جنید ایک ذہین شخص تھا ۔لاابالی طبیعت کا مالک ،سنجیدگی اور مستقل مزاجی اس میں قطعی نہیں تھی ۔جیسے تیسے کرکے میڑک کا امتحان پاس کیا اور پیشہ تدریس سے جڑگیا۔۔گزرے وقتوں میں معلمی کے لیے میڑک کا سرٹیفکیٹ کافی ہوتا تھا ۔
ذہین اور باتوں ہونے کی وجہ سے افسران کی نظروں میں چڑھ گیا ۔۔محکمے کی سیاست اور افسران کے ہتھکنڈوں نے بہت سے تعلیمی اداروں کو برباد اور قوم و ملت کا نقصان کیا ہے ۔یہی نہیں جنید جیسے گوہرِ نایاب کو کو اپنا آلہ کار بنا کر ان پر شبخون مارا ہے ۔اس لاابالی شخصیت کے شب وروز افسران کے دفاتر اور ٹریڈ یونینوں کے آفسوں میں گزرنے لگے ۔
جنید کی تین اولادیں تھیں ۔گھر میں عدم توجہی کی بناپر دوسروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے کے بچے تعلیم سے بےبہرہ تھے ۔بچے اسکول تو جاتے لیکن اسکول میں پہنچتے ہیں یا نہیں !! اس کی خبر گیری کون کرتا ؟۔جنید کی بیوی ہاجرہ کچے کو پکا اور پھٹے ہوئے کو سلا ہوا کرنے میں اتنی مصروف رہتی کہ اسے کچھ ہوش ہی نہیں رہتا ۔آدھی رات کو اٹھ کر میونسپلٹی کے نل سے پانی بھرنا ۔۔چلچلاتی دھوپ میں لمبی قطار میں کھڑے ہو کر راشن اور مٹی کا تیل لانا ۔بار بار تقاضوں کے بعد گھر خرچ کی بھیک لینا ۔بجلی کا زمانہ ہونے کے باوجود اس جھونپڑپٹی کے کمرے نے لائٹ اور پنکھا نہیں دیکھا ۔کمرے کے ادھڑے پلستر نے رنگ وروغن نہیں دیکھا ۔ٹوٹی کھڑکی اور دروازے نے کڑی کونڈا نہیں دیکھا ۔یہ سب دیکھتا کون ؟۔جنید سورج نکلنے سے پہلے گھر سے نکل پڑتا اور دیر رات لوٹتا ۔۔۔بڑا بیٹا اساتذہ کی شفقت آمیز سختی کے باوجود چوتھی جماعت سے آگے نہ بڑھ سکا ۔۔دونوں چھوٹے لڑکے بار بار فیل ہونے کی وجہ سے دوم اور سوم جماعت میں جھولتے رہے ۔۔۔ایک وقت ایسا آئے کہ انہوں نے اسکول جانے سے انکار کردیا ۔۔۔باپ نے تو نہیں پوچھا مگر ماں نے باوجود انپڑھ ہونے کے وجہ پوچھ لی۔
،،تم اسکول جانے سے کیوں انکار کررہے ہو ؟،،
،،ہم کلاس میں سب سے دراز قد ہیں جبکہ تمام بچے ہم سے چھوٹے ۔۔۔تمام ہمیں حاجی صاحب چڑاتے ہیں ،،۔
،،سارا قصور تمہارا ہے ۔۔اگر تم بار بار فیل نہ ہوتے تو کوئی تمہیں حاجی صاحب کیوں کہتا ؟؟۔۔۔ٹھیک سے پڑھائی کرتے تو یہ نوبت نام آتی ۔،، ماں جو تعلیمی تقاضوں سے ناواقف تھی اس نے اپنی دانست میں بڑی بات کہدی تھی ۔
،،اماں ! کیسے پڑھائی کرتے ؟نہ ٹھیک سے کتابیں ہیں نہ تختی ۔۔ہم نے تو کاپی اور فاؤنٹین پین کی شکل بھی نہیں دیکھی۔،، چھوٹا بیٹا رقت آمیز لہجے میں بولا ۔
،،میں تمہارے ابا سے کہوں گی کہ یہ سب دلادیں ،، ماں جانتے ہوئے بھی کہ یہ جھوٹا وعدہ ہے ،مصلحت سمجھتے ہوئے اس نے کرلیا ۔وہ اتنے برسوں سے جنید کے ساتھ زندگی جو گزار رہی تھی ۔اب وہ اتنی بھی بھولی نہ تھی ۔
