::::دیباچہ::::
کراچی کے بارے میں یہ مضمون لکھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کیونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اس رشتے سے ضرورت کراچی کی خالہ ہوئی، خالہ کا کہنا اس لئے بھی ماننا پڑتا ہیکہ پھپھو اور خالہ کی پراکسی وار میں جیت ہمیشہ خالہ کی ہی ہوتی ہے-
ویسے تو بلی بھی شیر کی خالہ ہوتی ہے اس لحاظ سے کراچی کو شیر کہا جاسکتا ہے اور کراچی والوں کو شیر کے بچے
دنیا میں جتنی بھی دریافتیں ہوئی ہیں ان میں سے اکثر اتفاقی طور پر ہوگئیں
کراچی بھی شاید اتفاق سے دریافت ہوا اور یہ آخری اتفاق تھا جو کراچی کے نصیب میں آیا، اسکے بعد کراچی کے مسائل پر کبھی اتفاق نہیں ہوسکا-
کراچی جس کسی نے بھی دریافت کیا وہ شاید چارپائی پہ بیٹھا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا اسی لئے چارپائی کے چاروں طرف ہی کراچی ہی کراچی بن گیا، یہ بات یقینی ہیکہ وہ بندہ چارپائی پر ہی بیٹھا تھا، اگر کسی لمبی سی بینچ پر بیٹھا ہوتا کراچی لمبوترا ہوتا۔
اس مضمون میں آپ کو شاید کراچی نہ نظر آئے، صرف مسائل نظر آئیں اور ان پر کیا گیا طنز
لیکن ان سب مسائل کو جمع کرلیں تو کراچی ہی بنتا ہے
یاد رکھیں کہ جمع ہی کرنا ہے کیونکہ مزید تفریق کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا کراچی۔
::::محل وقوع::::
کراچی کا حدود اربعہ جانے والے جانتے ہیں کہ جہاں کراچی واقع ہے وہاں سے آگے مزید کچھ واقع ہونے کی گنجائش نہیں بچتی
کیونکہ وہاں سے آگے سمندر شروع ہوجاتا ہے
اور جو کراچی کے حدود اربعہ کو نہیں جانتے انکے لئے جاننا اس لئے بھی ضروری نہیں کہ انھیں کچھ بھی کہہ کر قائل نہیں کیا جاسکتا کہ کراچی واقع بھی ہے
انکے نزدیک کراچی واقع نہیں صرف ایک واقعہ ہے۔ کراچی کو اگر واقعہ بھی مان لیا جائے تو یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور تاریخ کو جھٹلایا نہیں جاسکتا، کم از کم پہلی تاریخ کو تو بالکل بھی نہیں کیونکہ اس تاریخ کو تنخواہ ملتی ہے۔
:::::::حدود اربعہ::::::::
کراچی کے حدود اربعہ کو الفاظ میں اس لئے نہیں سمویا جاسکتا کہ جس دن کلاس میں حدود اربعہ پڑھایا جانا تھا اس دن شہر میں ہڑتال تھی۔
پھر بھی احتیاطا بتا دیتے ہیں کہ کراچی کے ایک طرف سمندر ہے باقی کی تینوں طرف کراچی ہی ہے
کراچی میں جاکر کراچی ڈھونڈنے نکلیں تو ہر چیز مل جائے گی سوائے کراچی کے، کراچی کو ڈھونڈنا ہے تو کراچی والوں کے دل میں ملے گا۔ کراچی جس رفتار سے پھیل رہا ہے کچھ عرصے میں کراچی ایک ملک کا نام ہوگا اور پاکستان اسکا دارلخلافہ ہوگا۔
پھیل تو دیگر شہر بھی رہے ہیں، لاہور بھی کافی پھیل چکا ہے لیکن لاہور کا پھیلاو ایسا ہے جیسے ورم۔ ورم ایک بیماری ہے اور بیماری کا علاج کیا جانا چاہئیے-
