صلیبی جنگیں
یروشلم کی اہمیت و تاریخ پر سرسری نظر:
یوں تو صلیبی جنگوں کے عوامل لاتعداد اور انکی تاریخ نا صرف طویل بلکہ خاصی پیچیدہ بھی ہے، مگر ایک پہلو جو ہمیشہ سے ان جنگوں کا محور رہا وہ ہے “یروشلم”.
یروشلم کی تاریخ، شہرت اور اہمیت ایسی ہے کہ شاید ہی دنیا کے کسی اور شہر کی ہو، اس شہر کی مختلف ادوار کی کہانیاں ایک ایسے متحرک شہرکا نقشہ کھینچتی ہیں جو اپنے طور پر انتہائی منفرد یا دنیا کی کسی بھی شہر کے برعکس نظر آتا ہے.
سب سے پہلے یروشلم کی تاریخ اور اور اسکے محل وقوع کی اہمیت پر روشنی ڈال لیتے ہیں, آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیق بتاتی ہے کہ یروشلم شہر اور اسکے مکینوں کی تاریخ کم و بیش6ہزار سال پرانی ہے، یروشلم جو کہ خطے اور تاریخی کے طور پر کعنان(Cannan)کا حصہ رہا ہے، یہاں پر پہلے پہل جوبیسائت (Jubsites)آباد تھے جو موجودہ فلسطینیوں، یہودیوں اور مشرق وسطیٰ میں آباد دیگر اقوام کے اجداد بھی تصور کئے جاتے ہیں کعنان کا علاقہ جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں یہ جنوبی لیونٹ (Levant) بھی کہلاتا ہے جس میں موجودہ فلسطین کا علاقہ ویسٹ بینک٫ غزہ کی پٹی، اردن، شمالی شام اور لبنان شامل ہے۔ تاریخی طور پر پانچ سو قبل مسیح تک یہ تمام اور اس متصل علاقے کنعان ہی کہلاتے رہے، مگر پانچویں صدی قبل مسیح عیسوی میں یونانی مورخ ہیروڈوٹس نے (Herodotus) اس علاقے کو فلسطیہ کے نام سے لکھا جو اب فلسطین کہلاتا ہے، لہذا جیسا کہ اوپر زکر کیا کہ لیونٹ یا کعنان میں تاریخی طور پر بشمول یروشلم بہت سی قدیم سلطنتیں قائم رہیں جن میں قابل ذکر سلطنت یہودہ، امون، موآب، ایڈوم اور آرام ہیں.
اسکے علاؤہ چند اور ریاستیں جن میں فونیسئن ریاست ٹائر، ایڈون ببلوس، ارواد اور فلسطینی ریاستیں غزہ، ایشدود، ایشکیلون ایکرون اور باتھ قابل ذکر ہیں۔
ہمارا موضوع چونکہ یروشلم ہے لہذا ہم یروشلم ہی تک محدود رہتے ہیں، یروشلرم کے حوالے سے ہمیں دو طرح کی تاریخ کو دیکھنا ہوگا ایک وہ جو مورخین نے آثار قدیمہ، تحقیق، حقیقت اور سیکولر بنیادوں پر لکھی ہے اور دوسری تاریخ وہ ہے جو ہمیں مذہبی کتابوں سے ملتی ہے چونکہ مذہبی کتابوں کی تاریخ پر تکیہ کرنا مشکل کام ہے، لیکن اسکے باوجود ان مذہبی حوالوں کی اہمیت اس لئے اہم ہے کہ انکی بنیاد پر ایک بہت بڑی اکثریت جو کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتی ہے، اپنی رایے یا سیاسی و مذہبی نظریات سے پروشلم پر حقیقی دعویدار ہونے کا دعوی کرتی رہی ہیں۔
یروشلم مختلف ادوار میں مختلف اقوام کے زیر تسلط رہا جس کی تاریخ ہمیں 1400 قبل مسیح کے قریب سے ملتی ہے، 1200 قبل مسیح میں یروشلم کو کعنانی جو کہ جیبوسائٹ کہلاتے تھے نے فتح کرلیا (لیکن اس کا کوئی ثبوت میسر نہیں ہے کیونکہ اسکا حوالہ صرف یہودیوں کی بائبل جسے تنخ کہا جاتا ہے یعنی عہد نامہ قدیم یا اولڈ ٹیسٹمنٹ سے ملتا ہے)۔
ایک ہزار سال قبل مسیح میں کنگ ڈیوڈ (حضرت داؤد) نے یروشلم کو فتح کیا اور اسے یہودی کنگڈم کا دارالخلافہ بنایا، 960 قبل مسیح میں کنگ سالومن(حضرت سلیمان جو کہ حضرت داؤد کے بیٹے تھے) نے یروشلم میں پہلی یہودی عبادت گاہ ہیکل سلیمانی(first Jewish temple)تعمیر کروانا شروع کی جو 957 قبل مسیح میں مکمل ہوئی۔
حضرت سلیمان کی وفات کے بعد 939 bc میں دو حصوں شمالی اور جنوبی میں تقسیم ہوگئی۔
ریحوبام (Rehoboam) جو حضرت سلیمان کا بیٹا تھا تقسیم شدہ سلطنت کے جنوبی حصے کا بادشاہ بنا اور یہ ریاست کنگڈم آف یہودا کہلائی جس کا دارالحکومت یروشلم بنا۔ جیروبام (Jeroboam) شمالی سلطنت کا بادشاہ بنا جو کنگڈم آف اسرائیل کہلائی اور اس کا دارالحکومت سماریہ (Samaria) تھا.
