واہ! کیا خوبصورت منظر ہے مہمان نے میرے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی بے ساختہ کہا۔
اور یہ منظر کیا ہے، سمندر کی کھاڑی ہے جو میرے گھر کے سامنے سے گذرتی ہے۔ پانیوں کے کنارے ایک خوبصورت سیرگاہ بنی ہوئی ہے۔ گویا قدرت اور انسان نے مل کر یہ منظر تشکیل دیا ہے۔
لیکن دنیا اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔ اور دور کیوں جائیں میرے اپنے پاک وطن میں دنیا کے خوبصورت ترین نظارے موجود ہیں۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کا سلسلہ۔ برف سے ڈھکے پہاڑ، حد نظر تک سبزے کی چادر اوڑھے مرغزار۔ پہاڑوں سے گرتے جھرنے اور آبشار، جو آگے چل تندوتیز دریا میں بدل جاتے ہیں ، اور میدانوں میں پہنچ کر جن کا پاٹ چوڑا ہوجاتا ہے اور یہی دریا سبک خرامی سے بہنے لگتے ہیں۔ آگے چل کر یہی دریا سمندر سے مل جاتے ہیں۔ وہ سمندر جو سندھ سے لے کر بلوچستان کے ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔ کراچی کے خوبصورت ساحلوں کو تو دنیا جانتی ہے لیکن گوادر اور مکران میں اس سے کہیں خوبصورت ساحل موجود ہیں۔
یہ پہاڑ، یہ دریا، یہ سر سبز میدان، یہ صحرا، یہ ہرے بھرے درخت، یہ فضاؤں میں چہچہاتے پرندے، یہ میدانوں میں کلیلیں بھرتے مویشی، یہ دریاؤں اور سمندروں میں تیرتی رنگ برنگی مچھلیاں، یہ زمین یہ آسمان کس کے لئے بنائے گئے۔ یہ سورج، چاند ستارے، یہ ہوائیں یہ فضائیں کس کے لئے مسخر کیے گئے ۔
قدرت انسان کی دشمن نہیں۔ اس نے تو ہمیں بہت خوبصورت دنیا دی اور اس دنیا سے لطف اٹھانے کے لئے بہترین حالت میں انسان کی تخلیق کی۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ۔
لیکن یہ انسان ہے جو نہ صرف اس خوبصورت دنیا کا دشمن ہے بلکہ اپنے آپ کا دشمن ہے۔ اس کی ساری کوشش اپنے آپ کو برباد کرنے کی ہے۔ ہم ایک دوسرے کو تباہ کرنے میں اپنی بقا، اپنی زندگی سمجھتے ہیں۔ انسان سمجھتا ہے کہ دوسروں کو تباہ و برباد کرنے والا ہتھیار بنا کر وہ خود کو محفوظ کرلے گا۔
وہ جو اس دنیا کا خالق و مالک ہے وہ لیکن اس دنیا سے غافل نہیں۔ اس نے دنیا بنا کر یونہی نہیں چھوڑ دی۔ اس نے ہمارے حوالے کی کہ لو اس سے لطف اٹھاؤ، اسے بناؤ سجاؤ، اس کے حسن کو بڑھاؤ ، یہاں محبت کے ، امن کے آشتی کے گیت گاؤ۔ لیکن ہم نے اس دنیا میں چھینا جھپٹی شروع کردی، ایک دوسرے کا حق مارنا شروع کیا، دوسروں کا جینا حرام کرنے لگے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
ہم جیسے غریب اور بے سروسامان ممالک تو رو ہی رہے ہیں لیکن ہم سے کہیں زیادہ رونا پیٹنا وہاں مچا ہوا ہے جو دنیا پر حکومت کرتے رہے ہیں۔اپنے آپ کو بھوکا مار کر ہم تو ہتھیار جمع کر ہی رہے ہیں۔ یہ دنیا پر حکومتیں کرنے والے ہم سے کہیں زیادہ ہتھیار جمع کرنے کے بھوکے۔
کل ہی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے سب سے بڑے شہر میں ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ اس بھیانک وبا کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ہم تو ہسپتالوں، طبی سہولیات اور طبی عملے کی کمی کا رونا روتے ہی ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں لیکن انہیں کیا ہوا ؟
ویتنام کی وہ تصویریں شاید یہ بھول گئے جب آسمان بمبار طیاروں سے ٹڈی دل کی طرح چھپا ہوتا تھا۔ آج دواؤں کی کمی کا رونا رونے والے بھول گئے کہ کل عراق میں ہسپتال میں ہزاروں بچوں ، مریضوں اور بے گناہ انسانوں کو موت کی نیند سلا کر کتنے فخر سے اعلان کیا کرتے تھے کہ ہم نے سبق سکھا دیا۔
افغانستان میں بم تمہارے دشمن کی بجائے ایک ہنستی کھیلتی بارات پر گرتا ہے اور تم.کتنی بے رحمی سے کہتے تھے کہ یہ تو collateral damage ہے. گیہوں کے ساتھ گھن تو پستا ہی ہے.
