اچانک گھنے بادلوں کا ایک طوفان امڈ آیا…آدھے چاند کی چاندنی ماند پڑنے لگی۔ ہوائوں نے جیسے رفتار پکڑلی، زوروں کی بجلی کڑکی، اور گھڑگھڑ کی آواز سے پورا شہر لرز اٹھا، جبھی شہر کے بیچوں بیچ واقع قبرستان،جسے لوگ مزار شہدا کے نام سے جانتے تھے،کی قبروں سے ایک ایک کرکے مردے باہر آنے لگے… وہ سب پاس پاس آ بیٹھے…اور ایک دوسرے سے اپنی رودادبیان کرنے لگے…اُن میں سے ایک بولا …’’ کیا بتائیںحال دل …جب بھی کوئی قبرستان میں داخل ہوتاہے، یہ امید جاگ جاتی ہے کہ اس کے فاتحہ پڑھنے سے شاید سکون ملے اور کچھ راحت نصیب ہو۔
مگر… ‘‘
’’مگرکیا‘‘…دوسری لاش نے پوچھا ۔
’’مگر…مگر… مگر ــ ‘ ‘ اُس کی زبان جیسے لڑکھڑا رہی ہو۔
’’مگر کیا …کیا… کیا سوچ رہے ہو ؟
غفار کی آنکھ کھل گئی شیخ جی اُسے جھنجھوڑ رہے تھے۔ غفار کا ماتھا پسینے سے تر بتر تھا۔ اس نے شیخ جی کی طرف دیکھا اور ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔ کچھ کہہ نہ پایا۔شیخ جی نے پوچھا …
’’کیوں غفار …آج پھر وہی خواب دیکھ رہے تھے کیا؟‘‘…
غفار اُس دوران خود کو سنبھال چکاتھا۔ بولا
…’’ہاں شیخ جی …ہاں…آج میںیہ جاننے میں کامیاب ہوجاتاکہ ’’مگر ‘‘کے بعد وہ لاش کیاکہتی ہے…مگر آپ نے مجھےجگادیا‘‘
اُفسوس! … پھر تو میں نے تمہیں جگاکر بہت غلط کیا…تمہیں دیکھ کرمجھے یہ لگا تھا کہ تم پھر کوئی خواب دیکھ رہے ہو… تمہارے ماتھے پر پسینہ اور چہرے پر عجب تاثرات دیکھ کر سچ پوچھو تو میں گھبراگیا…معاف کرنا میں نے تمہارےخواب میں خلل ڈالا‘‘
اتنا کہہ کر شیخ جی چلے گئے۔غفار اپنی کرسی سے اُٹھا۔۔۔مزار کی طرف نظریں دو ڑائیں اور ایک لمحہ کیلئے اس کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر گھومنے لگا۔
مزار شہدا کی وہ کئی برس سے چوکیداری کرتا آیا تھا۔ اُس کے ماں باپ نہیں تھے۔گھربار سوتیلے بھائیوں نے ہڑپ لیا تھا… تنگ دستی کی وجہ سے وہ شادی بھی نہکرسکا۔ جوانی جستجوِئے معاش میں بیت گئی اور بڑھاپے نے اس مزار کاچوکیدار بنا دیا… اب اپنی دھن میں غفارپاس والی مسجد میںحمام گرم کرتا…اس کے لئے چلانے کی لکڑی تیار کرکے رکھتااور …کبھی کبھار اذان دے دیتا۔مگر دلچسپ تھا اس کا خواب… جو ہربار ’’مگر ‘‘کی تان پر ٹوٹ جاتا ۔اور ہر سننے والا تجسس میں گرفتار رہتا…
غفار کی نیک دلی اوراچھے اخلاق کی وجہ سے کوئی اس کی بات کو یونہی نہ لیتا… سب جانتے تھے کہ یہ جھوٹ نہیں ہوسکتا…اور سب کےیقین کو شیخ جی کے اعتبار نے پختہ کردیاتھا…