:::::::آب و ہوا::::::
روایات سے ثابت ہوتا ہیکہ کراچی میں کسی زمانے میں آب و ہوا بھِی ہوتی تھی، اب نہ ہی آب دستیاب ہے نہ ہی ہوا۔ شہر کے سارے آبی وسائل پر ٹینکر مافیا کا قبضہ ہے اور وہ آب، اب آب حیات کی قیمت پر دستیاب ہوتا ہے، ہوا کے نام پر سرکار نے یہاں وافر مقدار میں دھوئیں کا انتظام کررکھا ہے- شہریوں کے دیرینہ مطالبے کو مانتے ہوئے سرکار نے یہاں تھوڑی بہت تازہ ہوا کا بندوبست کردیا ہے جوکہ اب صرف پانی کے نلکوں میں آتی ہے- تاریخی کتابوں میں درج ہیکہ پانی کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو تو کراچی کے کسی ایسے شخص سے پوچھو جو سمندر کے پاس کسی گھر میں باتھ روم میں بیٹھا ہو، کھڑکی سے سمندر نظر آرہا ہو اور لوٹا خالی ہو-
ہوا کی قلت کے باعث یہاں کی سرکار نے کچھ عرصہ پہلے یہاں شاپر پر بھی پابندی لگادی تاکہ لوگ خالی شاپر میں ہوا بھر بھر کر بیرون شہر منتقل نہ کردیں-
یہاں کی سرکار کو پانی کی اہمیت کا اندازہ ہے اسی لئے یہاں نکاسی کا کوئی خاص انتظام نہیں کیا گیا تاکہ جب بارش ہو تو بارش کا پانی نکاس کی نظر نہ ہوجائے اور شہری کم از کم کئی دنوں تک اس پانی کا دیدار کرتے رہیں- کراچی کو کوئی دریا نہیں لگتا اسی لئے سرکار بارش کے دنوں میں کراچی کے ہر علاقے کیلئے الگ دریا کا انتظام کردیتی ہے- بارش کے دنوں میں شہر میں بہنے والے مختلف دریاوں کے نام یہ ہیں
دریائے گلشن
دریائے لانڈھی
دریائے ملیر
دریائے کورنگی
دریائے اورنگی
کراچی کا ملکی سیاست میں بہت اہم کردار ہے، کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ حکومتوں کے تختے بنانے اور گرانے کے کام آتے ہیں- اس سب کا یہاں کے مقامی لوگوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہاں کے لوگوں کے بارش میں صرف رکشے الٹتے ہیں- بارش کے پانی کی وجہ سے گڑھے نظر نہیں آتے اور ان پر چلتے چلتے اکثر رکشے اور موٹر سائیکل والے بھی نظر نہیں آتے
کراچی کو باب الاسلام کہتے ہیں اسکی ایک وجہ یہ بھی ہیکہ بارش کے دنوں میں کیچڑ کی وجہ سے ہر شخص پائنچے پکڑ کر اوپر کرکے چل رہا ہوتا جس سے اسکے نمازی ہونے کا گماں ہوتا ہے-
کھانا پکانے کیلئے یہاں گیس کا مناسب انتظام نہیں ہے اس لئے لوگ بس اپنے مسائل کا سوچتے ہیں جس سے دل جلتا ہے اسی کی تپش پر یہاں روٹیاں سینکی جاتی ہیں
::::::::::زرائع آمدورفت::::::::::::
کراچی آںے کیلئے بہت سارے زرائع استعمال کئے جاتے ہیں مثلا ٹرین، روڈ یہاں آںے کے راستے ہیں جانے کا کوئی نہیں کیونکہ یہاں آنے والا ایک بار آجائے تو پھر واپس نہیں جاتا۔ سوائے عید بقر عید اور دیگر تہواروں کے جب اندرون ملک سے آئے اکثر لگ اپنوں میں عید منانے چلے جاتے ہیں
