جیسے ہی امریکہ کے دور دراز علاقے زیمبیا میں سورج غروب ہوتا ہے آسمان کالا سیاہ پڑ جاتا ہے اور اس پر صرف پھڑپھڑاتے ہوئے پروں کا شور رہ جاتا ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق دس ملین بھورے رنگ کی فروٹ چمگادڑیں ہوا میں پھڑ پھڑا رہی ہوتی ہیں ۔ انکا نام فروٹ بیٹس انکی خوراک کی وجہ سے ہے یہ پھلوں کا رس پیتی ہیں۔
جانوروں کے رویوں کے میکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کے مطابق پرندوں کا یہ سب سے بڑا مجموعہ افریکی چمگادڑوں پر مشتمل ہے اور یہ دنیا میں سب سے بڑی ممالیہ ہجرت کہلاتی ہے ۔
تمام دن یہ چمگادڑیں دریائے مزولا کے گرد رہتی ہیں جو کہ کسانکا نیشنل پارک میں بہتا ہے جہاں چار سو ستر انواع کے پرندے اور سو سے زیادہ ممالیہ جانوروں کی اقسام موجود ہیں ۔ جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے یہ چمگادڑیں اپنی خوراک کے لئے جنگلی بیریز اور پھلوں کی تلاش میں نکلتی ہیں اور پچاس کلومیٹر تک پھیل جاتی ہیں اور صبح سویرے واپس اپنے گھونسلوں میں پہنچ جاتی ہیں۔
یہ نظارہ سال میں صرف ایک دفعہ اکتوبر اور دسمبر کے درمیان دکھائی دیتا ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ افریکی جنگلات میں کمی کی وجہ سے ان چمگادڑوں کی بقا کو خطرہ درپیش ہے ۔ جنگلات کو غیر قانونی کٹائی سے بچانے کے لئے کسانکا ٹرسٹ لوکل کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ نیشنل پارک کے گرد ساٹھ ہزار ہیکٹر تک کا رقبہ مقامی لوگوں کے نام منتقل ہو جائے ۔
چرچل مسونگا جو کہ جنگل کا رضاکار محافظ اور ایک کسان ہے اسکا کہنا ہے کہ اگر یہ درخت اور جنگل نہ رہے تو صرف ہم انسان ہی نہیں بلکہ تمام پرندوں اور جانوروں کا بھی نا قابل تلافی نقصان ہو گا ۔ کسانکا ٹرسٹ کے لوگ چاہتے ہیں کہ ارد گرد کا رقبہ ایسے مقامی لوگوں کو مل جائے جو کہ اپنے گھروں کے گرد جنگل کی تباہی پر افسردہ ہیں اور ممکن حد تک اس کو بچانے اور اسکی حفاظت کے کام انجام دیتے ہیں۔
ٹرسٹ کے ماحولیاتی تعلیم کے آفیسر نیامبی کلالوکا کا کہنا ہے کہ جنگلا ت کی بقا کو درختوں کی غیر قانونی کٹائی، پھلوں کی چوری ، غیر قانونی ماہی گیری اور غیر ضروری کاشتکاری جیسے خطرات کا سامنا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ کسانکا قومی پارک کے ارد گرد مقامی لوگ جن کا روزگار اسی جنگل سے وابستہ ہے ان کو جنگل کا کچھ حصہ دے کر اور اسی طرح کے دوسرے اقدامات سے ان خطرات کو کم کرنے کی کوشش کی جائے ۔
اگر وہ اپنے جنگل کی حفاظت کامیابی سے کرتے ہیں تو یہی ذمہ داری انکے بچوں میں منتقل ہو جائے گی اس کے لئے سب سے پہلے تو مقامی لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا اور انھیں یہ بتانا ہے کہ ایک زمین جو ان کے نام کر دی جائے گی اس کی حفاظت کرنا اور اس جنگل کو بچانا کتنا اہم ہے ۔
درختوں کی خطرناک حد تک کٹائی:
زیمبیا میں درختوں کی غیرمعمولی کٹائی ایک اہم مسئلہ ہے ۔ لوساکا میں موجود بین الاقوامی جنگلات کی ریسرچ کے ادارے کے تخمینے کے مطابق ملک سے ہر سال اڑھائی لاکھ سے تین لاکھ ہیکٹرز تک کا جنگلاتی رقبہ ایندھن کے لئے لکڑی اور کاشتکاری کے لئے خالی ہوتا جا رہا ہے ۔
زیمبیا میں چونکہ ہائیڈرو الیکٹرک پاور منصوبے کام کر رہے ہیں جن میں کمی کی وجہ سے ایندھن کی ضرورت بڑھ گئی جس سے ایک اندازے کے مطابق نوے فیصد آبادی کی توانائی کی ضروریات کو لکڑیوں کے ایندھن سے پورا کیا گیا ۔
آبادی میں اضافے اور کچھ علاقوں میں کاشتکاری رقبے کی زیادتی کی وجہ سے کسانکا جیسے جنگلات سے انسانی آبادی کا انخلاء ایک فطری عمل ہے ۔ جنگلات کی تباہی صرف غیر معمولی کٹائی سے نہیں بلکہ نئے درختوں کو نہ اگانے سے اور لوگوں کا جنگلات کے مختص کردہ رقبے کو کاشتکاری کے لئے استعمال کر لینے سے بھی ہو رہی ہے اور اس کی وجہ سے حیاتیاتی تنوع کا عمل متاثر ہو رہا ہے ۔ اس مقصد کے لئے عوام میں آگاہی پیدا کرنی ہے کہ صرف ایندھن اور کوئلہ حاصل کرنے کے علاوہ جنگلات سے فائدہ اٹھانے کے دوسرے طریقے کیا ہیں۔
افریقہ میں قدرتی وسائل کی حفاظت کرنے کے لئے قانون سازی اور اس کے اطلاق کے لئے حکومت کی جانب سے فنڈز کی غیر فراہمی اور غربت میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کا پھلوں اور لکڑی کی چوری کر کے اسکو بیچنے کی روک تھام جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اس مقصد کے لئے اگر ڈالر یا کواچا ( زیمبیا کی مقامی کرنسی ) کا مطالبہ کیا جائے تو پھر جنگلات کی بحالی جیسے اہم امور نا قابل توجہ رہ کر ماحول کی تباہی کا باعث بن جایا کرتے ہیں۔
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...