چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں ۔
کل پاکستان اور ، آج ہندوستان میں بڑی دھوم دھام سے جشن آزادی منایا گیا ۔ ہندوستان کی انگریزوں سے آزادی اور پاکستان کی دونوں سے ۔ کل میں آزادی پر ۲۹ سالہ ہندوستانی نوجوان عمر خالد کی تحریر جو ہندوستان کی اخبار ٹیلی گراف انڈیا میں چھپی ، پڑھ رہا تھا ۔ میں نے اس سے بہتر آزادی پر کوئ مضمون نہیں دیکھا ۔ عمر پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ ہیں اور اسٹوڈنٹ پولیٹکس میں بہت ایکٹو ہیں ۔ کئ دفعہ پاکستان آئے اور اس پاداش میں ہندوستان میں گرفتار بھی رہے ۔ کشمیریوں ، دالت اور آدیواسیوں کا مقدمہ عمر خالد بہت شاندار طریقہ سے لڑتا ہے ۔ عمر نے آزادی کو کارل مارکس کہ الفاظ میں زبردست بیان کیا ۔
“Freedom, as Karl Marx explained, is directly connected with those who control economic resources, political power and intellectual resources”
یہ ہے المیہ پاکستان اور ہندوستان کی آزادی کا ۔ جو لوگ یہ ریسورسز کنٹرول کر رہے ہیں ، جن کے پاس سیاسی طاقت ہے ، پیسہ اور intellect کے ریسورسز ہیں وہ بتائیں گے کہ آزادی کیا ہے ۔ کتنی دینی ہے کیوں دینی ہے کیونکہ ان کا کنٹرول اس سے وابستہ ہے ۔ جسے پنجابی میں کہتے ہیں “جیناں دے کر دانے اوناں دے کملے وی سیانے “ ہم لوگ تو صرف جھنڈا لگا کر اور قومی ترانہ گا کر ایک سال کے لیے خوش ہو جاتے ہیں اور اسی کو آزادی تصور کرتے ہیں ۔
عمر کہتا ہے کہ جب اسے جیل میں ڈالا گیا تو کہا گیا کہ آزادی کا مطلب لکھو ، کہتا ہے وہاں مجھے سچ لکھنے کی جرائت نہیں ہوئ اس فکر میں کہ پوری عمر جیل میں نہ پڑا رہوں ۔ کل کچھ پاکستانی لبرل مافیا نے نواز شریف کی بکتر بند گاڑی کی تصویر لگا کر اسے آزادی کا کنجر خانہ کہا جس کا میرا جواب تھا کہ دراصل اس ڈاکو کی گرفتاری آزادی کی پہلی کرن ہے ۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو ۔ آمین ۔
میں کل اپنے ایک پاکستانی دوست کہ ساتھ مینلو پارک مال سے نکل رہا تھا ، فرمانے لگا چوہان صاحب، آزادی یہاں محسوس ہو رہی ہے ، آج اگر پاکستان ہوتے ، ہر وقت خوف میں ، ہر وقت ایک عجیب سا دھڑکا ، کوئ ملبہ ہم پر نہ گرا دیا جائے ، کوئ پھندہ ہماری گردن میں نہ فٹ کر دیا جائے ۔ کوئ خودکش ہمارے پہلو میں نہ آ کے پھٹ جائے ۔
میں پوری دنیا گھوما ہوں ، جتنا آزاد امریکہ میں محسوس کیا کہیں نہیں ۔ آج تک کسی پولیس والے نے نہیں پوچھا میاں کدھر پھر رہے ہو، زرا ID تو دکھاؤ ۔ اسی آزادی نے ۲۵۰ سال میں امریکہ کو تاقیامت سپر پاور بنا دیا ۔ کارپوریشنز اور میڈیا مافیا کا تسلط ضرور ہے لیکن ماشاءاللہ ٹرمپ نے ان کو نیست و نابود کرنے کا آغاز کر دیا ہے ۔ میں عمر خالد سے Cortez کا سوچ رہا تھا ، جو عمر سے بھی ایک سال چھوٹی ہے ۔ عمر پیدا غلط جگہ ہوا، لیکن وہاں بھی بہت جرات سے آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ پاکستان میں عمران خان نے یوتھ کے ہمراہ ، اسی جنگ کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔ اسی ہفتہ اقتدار اور سیاسی طاقت انشاء اللہ ان کہ ہاتھ میں ہو گی جو حقیقت میں امانت اور بہت بڑی زمہ داری ہے ۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ اس جنگ میں استحصالی قوتوں یعنی منشا ، داؤد اور بیوریوکریسی کو ساتھ ملاتے ہیں اقتدار کو طول کی خاطر یا تباہ و برباد کر دیں گے ۲۲ کروڑ عوام کے لیے ۔ خان صاحب ، بہت لُوٹ لیا ان لوگوں نے ، اب اگر ان میں سے کسی آدمی کی آپ نے اسپورٹ کی عوام آپ کا جلوس نکال دیں گے ۔ آپ کہ پاس بھاگنے کے لیے کوئ راستہ نہیں ۔ آپ کو یہ ہر حال کرنا ہو گا بہت ہو گیا تماشا ۔ اب تو ہر ملک نے امیگریشن پر پابندی لگا دی ہے ۔ ۲۲ کروڑ نے پاکستان میں ہی جینا یا مرنا ہے ۔
کل ہی یہاں امریکہ میں مغربی ورجینیا کہ چار سپریم کورٹ ججز کو محض اس لیے گھر جانا پڑا کہ انہوں نے دفاتر پر خرچہ مقررہ حد سے زیادہ کیا ۔ یہی معاملہ بدمعاش جج ، شوکت صدیقی کا ہے جس کو سپریم کورٹ بہت ہلکا لے رہی ہے اور ‘برادر جج’ کر کہ مخاطب کیا ، جب اس نے بہت سارے ججز اور بیوریوکریٹز کی لسٹ منگوانے کا کہا ، جنہوں نے بھی کروڑوں روپیہ رہائیشوں پر لگایا ۔ ان سارے برادر ججوں اور بابؤں کی چھٹی کروانی ہو گی ۔ فرخ عرفان کا پناما پر مقدمہ ہی نہیں شروع کیا گیا ؟ نواز شریف جیل میں ہے ۔ جج کو بھی ببٹھائیں زرا بکتر بند گاڑی میں ۔ یہ کرنا ہو گا ، یہ قدرت کا فیصلہ ہے ۔ فضلو کے سارے ورد فیل ہو گئے ۔ شہباز شریف کہ سارے جادو دم توڑ گئے ۔ اللہ تعالی کی مخلوق جیتے گی ۔ میں ختم بھی عمر خالد کہ الفاظ سے کروں گا ۔
“Hundreds of miles away from these marches, from behind the bullet-proof glass screen at Delhi’s Red Fort, the Prime Minister would also share his thoughts on freedom. On this auspicious day tomorrow, azadi will be the central theme for both the hunter and the hunted.
Which of the two makes sense to us depends on where and how we align ourselves to power”
کیا سنہرے الفاظ میں اپنا مطلب سمجھایا کہ آزادی کل Hunter اور hunted دونوں کا مرکزی فوکس ہو گا ہم کس کہ ساتھ ہیں ہمار طاقت کہ ساتھ تعلق کہاں اور کیسے کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا ۔ عمر کے نزدیک یہ لوگ ‘thought crimes’ کہ مرتکب ہوتے رہیں گے اگر انصاف نہ ملا ، اور ان کی تعداد دن بدن بڑھتی رہے گی ۔
فیاض ہاشمی کی شہرہ آفاق غزل کہ الفاظ یاد آ گئے ، حقیقی آزادی پر ، جو time اور space کی قید سے بھی آزاد ہے ۔
آج جانے کی ضد نہ کرو
وقت کی قید میں زندگی ہے مگر
چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں
ان کو کھو کر مری جان جاں
عمر بھر نہ ترستے رہو
آج جانے کی ضد نہ کرو
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