دونوں تقسیم شدہ یہودی ریاستوں میں مسلسل جنگ وجدل اور کشیدگی پائی جاتی رہی۔ بالآخر 722 bc میں اسیرین (Assyrians) نے کنگڈم آف اسرائیل کا خاتمہ کر دیا۔ کنگڈم آف یہودا کو بھی 586 bc میں تباہی کا سامنا کرنا پڑا جب بیبیلونین قوم نے اپنے بادشاہ نیبوکانذر (Nebuchanezzer) کی قیادت میں کنگڈم آف یہودا پر حملہ کیا۔ بیبیلونین نے ہیکل سلیمانی (first Jewish temple) کو مکمل طور پر تباہ کرڈالا۔
سائرس دی گریٹ نے 538 bc میں بیبیلونین کو شکست دی اور یہودیوں کو یروشلم واپس آنے کے اجازت دی یوں تقریبا پچاس سال بعد یہودیوں کی ایک بڑی تعداد یروشلم واپس آسکی.
یونان کے الیگزینڈر دی گریٹ نے322 bc میں پرشین ایمپائر کو شکست دی اور یروشلم یونانیوں کے قبضے میں آگیا الیگزینڈر دی گریٹ کی موت کے بعد یہ علاقہ سیلیوسڈ ایمپائر کا حصہ بنا (Seleucid Empire) سیلیوسڈ الیگزینڈر دی گریٹ کا جنرل تھا۔
یروشلم کا علاقہ63 bc میں رومن ایمپائر کا حصہ بنا اور یونانیوں کو شکست ہوئی، رومن ایمپائر نے یہودیوں کو برائے نام خودمختاری دی، ہیروڈ دی گریٹ یہاں کا بادشاہ بنا جو نسلا عرب لیکن مذہبی طور پر یہودی تھا۔ ہیروڈ نے 37 bc میں یہودیوں کا ٹیمپل (second temple) دوبارہ تعمیر کروایا۔
یروشلم میں حضرت عیسی کو مصلوب کر کے سولی پہ چڑھانے کا واقعہ 30 AD میں پیش ایا جس کی بنیاد پر مسیحی مذہب کی ابتدا ہوئی۔ چونکہ حضرت عیسی کو سولی یروشلم میں میں چڑھایا تھا لہٰذا اس اعتبار سے یروشلم شہر مسیحی مذہب کے ماننے والوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
پہلی یہودی رومن جنگ 66 AD میں ہوئی جس کے نتیجے میں یہودیوں کو 70 AD میں نہ صرف بدترین شکست کا سامنا ہوا بلکہ دوبارہ تعمیر کیا ہوا ہیکل سلیمانی (second Temple) ایک بار پھر مسمار کردیا گیا، جہاں صرف ایک دیوار ہی بچی جو دیوار گریہ کہلاتی ہے۔ یہودیوں کو ایک بار پھر انکے علاقوں سے نکال دیا گیا جو ڈیاسپورا (Diaspora) کہلاتا ہے، اسی کے نتیجے میں یہودیوں کو دنیا کے مختلف ممالک خاص طور پر یورپ فرار ہونا پڑا۔
رومن ایمپائر نے 135 AD یروشلم کی رومن شہر کی حیثیت سے تعمیر نو کی کیونکہ یروشلم 70 AD میں بہت حد تک تباہ و برباد ہو چکا تھا. یروشلم رومن ایمپائر کا حصہ 324 عیسوی تک رہا، اس کے بعد چونکہ رومن ایمپائر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی ایک حصہ ہولی رومن ایمپائر کہلایا اور دوسرا بازنطین لہذا یروشلم بازنطین ایمپائر کے تسلط میں آگیا اور اسکی یروشلم پر حکومت 638 عیسوی تک چلتی رہی۔ بازنطین ایمپائر کا سرکاری مذہب مسیحی تھا لہٰذا اس دور میں جہاں جہاں رومن سلطنت تھی وہاں وہاں مسیحی مذہب کو کافی دوام ملا۔
