لاہور کے حالیہ دورے کے دوران ایک روز ہم اپنے دوست کے ساتھ شاہدرہ سے لاہور کی طرف جا رہے تھے۔ راوی کے پُل سے ذرا پہلے گاڑی کے ٹائر پھٹنے کی آواز آئی، اس کے ساتھ ہی ہماری گاڑی لڑکھڑانے لگی تو احساس ہوا کہ ہماری ہی گاڑی کا ٹائر برسٹ ہوا ہے۔ میرے دوست نے گاڑی کو سڑک کے کنارے کی طرف روکا اور پھر ہم دونوں گاڑی سے نکلے۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق دوست کو مخاطب کرتے ہوئے آواز لگائی کہ میاں Spare Tyre بھی ہے۔ اُس نے بتایا ہے تو، لیکن کچھ اچھی حالت میں نہیں ہے۔ بہرحال ہم لوگوں نے جیسے تیسے کر کے گاڑی کا ٹائر تبدیل کیا۔ Spare Tyre کی حالت واقعی میں دگرگوں تھی۔ میں نے دوست کو کہا کہ یار گاڑی میں آج ہی نئے ٹائر ڈلوا لو۔ جس پر وہ بولا کہ ہاں ہاں راستے میں نیلا گنبد پر ٹائروں کی مارکیٹ پڑے گی، جہاں سے نئے ٹائر ڈلواتے ہوئے ہی گھر کی طرف چلیں گے۔ چنانچہ ہم مال روڈ پر پہنچ کر نیلے گُنبد کی طرف جانے والی سڑک پر مُڑ گئے۔ سڑک کے دونوں جانب نئے ٹائروں کی مارکیٹ تھی۔ ایک دکان کے سامنے دوست نے گاڑی روکی اور وہ دکاندار سے مصروفِ گفتگو ہو گیا اور اپنی عادت کے مطابق دکاندار سے بھاؤ تاؤ کرنے لگا، اس اثناء
میں، میں گاڑی سے نکل کر اطراف کے ماحول کا جائزہ لینے لگا کہ اچانک میری نظر ٹائر کی ایک بند دکان کے ساتھ آویزاں "پاک ٹی ہاؤس" کے بورڈ پر پڑی۔ بورڈ کی عبارت اچھی طرح سے پڑھنے کے بعد میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ یار کیا یہ وہی مشہورِ عالم پاک ٹی ہاؤس ہے جو کسی زمانے میں ادیبوں اور شاعروں کی آماجگاہ ہوا کرتی تھی۔۔۔؟ دوست نے اثبات میں سر ہلایا اور میری نظروں کے سامنے اچانک منٹو، فیض، امرتا، ساحر، اشفاق احمد، انتظار حسین، احمد ندیم قاسمی، اے حمید، ناصر کاظمی وغیرہ کے چہرے گھومنے لگے۔ سائنس کی ایک تھیوری یہ ہے کہ ہم جو کچھ بولتے ہیں وہ فضاؤں میں محفوظ ہو جاتا ہے اور کبھی نہ کبھی ایسے آلات بنا لیے جائیں گے جو ان آوازوں کو دوبارہ سُنوانے کے قابل ہوں گے۔ میرے خیال میں ایسی مشین اگر پاک ٹی ہاؤس میں فِٹ کر دی جائے تو کیسے کیسے نادرِ روزگار افکار و خیالات اور تخلیقی کاوشیں منطرِ عام پر آسکتی ہیں۔
جب کبھی میں "پاک ٹی ہاؤس" کے متعلق سوچتا ہوں یا پڑھتا ہوں تو میرے ذہن میں تقسیمِ ہند سے قبل اس کے مالکان بوٹا سنگھ، سرتیج سنگھ بھلّا، قیصر سنگھ بھلّا اور پھر تقسیمِ ہند کے بعد اس "ٹی ہاؤس" کے مالک سراج الدین احمد کی خیالی تصاویر آجاتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ دو سگے بھائی سرتیج اور قیصر نہ صرف اس "ٹی ہاؤس" کے مالک تھے جو اُس زمانے میں "انڈیا ٹی ہاؤس" کہلاتا تھا بلکہ اس کے بالکل سامنے واقع "انڈیا کافی ہاؤس" بھی ان دونوں بھائیوں کی ہی ملکیت تھا۔ "انڈیا کافی ہاؤس" کی جگہ اب ایک بینک قائم ہو چکا ہے۔
پاکستان کے مشہور ادیب "اے حمید" ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
