے لیے کہا۔
’’پتّر دعا تو کرتی ہوں،آگے سوہنے رب کی مرضی۔وہ جو بہتر سمجھے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کے لہجے میں ہمیشہ کی طرح عاجزی کا ایک جہاں آباد تھا۔
’’اگر خدانخواستہ،ویسا نہ ہوا،جیسا ہم سب سوچ رہے ہیں پھر۔۔۔‘‘ ؟؟؟؟ ڈاکٹر خاور نے کسی ممکنہ اندیشے کے تحت پوچھا تو جمیلہ مائی کا چہرہ ایک لمحے کو تاریک ہوا۔
’’جو اللہ کی رضا،میں اُسی میں راضی۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کے مختصر جواب نے ڈاکٹر خاور کو بالکل ہی لاجواب کر دیا۔وہ سخت بے یقینی اور تعجب سے اپنے سامنے بیٹھی عام سی خاتون کو دیکھنے لگے۔سانولا چہرہ،آنکھوں کے نیچے حلقے،بالوں میں کہیں کہیں جھلکنے والی سفیدی،عام سی کاٹن کا سوٹ پہنے سفید دوپٹہ اوڑھے اس خاتون میں کوئی ایسی بات تھی جو اسے خاص بناتی تھی اور وہ اس کے دل کا سکون اور قناعت کی دولت تھی۔جس سے اللہ نے اُسے مالا مال کر رکھا تھا۔
’’اوہ مائی گاڈآپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے آخر،کیوں ذرا ذرا سی بات پر رونے لگتی ہیں۔۔۔‘‘وہ گاڑی اپنے گھر کے سامنے روک چکا تھا۔اب مصنوعی غصّے سے اُسے گھور رہا تھا۔
’’پتا نہیں۔۔۔‘‘عائشہ نے بازو کی پشت سے اپنی آنکھوں کو بیدردی سے رگڑا۔اسی لمحے گھر کا گیٹ کھلا ،اندر سے نکلنے والی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص نے بے یقین نظروں سے سڑک پر کھڑی گاڑی کو دیکھا۔گاڑی ان کی گاڑی کے پاس آ کر رکی۔
’’رامس ،ماما کی میڈیسن لے آئے ہو۔۔۔‘‘ ایک مانوس لہجہ عائشہ کی سماعتوں سے ٹکرایا۔اُس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر رامس کے دائیں جانب کھڑی گاڑی کو دیکھا ۔اُسے شاک سا لگا۔
’’اوہ بھائی آپ۔۔۔‘‘وہ ایک دم چونکا۔اُس نے گاڑی کے کھلے شیشے میں سے اپنے بالکل پاس کھڑی گاڑی میں بیٹھے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا تو ہلکا سا گھبرایا۔
’’جی لے آیا ہوں۔۔۔‘‘ اُس نے عجلت بھرے انداز میں جواب دیا۔جب کہ اس کی بات سنتے ہی وہ اپنی گاڑی زن کر کے نکال کر لے گئے۔ ان کی اس حرکت پر رامس اچھا خاصا شرمندہ ہوا۔
’’آئی ایم سور ی،بھائی کچھ جلدی میں تھے اس لیے میں نے آپ کا تعارف نہیں کروایا۔۔۔‘‘ اُس نے زبردستی مسکراتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا جو بالکل حق دق انداز میں گاڑی کو کسی تیز رفتارٹرین کی طرح آگے بڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
’’یہ تمہارے بھائی ہیں ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے اپنے خشک ہونٹوں کو چباتے ہوئے بمشکل پوچھا تو وہ پھیکے سے انداز میں مسکرا دیا۔’’اور بھابھی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے دل پر پتھر رکھ کر سوال کر ہی لیا۔
’’کون سی بھابھی بھئی ۔۔۔؟؟؟؟؟ ‘‘ اُس نے حیرانگی سے عائشہ کا پھیکا چہرہ دیکھا۔
’’تمہارے بھائی کی شادی نہیں ہوئی کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘عائشہ نے استعجابیہ لہجے میں پوچھا تو وہ بے اختیار ہنس پڑا۔
’’نہیں بھئی نہیں ، کس نے کہہ دیا۔؟ا نٹرنیشنل کنوارے ہیں بھائی ۔۔۔‘‘رامس کی بات پر عائشہ کا دل دھک کر کے رہ گیا۔اُس نے سخت بے یقینی سے رامس کا چہرہ دیکھا۔
’’لیکن آپ بھابھی کا کیوں پوچھ رہی ہیں ۔۔۔‘‘رامس نے بڑا عقلمندانہ سوال بڑے موقعے پر کیا تھا لیکن اُسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ سوال اُسے خاصا مہنگا پڑے گا۔عائشہ اس کے سوال کو سنتے ہی دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر جو رونا شروع ہوئی تو رامس کے ہاتھ پیر پھول گئے۔
* * *
درود و سلام
درود و سلام مدح نگار: سید عارف معین بلے یہ احکم الحاکمین کا حُکم ہے کہ ان پر درود بھیجو...