اسلام آنے کے بعد اسلامی سلطنت اندھی اور طوفان کی طرح دنیا بھر میں پھیلنے لگی جس سے یروشلم بھی نہ بچ سکا اور عمر کے دور 638 عیسوی میں یروشلم پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ 661 سے 750 عیسوی تک یروشلم پر بنو امیہ خاندان کی حکومت رہی، 691 ای سی عیسوی میں ڈوم اف دا راک تعمیر ہوا یہ وہ جگہ تھی جہاں پہلے یہودیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ سیکنڈ ٹیمپل ہوتا تھا جو 70 اے ڈی میں رومن ایمپائر نے تباہ کر دیا تھا۔ یروشلم 750 عیسوی سے لے کر 974 عیسوی تک سلطنت عباسیہ کہ زیر تسلط رہا۔
بنو عباس کے بعد یروشلم فاطمید سلطنت کا حصہ بن گیا جس کا خاتمہ کروسیڈر نے 1099 عیسوی میں کیا۔
کروسیڈر کا دور لگ بھگ 88 برس تک جاری رہا جس کا اختتام صلاح الدین ایوبی کے 1187 عیسوی میں یروشلم فتح کئے جانے پر ہوا، ایوبی خاندان کا دور 1259 عیسوی تک چلتا رہا جس کے بعد مملوک دور حکومت آگیا جنہوں نے1516عیسوی تک یروشلم پر حکومت کی، 1517 میں پروشلم پر سلطنت عثمانیہ کا قبضہ ہوگیا جو چار صدیوں یعنی 1917 پر محیط رہا۔ 1914 میں شروع ہونی والی پہلی جنگ عظیم جو کہ 1917 میں اختتام پذیر ہوئی، لہذا ترکی کی شکست کے بعد 1917 میں یروشلم سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں سے نکل کر برطانوی راج میں آگیا جسے ہم برٹش مینڈیٹ کے نام سے جانتے ہیں،1917 کا سال اسرائیل کے لیے بہت اہم تھا کیونکہ اسی سال برطانیہ کے وزیرخارجہ ارتھر بالفور نےحکومت برطانیہ کو اشارہ دیا کہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کا کام شروع کیا جائے جسےبالفور ڈکلریشن کہا جاتا ہے۔
بالفور ڈکلریشن کے تحت1948 میں اسرائیل کا قیام وجود میں آجاتا ہے اسرائیل کے قیام پر اس یہودی ریاست کو یروشلم مکمل طور پر نہیں ملا بلکہ یروشلم تقسیم ہو گیا،یروشلم کا مشرقی حصہ اردن کے پاس رہا یروشلم کی اس تقسیم کو آرمسٹس لائن کہا جاتا ہے۔1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے باقی ماندہ مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا، لہذا اج کی تاریخ تک پورا یروشلم اسرائیل کی ریاست کا حصہ ہے۔
یہودی، مسیحی اور مسلمان اپنے مذہبی عقائد کے باعث یروشلم شہر سے ایک گہرا تعلق رکھتے ہیں جو نا صرف صدیوں پر محیط ہے بلکہ ان میں سے ہر ایک مذہب کے پیروکاروں نے پچھلے چند ہزار سالوں میں یروشلم شہر کے کچھ یا تمام حصوں پر حکومت کی یا اس شہر کو زیر تسلط رکھا۔
ایک مختصر سا جائزہ لیتے ہیں کہ یہودی مسیحی اور مسلمان یروشلم پر دعویدار ہونے کا اظہار کن بنیادوں پر کرتے ہیں اور ان کے لیے یروشلم کیوں اہم ہے۔
مسلمانوں کا دعویٰ:
