گا میرے منوا گاتا جا رے ۔
کچھ دنوں سے میں فلسفہ حیات ، روحانیت اور اخلاقیات پر بلاگ لکھ رہا ہوں، جو میری objective سوچ کی عکاسی کرتے ہیں ۔ قارئین کو شدید تشویش ہوئ کہ میں پاکستان اور اس کہ مسائل پر subjectively لکھنا ایک دم کیوں بند کر دیا ۔ عرض کر دوں کہ فیس بک پر آپ اب میرا صرف بلاگ پڑھا کریں گے مستقبل میں ، جو معاملات کا صرف objective analysis ہوا کرے گا ۔ ہاں میں ٹویٹر پر تمام ایسے دوسرے subjective matters پر ٹویٹ کرتا ہوں ۔ میرا ٹویٹر ہینڈل فولو کہ لیے، آپ نوٹ کر لیں mchohan@
کل میں اپنے ایک دوست سے یہاں امریکہ میں کہ رہا تھا کہ رات میں نے کوہ ہمالیہ سر کر لی ۔ وہ کہتا کیسے ؟ میں نے کہا رات مجھے ستارے ملنے آئے تھے ۔ اس نے کہا یار میں تمہیں ایک بات بتاؤں ، اس طرح کی بہکی ہوئ باتیں کرنے والوں کو امریکہ میں پاگل خانے جمع کروا دیا جاتا ہے ۔ اس سے پہلے بھی جب میں نے درختوں سے بغلگیر ہونے کا ایک بلاگ میں تزکرہ کیا تھا، تو لندن میں exile پر مقیم ایک پاکستانی دوست نے یہی جملہ کسا تھا ۔
میں آپ کو بتاؤں، یہ دنیا بزات خود ایک بہت بڑا پاگل خانہ ہے ۔ کوئ ایک فیصد پاگلوں نے باقی پاگلوں کو غلام بنایا ہوا ہے ۔ جو بغاوت کرتے ہیں ان کو پھر جیل یا جیل نما پاگل خانوں میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ وہی ایک فیصد فیصلہ کرتے ہیں ، کہ کون کم پاگل ہے کون زیادہ ۔ کل میں نے ٹویٹر پر نیو یارک پوسٹ کی ایک تحریر لگائ تھی جو امریکہ کے پاگل پن کے سین کی عکاسی کرتی ہے ۔ ضرور پڑھیے لنک کمینٹ میں دوں گا ۔
میرے ماضی کہ تین بہت پسندیدہ ، لکھاری بھی اپنے زمانے کہ بہت مشہور پاگل رہے ۔ ایک تو ہمارے اپنے سعادت حسن منٹو ، جن کو اب بڑا یاد کیا جا رہا ہے اور ان پر ڈرامہ اور فلمیں بنائ جا رہی ہیں اور باور کروایا جا رہا ہے کہ اس دور میں صرف وہی عقل رکھنے والا ایک شخص تھا ۔ یہ لوگ زمانے سے بہت آ گے ہوتے ہیں سوچ میں ۔ اسی لیے منٹو کو زندگی میں جیل اور پاگل خانہ دونوں بھگتنے پڑے ۔
دوسرے جین پال ساترے، جس نے نوبل انعام لٹریچر کا محض یہ کہ کر واپس کر دیا کہ وہ institution نہیں بننا چاہتا ۔ کسی کلب کا ممبر نہیں تھا ۔ بہت امیر خاندان سے تھا ۔ انتہا کی حد تک antisocial ۔
اور تیسرے ، حال ہی میں ۸۵ سال کی عمر میں وفات پانے والے ، وی ایس نئ پال ، وہ بھی لٹریچر میں نوبل انعام یافتہ رہے ۔ ان کی obituary پر ہندوستان کی مشہور شاعرہ اور لکھاری ، مینا کنڈاسمے ، کچھ یوں لکھتی ہیں ۔ ..
“A brilliant tormented artist , Naipaul was compulsively readable- even when one absolutely disagreed with his arguments. But as we marvel at his formidable body of work, we must also mourn the immense talent he squandered on hostility ..”
یہی المیہ میرا ہے ۔ لوگ میری تحریروں کو پسند بھی کرتے ہیں اور نفرت بھی ۔ پڑھتے ضرور ہیں ۔ ہر creative artist جزباتی ہوتا ہے ۔ یہ سارا passion کا کھیل ہے ۔ اسی لیے تو بغیر جزبات والے کو vegetable کہتے ہیں ۔ مجھے بہت لوگ یہی کہتے ہیں کہ میں غصہ اور دشمنی میں اپنا ٹیلنٹ ضائع کر جاتا ہوں ، لیکن میں اپنے دل اور دماغ کہ ہاتھوں مجبور ہوں ۔ میری بہترین creation ہی غصہ میں ہوتی ہے ۔
اصل میں زندگی وہی ہے جو اس گانے کے بول ہیں ، “گا میرے منوا، گاتا جا رے، ہم کا جانا ہے دور “ سارا فلسفہ ، ساری خدائ ، ساری روحانیت اسی سوچ کہ اردگرد گھومتی ہے ۔ یہ دیا اور طوفان فلم کا گانا ہے ۔ اس گانے کہ شاعر اور گانے والے رنگیلا خود تھے ۔ گاؤں میں بیل گاڑی جب ہوتی تھی تو نوجوان بڑے شوق سے یہ گانا گایا کرتے تھے ۔ حسن مجتبی اپنی ایک تحریر میں درست فرماتے ہیں کہ “رنگیلا نے اس روتے ہوئے دیس کو ہنسانے کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا” ۔ یہ زندگی ایک flow ہے جو میں کل کہ رہا تھا کوئ سانپ سے سیکھے ۔ میری ایک امریکی دوست فلوریڈا میں مقیم ، سانپوں کی بہت شوقین ہے ۔ مختلف قسم کہ سانپ رکھے بیٹھی ہے ، کہتی ہے میں ان سے پیار کرتی ہوں ، ہم کلام ہوتی ہوں ، یہی میرا جیون ہے ۔
میرا آپ سب کو مشورہ ہے کہ کہیں بھی آپ اٹک نہ جائیں ۔ مزہ میں رہیں ۔ پاگل ہونا تو انعام ہے ۔ ہر شخص یوُنیک ہے ، انوکھا ہے اور بہت پاگل ۔ اس پاگل پن کو اپنے آپ میں تلاش کریں اور اینجوائے کریں اور اتنی حسین و جمیل زندگی سے صیحیح معنوں میں لُطف اندوز ہوں ۔
بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