شیخ جی اُسی مسجد کے امام تھے جسکا حمام گرم کرنے اور بالن مہیا کرنے کا کام غفار کیاکرتاتھا…شیخ جی نرم طبیعت اور گہری فکر رکھتے تھے…غفار کے ساتھ انکو دلی محبت تھی۔ وہ اس کی کئی ضرورتیں بھی پوری کیاکرتے تھے۔
’’کچھ ہفتوں بعد یوم شہدا ہے…‘‘شیخ جی سے یہ سنتے ہی غفار چوکنّاہوگیا… اور ہمیشہ کی طرح کچھ دنوں کیلئے کہیں اور اپنا مسکن ڈھونڈنے کی سوچنے لگا… کیونکہ ہربار یوم شہدا پر کڑی پابندی لگ جاتی اور کسی کو وہاں کا رُخ نہ کرنے دیا جاتا۔ حکومت سیکورٹی اِشو کی آڑ میں سخت ہوجاتی ۔یوم شہدا گذرنے کے بعد جب غفار اپنے معمول کے کام پر آگیا، تو شیخ جی نے دفعتاً اسے دیکھ کر پوچھا…
’’ کیوں غفار میاں خواب پورا ہواکہ نہیں…?‘‘
’’جی نہیں… شیخ جی…‘‘
’’کب کب وقت ہوتاہے خوابوں کی دنیاکا…?‘‘ شیخ جی نے مسکراتے ہوئےپوچھا۔
غالباً انکے پاس غفار کے ساتھ بات کرنے کا کوئی اور موضوع نہ تھا۔
’’شیخ جی …کبھی کبھی ہفتے میں ایک بار دیکھتاہوں…اور کبھی کبھی تو مہینوں تک نہیں دیکھ پاتا…‘‘
غفار نے بھولیں سے جواب دیا… غفارکا ایسابھولاروپ دیکھ کر شیخ جی نے بات کو دوسرا رُخ دیناچاہا…
’’اچھا یہ بتائو کبھی اور کوئی خواب نہیں دیکھتے تم…?‘‘
نا شیخ جی !بس یہی خواب…اور مسلسل ایک ہی جگہ پر آکر رُک جانا… مجھے بہت بے قرار کردیتاہے…
’’شیخ جی کیاخواب سچ ہوتے ہیں؟‘‘ غفار کے لہجے میں فکر تھی…
شیخ جی بولے۔’’بیٹا خواب کبھی اللہ کی طرف سے اپنے نیک بندوں کے لئے الہام بھی ہوسکتا ہے‘‘
اور پھر شیخ جی نے اُن خوابوں کا ذکر کیا… جو حضرت یعقوب…ؑ اور حضرتیوسفؑ نے دیکھے تھے۔یہ سب دلیلیں سن کر غفار سوچ میں پڑگیا… اور یک لخت بولا …
’’پر شیخ جی … جس کھٹال سے میں حمام کا بالن لاتا ہوں…وہ تو کہتاہے کہ خواب سچ نہیں ہوتے… محض انسانی ذہن کافتور ہوتے ہیں…جو انسان کے اردگرد رونما ہوئے واقعات کا نقشبن کر گھومتے رہتے ہیںاور خواب بن جاتے ہیں‘‘
’’اچھا…‘‘
شیخ جی نے مسکرادیا ۔
’’ہاں شیخ جی …اور وہ کہتاہے کہ تم ہر وقت مزار کے ارد گرد ہوتے ہو۔اس لئے وہی منظر تمہارے ذہن میں گھومتے ہیں۔‘‘
شیخ جی نے ا س کا کوئی جواب نہ دیا…اور اتنا ہی کہہ کر وہاں سے چلے گئے کہ
’’ ہونہ ہو ایک ہی خواب کا مسلسل آنا کسی بات کا عندیہ ہے‘‘۔اور اب شیخ جی کا یہ مختصر جملہ غفارکو اور بے قرار کرگیا… اب غفار آئے دنخواب دیکھنے کی کوشش کرتا… مگر خواب آنا اسکے اختیارمیں کہاں… اگر ہوتا تو وہ کب کا پتہ لگا لیتا…کہ
’’مگر‘‘
کے آگے کیاہے…‘‘
کافی عرصہ بیت گیاغفار یونہی حمام کا بالن لاتا… حمام گرم کرتا…اور مزار پر چوکیداری کرتا…اور ایک دفعہ پھر یوم شہدا آپہنچا
