آج بہاولپور کے ممتاز ادیب ، صحافی، اور محقق حضرت شہاب دہلوی کی 28 ویں برسی ہے۔ ان کا اصل نام سید مسعود حسن رضوی تھا۔ کئی بزرگ قیام پاکستان سے عشروں پہلے دہلی سے بہاولپور آکر ریاست میں معزز عہدوں پر فائز تھے۔ پاکستان بنا تو وہ سیدھے بہاولپور چلے آئے اور پھر اپنے اس نئے وطن کی خدمت کا حق ادا کردیا ۔
وہ دہلی کے ایک علمی خانوادے میں20 اکتوبر 1922 کو پیدا ہوئے. والد اور تایا محمودالحسن اثر شاعروادیب تھے دہلی سے خیرخواہ عالم کے نام سے اخبار بھی شائع کرتے تھے اور مطبع رضوی کے نام سے اشاعتی ادارہ بھی قائم تھا. شہاب دہلوی نے بھی اپنی عملی زندگی کا آغاز دہلی سے ماہنامہ الہام کے اجراء سے کیا، قیام پاکستان کے بعد آپ دہلی سے بہاول پور آگئے جہاں اُن کے ننھیالی بزرگ پہلے سے آباد تھے اور ریاست میں علمی ادبی ماحول کو پروان چڑھانے میں سرگرم تھے.
سید شہاب دہلوی نے بہاول پور آمد کے بعد نہ صرف الہام کا دوبارہ اجراء کیا بلکہ یہاں کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا. شعر و ادب کی ترقی کے ساتھہ ساتھہ انھوں نے علاقے کی تہذیب و ثقافت اور زبان و تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دیں اور علمی ادبی و تحقیقی میدان میں تن تنہا وہ کام سرانجام دیے جو بڑے بڑے اداروں کے کرنے کے تھے.
شہاب دہلوی نے ساری زندگی اس خطہ بہاول پور کے دینی و روحانی تشخص کو اُجاگر کیا اور اردو زبان و ادب کی ترویج و ارتقاء کی عملی کوششوں کے ساتھہ ساتھہ علمی سطح پر اس علاقے کی زبان و ادب کی تاریخ مرتب کی اور مختلف موضوعات پر درجنوں کتب لکھہ کر ملکی سطح پر بہاول پور کو روشناس کرایا. ان میں مشاہیر بہاولپور، اولیائے بہاولپور. خواجہ غلام فرید.. حیات و شاعری، خطہ پاک اوچ شریف اور وادی جمنا سے وادی ہاکڑہ تک شامل ہیں . ان کے شعری مجموعے نقوش شہاب، گل و سنگ، اور موج نور کے نام سے شائع ہوئے.
بطور محقق شہاب کا اسلوب سلیس اور رواں ہے. انھوں نے ایسے ایسے موضوعات پر تحقیقی کام کیا جس کو پہلے کسی نے چھوا نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ وہ بہاول پور کی علمی ادبی اور سیاسی تاریخ کے مستند مؤرخ قرار پائے ہیں.بلا شبہ شہاب دہلوی سے بڑھ کر اس خطہ کے تشخص کی نشرواشاعت کسی اور نے نہیں کی اور اس خطہ میں جدید نقطہ نگاہ سے علم و ادب کی جو خدمت ہوئی اُس کے بانی شہاب دہلوی ہیں.اردو اکیڈمی اور الزبیر ان کی یادگار ہیں۔ ان کے مرتب کردہ الزبیر کے خاص نمبروں کو اہل علم نے بہت سراہا.
شہاب دہلوی نے 29 اگست 1990 کو وفات پائی اور بہاولپور کے قبرستان پیر حامد عقب شیر باغ میں آسودہ خاک ہیں.
ان کے کچھہ اشعار
ہم جو موضوع درد پر بولے
شہر کے شہر گھر کے گھر بولے
ہم کو مجبور عرض دل نہ کرو
بات بڑھ جائے گی اگر بولے
اہل حق کب کسی سے رُکتے ہیں
بولنے والے دار پر بولے
اُن کے تیور چڑھے ہوئے ہیں شہاب
جو بھی بولے وہ سوچ کر بولے
وفا کا کال ہے، ہر شخص ہے تہی داماں
کہاں لگائے صدا، کس سے آدمی مانگے
میرا سوال ہے اُس سے، جو سب کو دیتا ہے
شہاب مانگنے والوں سے، کیا کوئی مانگے
زندگی بھر کی قلمکاری کا یہ دیں گے صلہ
نام میرا گھر کی تختی پہ لکھا رہ جائے گا
پڑھ کے افسانے کریں گے یاد ہم کو اہل دل
بس کتابوں میں ہمارا تذکرہ رہ جائے گا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“