"سراج الدین احمد نے انہیں ایک دفعہ بتایا کہ میں اپنے "پاک ٹی ہاؤس" کے کاونٹر پر بیٹھا ہوا تھا تو میں نے دیکھا کہ سڑک کی دوسری جانب ایک سکھ شخص کھڑا ہے اور وہ مسلسل میری طرف دیکھ رہا ہے۔ میں اپنی نشست سے اٹھ کر دروازے تک گیا اور اُس شخص کو آواز دے کر ٹی ہاؤس کے اندر آنے کی دعوت دی۔ وہ شخص اندر آگیا، ابتدائی کلمات کے بعد اُس نے بتایا کہ سن 1947 تک میں اور میرا بھائی نہ صرف اس ٹی ہاؤس کے مالک تھے بلکہ اس کے سامنے والی عمارت جو کہ "انڈیا کافی ہاؤس" کہلاتی تھی وہ بھی ہماری ملکیت تھی۔ جہاں پر اس وقت مجھے ایک بینک نظر آرہا ہے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ 1947 میں ہم اپنے خاندان کے ساتھ بڑی مشکل سے جانیں بچا کر یہاں سے دہلی چلے گئے تھے اور پھر وہاں پر ہم نے اسی طرح کے دو ریسٹورنٹ بنا لیے ہیں"
آہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔۔۔ انڈیا ٹی ہاؤس سے پاک ٹی ہاؤس بننے تک کا یہ سفر تاریخی تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ المناک بھی ہے۔ انڈیا ٹی ہاؤس کا آغاز 1940 میں بوٹا سنگھ نے لاہور کی مال روڈ پر واقع الفریڈ بلڈنگ میں کیا تھا۔ یہ بلڈنگ وائی" ایم سی اے" کی ملکیت تھی۔ 1950 تک یہ انڈیا ٹی ہاؤس ہی کہلاتا تھا، لیکن پھر 1950 کے اوائل میں اس کا نام تبدیل کر کے "پاک ٹی ہاؤس" کر دیا گیا اور اُس وقت سے لے کر اب تک یہ پاک ٹی ہاؤس کے نام سے ہی معروف ہے۔
پاک ٹی ہاؤس کے سابقہ مالک جناب زاہد حسین صاحب
حال ہی میں یوسف حسن نامی ایک شخص کی مختصر سی تحریر میری نظر سے گزری جو اپنے آپ کو زاہد حسین کا بیٹا بتاتے ہیں۔ اپنی اُس تحریر میں وہ ادیبوں و شاعروں سے خاصے ناراض معلوم ہوتے ہیں اور اپنے خاندان کی معاشی پریشانیوں کا ذمہ دار اُن ادیبوں و شاعروں کو سمجھتے ہیں جو پچاس سے ستّر کی دہائی تک پاک ٹی ہاؤس میں مستقل ڈیرہ جمائے رہتے تھے اور اُس زمانے میں پاک ٹی ہاؤس کے مالک سراج الدین احمد اپنے نفع و نقصان کی پرواہ کیے بغیر ہر آنے جانے والے گاہک سے بڑی نرمی اور فیاضی سے پیش آتے تھے۔ سراج الدین احمد بڑے وضعدار آدمی تھے، ان کی یہ وضعداری ان کے بعد ان کے بیٹے جناب زاہد حسین نے بھی بخوبی نبھائی۔ وضعداری کی مثال یہی ہے کہ پاک ٹی ہاؤس میں جو بھی آتا تھا اُس کے پاس پیسے ہوں یا نہ ہوں وہ وہاں کی چائے اور سگریٹوں سے ضرور لطف اندوز ہو سکتا تھا۔ یہ ایک کُھلی حقیقت ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر ستّر کی دہائی تک کا زمانہ گلیمر کا زمانہ نہیں تھا۔ معاشرے میں سادگی کا عنصر نمایاں ہوا کرتا تھا۔ اُس زمانے کے ادیبوں و شاعروں کو عام طور پر معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ ان تخلیقی لوگوں کا کوئی مستقل ذریعہ روزگار نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کوئی غزل، نظم یا افسانہ لکھ دیا اور وہ کسی رسالے یا اخبار کے مالک نے چھاپ دیا تو لکھنے والے کو کچھ پیسے مل جایا کرتے تھے۔ اُن دنوں بس چند مخصوص لکھاری ہی معاشی طور پر مستحکم تھے۔ جیسا کہ فیض احمد فیض، اے حمید، اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین وغیرہ اور جن ادیبوں اور شاعروں کی جیب خالی ہوتی تھی ان سے بھی پاک ٹی ہاؤس کے مالکان ہر دور میں انتہائی فراخدلی سے پیش آتے رہے۔
یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ کسی بھی کاروبار کو چلانے کے لیے بنیادی طور پر پیسوں کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے اور بدقسمتی سے پاک ٹی ہاؤس کے مالکان تین دہائیوں تک کم آمدنی کی وجہ سے اپنا یہ کاروبار بند کرنے یا اسے تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یہی تلخی مجھے یوسف حسن کی تحریر میں نظر آئی۔ کافی کوششوں کے بعد میں یوسف حسن صاحب سے سوشل میڈیا پر رابطہ کرنے میں کامیاب تو ہوا لیکن انہوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ مزیدبرآں ہم یوسف حسن کے والد زاہد حسین کا فیس بُک پیج ڈھونڈنے میں بھی کامیاب ہو گئے اور ہم نے ان کے فیس بُک پیج پر ان سے بات کرنے کی خواہش کا پیغام بھی بھیجا لیکن تاحال ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ جس کا مجھے بیحد افسوس ہے۔
پاک ٹی ہاؤس کو فروری 2017 میں سٹی گورنمنٹ لاہور نے زاہد حسین کے قبضے سے خالی کروا لیا تھا لیکن پھر انہوں نے کورٹ سے اسٹے آرڈر لے لیا جس میں کہا گیا کہ میرا "وائی ایم سی اے" سے لیز پر ایگریمنٹ ہے۔ کورٹ کی کئی پیشیاں بھگتنے کے بعد جون 2017 میں ایک عدالتی حکم کے ذریعے اسٹے آرڈر کو ختم کر کے سٹی گورنمنٹ کے حق، میں فیصلہ دے دیا گیا۔ اس کے بعد سٹی گورنمنٹ کی طرف سے داتا گنج بخش کے ٹاؤن ایدمنسٹریٹر نے "وائی ایم سی اے" کے ساتھ اس جگہ کا گیارہ مہینے کا لیز پر ہی ایگریمنٹ کر لیا جو غیرمعینہ مدت تک بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق یہاں کا کرایہ ماہانہ دس ہزار روپے مقرر ہوا۔
بہرحال ہمارے لیے یہ تلخ حقیقت ہے کہ ایک مڈل کلاس تجارت پیشہ آدمی کا کاروبار ہمارے مُلک کے عظیم فنکاروں، تخلیق کاروں، ادیبوں اور شاعروں کی وجہ سے ڈوبتا چلا گیا اور آخر میں جب وہ بیچارہ فطری انداز میں اُسی مقام پر کوئی دوسرا کاروبار شروع کرنے لگا تو اُسے ایسا کرنے سے معاشرے کے اس حساس طبقے نے روک دیا۔
میرے خیال "پاک ٹی ہاؤس" کا Revival منٹو کے کسی افسانے کا ایک دردناک انجام ہے جس میں ایک خاندان نے نسل در نسل لاہور کی علمی، ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کو جلا بخشی تھی جس کے عوض نہ صرف ان کے معاشی حالات دگرگوں ہو گئے بلکہ ان کا کاروباری مقام بھی ان سے چھین لیا گیا اور اُس پر طُرّہ یہ کہ معاشرے نے ان کو علمی و ثقافتی سرگرمیوں کا ویلن بھی قرار دے دیا۔ پاک ٹی ہاؤس کے ازسرِ نو شروع ہونے پر تو مُلک بھر کے اہلِ قلم ابھی تک "واہ واہ" کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن جو خاندان پاک ٹی ہاؤس کو زندہ رکھے ہوئے تھا، اُس کو معاشی طور پر زندہ درگور کر دیا گیا۔
“