…حسب روایت اس نے کہیں اور اپنا ڈیرہ جمالیا…یوم شہدا گذرجانے کے بعد اب کی بار غفار واپس نہ آیا…اسکے یوں اچانک غائب ہونے پر یوں تو کسی کو فرق نہ پڑا… مگرمسجد میں مقامی نمازی حمام گرم نہ ہونے کی وجہ سے اُسکی کمی محسوس کرنے لگے… اور شیخ جی بھی…شیخ جی کو اُس سے کافی الفت ہوگئی تھی
…اب وہ غفار ایک معمولی غفار نہ تھا…بلکہ اسکی کمی محسوس کی جارہی تھی…’’اللہ بھلا کرے غفار کا…حما م کے بالن کی کوئی فکر ہی نہ ہوا کرتی تھی۔‘‘
شیخ جی نے نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے مؤذن سے تشویش ظاہر کی…اب چونکہ غفار کے چلے جانے سے مؤذن، جو کبھی غفار کو اپنی جگہ رکھ کر چھٹی کرلیاکرتاتھا، اس کو بھی اسکی کمی محسوس ہورہی تھی… وہ بولا…۔
’’ہاں شیخ جی …اللہ بھلا کرے اُس کا، پتہ نہیں کہاں ہوگا… کوئی پتہ خبر ہی بھیجوا دیتا‘‘
شیخ جی نے سر ہلایا…یوں مغرب کا وقت آپہنچا…
نماز کے بعد مسجد کی تعلیم سے فارغ ہوکر …شیخ جی نے مزار شہدا کی طرف نظر دوڑائی…اور چونک پڑا کیونکہ وہاں انہیں غفار کی کرسی نظر آئی، جس پر کوئی شخصبیٹھا تھا ۔
’’غفار‘‘…شیخ جی کے منہ سے بے ساختہ نکلا…شیخ جی کے قدم اسکی طرف بڑھنے لگے…پاس پہنچااور دیکھا تو وہ واقعی غفار تھا…غفار کے چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ آج پھرخواب دیکھ رہاہے…
شیخ جی نے اسے جگانا تو چاہا مگرکچھ سوچ کر رُ ک گیا… اور ٹکٹکی باندھے اسے دیکھنے لگے…غفار کے ماتھے پر پسینہ آنا…چہرے پر جھریاں بندھنا…کبھی ناک سکڑ جانا تو کبھی پھُول جانا…
یہ سب شیخ جی کو بیقر ار کر رہا تھا…کہ اچانک غفار چلاکر اٹھ کھڑاہوا…اسکی آنکھوں سے آنسو کی دھار بہنے لگی۔
شیخ جی ڈر گئے اور غفار کی طرف لپکے…مگر غفار بے ساختہ بولا
’’ رُک جائیں … جہاں ہیں …وہیں پہ رُک جائیں…‘‘
اُس پر عجب کیفیت طاری تھی …لڑکھڑاتا ہوا شیخ جی کے قریب آیا…
’’شیخ جی …مجھے میرے
’مگر ‘ کا جواب مل گیا … جواب مل گیا شیخ جی……‘‘
اور زوروں سے رونے لگا… پھر روتے روتے پوچھنے لگا’شیخ جی جسم مرجاتا ہے نا ‘‘
’’ہاں ‘‘
’’اور روح زندہ رہ جاتی ہے ‘‘
’’ ہاں …ہاں ‘‘ شیخ جی اُسے سنبھالتے ہوئے جواب دیتے گئے…
غفار بولا’’ اگر جسم سے کھلواڑ برداشت نہیں ہوتا… تو روح سے کھلواڑ کیسے برداشت ہو گا شیخ جی…… ــّآا؎؎ـ’’ شیخ جی یہ سب روحیں پناہ چاہتی ہے …اُن سے خیانت کرنے والوں سے……پناہ چاہتی ہیں …یہ جملہ اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا اور شیخ جی سے زور سے لپٹ گیا۔
شیخ جی نے اسے سہلانے کی کوشش کی… مگر دیکھتے ہی دیکھتے غفار کا جسم ٹھنڈا ہوگیا… اور اسی مزار شہداء کے ایک کونے میں غفار بھی مردوں کا سنگھی بن گیا ۔