::: کتاب کا نام : "جہان دیگر"
مصنفہ : قراۃ العین حیدر
{20 جنوری، 1927ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ 21 اگست، 2007ء کو دہلی میں طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہوا۔{
ناشر: مکتبہ اردو ادب۔ بازار استحان، اندارون لاہوری گیٹ، لاہور
قراۃ العین حیدر تیس/ 23 کتابوں کی مضنفہ ہیں ۔ ان کی کتابوں کی فہرست یوں بنتی ہیں۔
آگ کا دریا
آخرِ شب کے ہمسفر (گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ(
میرے بھی صنم خانے
چاندنی بیگم
کارِ جہاں دراز ہے
روشنی کی رفتار
سفینۂ غمِ دل
پت جھڑ کی آواز (ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ(
ماں کی کھیتی
سیتیا ہرن
آدمی کا مقدر
آلپس کے گیت
روشنی کی رفتار
گلگشت
کوہ دماندہ
ڈنگو
تلاش
چار ناولٹ
فصل گل آئی یا اجل آئی
گردشِ رنگِ چمن
چائے کے باغ
دلربا
اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو
قراۃ العین حیدر کے سفرنامے " جہاں دیگر" سے کم ہی اردو کے قاری آگاہ ہیں۔ اس سفر نامے میں ہر ملنے والوں کی خاکہ نویسی بھی کی گئی ہے جو بہے دلچسپ بھی ہے اور قراۃ العین حید باتوں باتوں میں وہ باتیں کرید لاتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔ یہ سفر نامہ ان کے امریکہ کے سفر پر مبنی ہے۔ اس کتاب نے بین اسطور میں ان کی تحریروں کا بنیادی تہذیبی اور سیاسی کرب نمایاں طور پر محسوس کیا جاتا ہے۔ ۔ اس کتاب میں سترہ/17 مضامین شامل ہیں۔ وہ اپنے اس سفر نامہ امریہ میں لکھتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔" رہی ہماری شخصیت ۔۔۔ تو بھئی یہ ایک برا جیّد قسم کا خوفناک لفظ ہے ۔ شخصیت مولانا ابوالا مودودی اور بیگم لیاقت علی خاں کی ہوتی ہے۔۔۔۔ہم اور ہماری "شخصیت" ۔۔۔ یہ سب کیا مسخرہ پن ہے !" { صفہہ ۱۲{
" خود اپنے امریکی یہودی دانشوروں کے کارناموں کے مقابلے میں امریکن عوام جب ان " شیوخ" کے " کارنامے " دیکھیں گے جو ہالی وڈ میں ایسے محل تعمیر کرتے ہیں جن کی چھتوں پر پرہنہ عورتوں کی طلائی مورتیاں سجی ہوں یا جن کی وجہ سے طوائفوں نے اپنے نرخ میں اضافہ کردیا ہے تو امتیکن خواص کے زہنوں میں کس قسم کا عراب" امیج" بنے گا؟ ۔۔۔{{ " سوپ اوپیرا" ۔ صفہہ ۱۰۸}۔
قراۃ العی حید یہ انکشاف بھی کرتی ہیں۔۔" آپ نے برطانوی ہند کی سیاسی شعور والی عورتوں میں ایک مغینہ گاہر جان کا زکر کیا کیاس نے نے داءسرے کو ڈیفائی کیا تھا اور یہ کہ وہ یہودی تھی ۔۔۔۔۔ ہاں آرمتی یہودی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ یہودی تھی تو آرمنی کیسے ہوئی؟ محض یہودی کہیے۔۔۔ ایسے یہودیت کی شناخت آپ کا مسئلہ ہے، میرا نہیں، میرے لیے وہ ایک ایسی خاتون تھی جس کے آجداد آرمینا سے کلکتہ آگئے تھے۔ اور بس" {{ " تنہا ستارہ۔ صفہہ۱۵۶۔۱۵۷}
" پرانے تعصّبات جدید اقتصادیات سے غلاط ملط ہوکر بڑی تباہی بھیلاتے ہیں۔ میں نے کہا ۔۔۔۔۔۔ امریکہ میں شمال کی آزاد خیالی اور جنوب کی قدامت پرستی اور کالوں سے تعصّب کے جنوبی روئیے امریکی خانی جنگی کی یاد گار ہیں " { " ڈسکی مون"۔ صفہہ ۱۶{
قراۃ العین حید نے لکھا ہے " ایک طرف محمد عمر میمن کی عقلیت پرست ابن تمیّہ ہیں اور دوسری طرف افسانوی شاہ نعمت اللہ ولی اور ان کا ساراقبیلہ ۔۔ میرا معاملہ یہ ہے کی میں ہمیشہ شاہ نعمت اللہ کو ترجیح دوں گی" میں نے جواب دیا "{" دور کی بانسری کے سر" صفہہ ۹۰}جس سے ایعنی آپا کی مذھبی فکریات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
" جہاں دیگر" انداز نگارش بہت دلچسپ سادہ اور سلیس ہونے کے ساتھ بہت دلچسپ ہے۔ جس مین امریکی تاریخ، ثقافت، سرخ ہندیں { ریڈ انڈین}}، پاپ ثقافت، اور کراس اور کانٹر کلچراور ہالی وڈ کی صورتحا ل پر بڑی چابک دستی سے لکھا ہے ساتھ ہی امریکہ میں بسنے والے ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے فکر تفاوت اور تعصبات کے علاوہ ان کی تاریخ سےءدم آگاہی کے بنجر پن کا بھی اظہار کیا ہے کیا ہے۔
***