مذہبی حوالے سے یروشلم مسلمانوں کے لیے مکہ اور مدینہ کے بعد تیسری مقدس ترین جگہ ہے، اسلام کے مطابق بیت المقدس وہ جگہ ہے جہاں سے پیغمبر اسلام نے برأق پر بیٹھ کر معراج یا آسمانوں کا سفر شروع کیا، لہذا اسلام میں معراج کا واقعہ بہت ہی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے مطابق بیت المقدس اس تمام علاقے کا نام ہے جہاں پر حضرت سلیمان نے سب سے پہلا ہیکل سلیمانی بنوایا تھا اس مقام کو ٹمپل ماؤنٹ کہا جاتا ہے اور روک آف دی ڈوم (Rock of the dome) مسجد الاقصی سے چند سو قدم کی دوری پر واقع ہے۔
روک آف دی ڈوم کی تعمیر بنو امیہ کے خلیفہ عبدل المالک نے650-692عیسوی میں کروائی، جبکہ مسجد اقصی کی تعمیر اموی خلیفہ ولید اول کے زمانے یعنی 715 عیسوی میں ہوئی۔ مسجد الاقصی کی تاریخ کے حوالے سے مسلمان مذہبی عالموں کی کے دعووں میں کافی تضاد پایا جاتا ہے، جسکی وجہ شاید دستیاب تاریخ کو ایمان کے ساتھ جوڑنے کی وجہ سے ہے۔
مسلمان مذہبی عالموں کی نظر میں مسجد الاقصی کو سب سے پہلے حضرت ادم نے تعمیر کیا۔
حضرت ابراہیم نے مسجد الاقصی کی دوبارہ تعمیر کی۔
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے مل کر مکہ میں واقعہ خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔
پیغمبر اسلام نے معراج پر جانے سے پہلے کچھ وقت قیام کیا اور براق (اڑنے والا گھوڑا) کو بیت المقدس کی مغربی دیوار سے باندھا جسے یہودی دیوار گریہ کہتے ہیں۔
مسیحی دعوی:
مسیحی مذہب کے ماننے والوں کے لیے یروشلم ہمیشہ سے ایک اہم مقام رہا ہے۔
تاریخی طور پر رومن دور حکومت میں حضرت عیسی کی پیدائش یروشلم کے قریبی ایک چھوٹے سے شہر بیت الحم میں لگ بھگ 4 bc میں ہوئی۔ گو کہ حضرت عیسی کی پیغمبرانہ سرگرمیوں کا زمانہ کافی مختصر رہا اور اسکی ابتدا نذارتھ (Nazareth) اور گیلیلی (Galilee) کے علاقوں میں ہوئی، لیکن کیونکہ حضرت عیسی کے خلاف بغاوت اور بلاسفیمی کا مقدمہ چلا اور اس مقدمے کے نتیجے میں انکو سولی پر چڑھانے کا واقعہ یروشلم میں پیش ایا جس کی بدولت مسیحی مذہب میں یروشلم کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یروشلم میں جس مقام پر حضرت عیسی کو مصلوب کیا اور سولی پر چڑھایا گیا اور یہی وہ مقام ہے جہاں مسیحی مذہب کے مطابق انہیں دوبارہ زندہ کیا گیا،لہذا یروشلم مسیحوں کے لیے ایک مقدس ترین جگہ بن گئی جہاں پر دنیا بھر سے مسیحی مذہب کےپیروکار زیارت کے لئے اس مقام پر اتے ہیں۔کم از کم چوتھی صدی عیسوی سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ میں جس مقام پر حضرت عیسی کی آخری ایام٫ وفات، تدفین اور دوبارہ زندہ ہوئے کا واقعہ ہوا وہ مقام یروشلم کے پرانے شہر میں واقع ہے مسیحی مذہب میں ایسٹر (Easter) کا تہوار جو حضرت عیسی کو صلیب پر چڑھانے کے تین دن بعد انکی دوبارہ زندہ ہونے پر منایا جاتا ہے.