دونوں بچے وعدۂ فردا لئے سوگئے ۔جنید حسب معمول دیر رات گھر لوٹا ۔سرد کھچڑی زہر مار کی۔بیوی نے ڈرتے ڈرتے آج کی روداد سنائی ۔لاابالی ،بچوں کے مستقبل سے بے پروا۔۔جنید بجائے سنجیدگی سے لینے کے ،بھڑک اٹھا ،،تو میں کیا کروں ؟۔۔مہینے کی آخری تاریخ چل رہی ہے ۔کہاں سے لاؤں ؟؟۔۔چوری کروں ! ڈاکہ ڈالوں !!،،
آدھی رات گزر چکی ہے ۔اتنا چلا کیوں رہے ہو ۔پڑوسی سنیں گے تو کیا کہیں گے !!،، ہاجرہ کو بچوں کے حقوق سے زیادہ پڑوسیوں کے حقوق کا خیال تھا ۔
،،سنیں گے تو سننے دو ،،۔۔جنید لاپروائی سے بولا ۔
،،تو بچے کل سے اسکول نہیں جائیں گے ،،ہاجرہ اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکی۔،،
،،نہیں جاتے تو نہ جائیں ،ویسے بھی انہوں نے اب تک کیا تیر مار لیا !!،،
جنید کی آنکھیں اب بھی نہ کھلیں ۔ آنکھیں بند کرکے لمبا لمبا لیٹ گیا ۔
تینوں بچوں نے اسکول جانا بند کردیا ۔دن بھر میلے کچیلے کپڑوں میں آوارہ بچوں کے ساتھ گھومتے ۔سنیما ہال کے چکر لگاتے ۔محرم کی مجلسوں اور گنپتی کے پنڈال میں شرکت کرتے ۔دنیا سے دور تو ہو ہی گئے تھے دین کا دامن بھی ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا ۔زمانے کی گردش نے انہیں جوانی کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ۔
آج جنید کی سبکدوشی کی محفل سجی تھی ۔افسران اور یونین کے کارندے اس کی شان میں قصیدہ خوانی کررہے تھے ۔اس کے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے تھے ۔۔۔۔اس کی کاوشوں سے کتنے چراغ جلے!۔۔اس کی کوششوں سے کتنے نوجوانوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی !!۔۔اس کی سعی پیہم سے کتنے بے گھروں کو گھر ملے !!!۔۔اس کی جہد مسلسل سے کتنے بے کسوں کے گھر چولھے جلے۔۔۔۔
جنید یہ سب سن رہا تھا ۔۔مگر اس کا دھیان کہیں اور تھا ۔۔کہیں دور افق پر ۔۔۔اس کی نظروں کے سامنے تینوں ان پڑھ ،اجڈ،گنوار بچوں کے چہرے گھوم رہے تھے ۔۔بجلی سے عاری کرائے کا کمرہ گھوم رہا تھا ۔چلچلاتی دھوپ میں راشن کی قطار میں کھڑی بیوی گھوم رہی تھی ۔۔۔ اور وہ کھچڑی گھوم رہی تھی جسے برسوں سے بغیر چٹنی کے اس کے اہل خانہ کھا رہے تھے ۔۔۔نہیں !۔۔نہیں !!۔۔وہ دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر ہذیانی انداز میں چلایا ۔۔۔میں مجرم ہوں ۔۔۔میں وہ پارس ہوں جو دوسروں کو زر بنا کر خود پتھر رہا ۔۔۔۔وہ چراغ ہوں جو دوسروں پر روشنی لٹاتا رہا ۔۔۔پر اسی کے نیچے اندھیرا ہے ۔۔۔گہرا اندھیرا ۔۔۔چراغ تلے اندھیرا ۔۔۔
محفل میں سناٹا چھا گیا ۔۔۔ایک بوجھل سناٹا ۔۔۔!!