اب قدرت کا کولیٹرل ڈیمیج بھی بھگتو.
دواؤں کی کمی کا رونا رونے والوں کے پاس نہ پہلی جنگ عظیم میں، نہ دوسری جنگ عظیم میں ، نہ ویتنام میں ، نہ عراق میں اور نہ افغانستان میں کبھی گولہ بارود کی کمی رہی۔
جان بچانے والے وینٹی لیٹر کی کمی کا شکوہ کرنے والے کتنے فخر سے ان تباہ کن ٹینکوں کی نمائش کرتے تھے جن کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔
طبی عملے کی کمی کی شکایت کرنے والوں کے پاس لڑنے والے سپاہیوں کی کبھی کمی نہ رہی۔ کوئی جنگ اس لیے نہیں رکی کہ کسی فوج کے پاس سپاہی ختم ہوگئے۔ آج اپنے شہروں میں طبی سہولیات بہم نہ پہچانے کی مجبوری بیان کرنے والے کیسے دور دراز علاقوں میں لڑا کرتے تھے۔ کہاں برطانیہ اور کہاں لیبیا میں واقع العالمین، کہاں امریکہ اور کہاں برما کا ریور کوائی، کہاں امریکہ اور کہاں ویتنام، عراق اور افغانستان۔ کیا کبھی ان بڑی طاقتوں نے مجبوری ظاہر کی کہ افغانستان جیسے دور دراز علاقوں میں ہم اپنے فوجی اور سازوسامان نہیں بھیج سکتے؟
اگر کبھی کسی دردمند اور سمجھدار انسان نے دوسرے ملکوں پر فوج کشی کی مخالفت کی تو صدر امریکہ، امریکی سینیٹ اور کانگریس سب مل کر ہمنوا ہوگئے کہ امن عالم کے لئے عراق، افغانستان، ایران اور کوریا کو نیست و نابود کرنا ضروری ہے۔
تمہارے پاس دوائیں نہیں ہیں لیکن ڈیزی کٹر بموں کی کمی نہیں۔ ڈیزی کٹر جو بموں کی ماں کہلاتا ہے، ایک بم جس کے بطن سے ہزار ہا بم برستے ہیں ۔
تمہارے پاس ایمبولینس کم ہوگئے ہیں، لیکن تباہ کن ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں اور فوجی ٹرکوں کی نہ ختم ہونے والی قطاریں اب بھی موجود ہیں۔
تمہارے پاس ڈاکٹر اور نرس نہیں، طبی عملہ بہت کم پڑ رہا ہے۔ لیکن دور دراز علاقوں میں بھیجنے کے لیے سپاہیوں کی کبھی کمی نہ رہی۔
تمہارے پاس ہسپتال ناکافی ہورہے ہیں، لیکن فوجی چھاؤنیوں ، ہیڈکوارٹرز کے لامتناہی سلسلے کبھی کم نہ ہوئے۔
جب ظلم اور ناانصافی بڑھ جاتی ہے تو پھر قدرت یونہی جوش میں آتی ہے اور انسان کو سبق سکھاتی ہے۔ انسان کو یاد دلاتی ہے کہ یہ دنیا کس نے بنائی ہے۔ اس کا مالک و خالق کون ہے۔
خدا کرے، خدا کرے کہ یہ آخری سبق ہو جو انسان سیکھے۔ اس سے زیادہ برداشت کی اب تاب نہیں۔