یہودی دعوی:
یہودیوں کی مذہبی کتابوں ہیبرو بائبل (Tanakh) ،تالمود یا ربانک دستاویزات میں کنگ ڈیوڈ نے 1000 bc یروشلم پر حملہ کر کے اسے فتح کیا اور یروشلم کو اپنا دارالخلافہ بنایا. کنگ ڈیوڈ کے زمانے میں اسوقت سمیئول یہودیوں کے پیغمبر تھے جنہوں نے کنگ ڈیوڈ کے اقتدار کی باقاعدہ بھی توثیق کی۔ کنگ ڈیوڈ کی وفات کے بعد اقتدار ان کے بیٹے کنگ سالومن کو منتقل ہو گیا، 960 قبل مسیح میں کنگ سالومن نے یروشلم میں پہلی یہودی عبادت گاہ ہیکل سلیمانی (first temple) تعمیر کروانا شروع کی جو 957 قبل مسیح میں مکمل ہوئی (آرکیالوجسٹ کی تحقیق کے مطابق ہیکل سلیمانی کا کوئی ثبوت نہی ملتا).
حضرت سلیمان کی وفات کے بعد 939 bc میں دو حصوں شمالی اور جنوبی میں تقسیم ہوگئی۔ ریحوبام (Rehoboam) جو حضرت سلیمان کا بیٹا تھا تقسیم شدہ سلطنت کے جنوبی حصے کا بادشاہ بنا اور یہ ریاست کنگڈم آف یہودا کہلائی جس کا دارالحکومت یروشلم ہی رہا. کنگ ڈیوڈ سے شروع ہونے والی یہ خاندانی ریاست یہودی 586 bc تک چلتی رہی اور اسکا دارالحکومت یروشلم ہی رہا.
بابل کے بادشاہ نیبوکانذر (Nebuchanezzer) نے 586 bc میں کنگڈم آف یہودا پر حملہ کیا۔ بیبیلونین نےناصرف یروشلم پر قبضہ کرلیا بلکہ ہیکل سلیمانی (first Jewish temple) کو مکمل طور پر تباہ کرڈالا، اور یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کوقید کرکے بابل لے جایا گیا، بہت سے یہودی فرار ہوگئے، اس زمانے میں یہودیوں کے پیغمبر جرمایہ(prophet Jeremiah)تھے جو کہ اسوقت خاصے عمر رسیدہ تھے وہ بھی یروشلم سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے. بابل میں بیبیلونئین کی قید میں شامل یہودیوں کے پیغمبر دانیال(prophet Daniel)بھی تھے، جو اس وقت تو پیغمبر نہیں تھے مگر بعد میں وہ قید کے دوران ہی یہودیوں کے پیغمبر بنے، پیغمبر دانیال کا شمار یہودیوں کے پانچ بڑے پیغمبروں میں ہوتا ہے۔
پرشین ایمپائر میں سائرس دی گریٹ کا مقام بہت بلند ہے،مورخین سائرس کی مذہبی اعتدال پسندی اور رواداری کے بہت معترف پائے جاتے ہیں، سائرس دی گریٹ نے 538 bc میں بیبیلونین کو شکست دی اور یہودیوں کو یروشلم واپس آنے کے اجازت دی۔ یونان کے الیگزینڈر دی گریٹ نے322 bcمیں پرشین ایمپائر کو شکست دی اور یروشلم کا علاقہ سیلیوسڈ ایمپائر کا حصہ بنا.
میکابیئن بھائیوں (Maccabees Revolt) نے 166 bc میں رومن ایمپائر کے خلاف بغاوت کی اور کچھ کامیابیاں بھی حاصل کیں یہودیوں کا تہوار ہینوکا (Hanukkah) انہی کی کامیابی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یروشلم کا علاقہ63 bcمیں رومن ایمپائر کا حصہ بنا اور یونانیوں کو شکست ہوئی رومن ایمپائر نے یہودیوں کو برائے نام خودمختاری دی اور ہیروڈ دی گریٹ (Herod the Great)یہاں کا بادشاہ بنا ہیروڈ نے یہودیوں کا ٹیمپل دوبارہ تعمیر کروایا۔ یہودی رومن جنگ کے نتیجے میں یہودیوں کو شکست اور ہیروڈ کا دوبارہ تعمیر کیا ہو ٹیمپل ایک بار پھر تباہ کردیا گیا، اسی کے نتیجے میں یہودیوں کو دنیا کے مختلف ممالک خاص طور پر یورپ فرار ہونا پڑا۔ یہودیوں کے دعووں کے مطابق اور تاریخی طور پر یروشلم کنگڈم آف یہودا کا نا صرف کئی صدیوں تک دارالخلافہ رہ چکا ہے بلکہ یروشلم انکا روحانی و مذہبی شہر بھی ہے جن سے یہودیوں کی جذباتی وابستگی ایک اٹل حقیقت بھی ہے۔