انیس سو انہتر میں امریکہ نے خلائی مشن چاند پر بھیجا جو کسی تکنیکی خرابی کے باعث کراچی میں گر گیا، یہاں کی سڑکوں پر موجود گڑھے دیکھ کر نیل آرمسٹرانگ کو لگا کہ یہ چاند کی سطح ہے تب سے ہی مشہور ہوگیا کہ انسان نے چاند پر قدم رکھ دیا ہے حالانکہ وہ کراچی ہی تھا
:::::: زرائع نقل و حمل :::::::::::::
کراچی میں زرائع نقل و حمل کے باب میں بس اتنا ہی کہنا کافی ہیکہ یہاں صرف امتحانات میں نقل کرنے پر پابندی ہے، حمل پر باقی ملک کی طرح کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ اسلے علاوہ شہریوں کی روز مرہ کی نقل و حرکت پر کوئی سرکاری نظام نہیں۔ ہر شخص اپنی بساط کے مطابق سواری کا انتخاب کرتا ہے- شہر میں جا بجا دو پہیوں، تین پہیوں، چار پہیوں کی سواریاں نظر آتی ہیں۔ پانچ اور چھ پہیوں والی سواری نظر نہیں آتی اس میں انگریز کا قصور ہے کہ اس نے ابھی تک ایجاد ہی نہیں کیں-
شہر میں کسی زمانے میں سرکلر ریلوے چلتی تھی اب صرف سرکاری سرکلر چلتے ہیں اور سرکلر ریلوے بنانے کا پیسہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں سفر کرتا رہتا، مسافر اپنی سواری کا بندوبست خود ہی کرلیتے ہیں-
::::::::قابل دید مقامات::::::::::
کراچی کے قابل دید مقامات میں مزار قائد کراچی کی پہچان ہے، یہ اتنا مشہور ہیکہ کراچی کے نوجوان کالج ٹائم میں اکثر مطالعے کی غرض سے مزار قائد پر بنے پیچھے والے باغ کا ٹوور ضرور کرتے ہیں-
قائد اعظم بہت عظیم شخصیت تھے- وہ اگر نہ ہوتے تو ہمارے یہاں کے کرنسی نوٹ پر کس کی تصویر ہوتی۔ شاید نوٹ ہی نہ ہوتے اور ہم اب تک کھجور کے بدلے گندم، اور گندم کے بدلے چاول میں کاروبار کررہے ہوتے۔
یہاں کے قابل دید مقامات میں بینکوں کی اے ٹی ایم اور ریسٹورینٹ بھی بہت مشہور ہیں۔ اے ٹی ایم اس لئے کہ وہاں سے پیسے نکال سکیں اور ریسٹورینٹ اس لئے کہ وہاں پر پیسے خرچ کئے جاسکیں- یہاں کے لوگ بہت مصروف ہوتے ہیں آدھا دن کمانے میں خرچ کرتے ہیں باقی کا دن اس کمائی کو خرچ کرنے میں-
یہاں کے کھانے بہت مشہور ہیں۔ کراچی کی بریانی ذائقے کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے- اسکے بعد قریب ترین بریانی حیدرآبادی بریانی کہلاتی ہے جو کہ دسویں نمبر ہے- ایسا اس لئے ہیکہ پہلے سے نویں نمبر پر صرف کراچی کی بریانی ہی ہے- بریانی کو یہاں وہی مقام حاصل ہے جو پنجابی فلموں میں لڑکی کے باپ کے سر پر رکھی پگڑی کو ہوتا ہے-
مقبول قابل دید مقامات میں ایک چھوٹا سا گھر بھی ہے جہاں جانے پر فی الحال سرکار نے پابندی لگا رکھی ہے- اس مقام پر مکہ لہرانا سختی سے منع ہے اسی لئے لیاقت علی خان کی یادگار کے طور پر ایک مکا استعارے کے طور پر لگایا گیا تھا جوکہ اب ہٹایا جاچکا ہے۔
قابل دید مقامات میں ساحل سمندر کا ذکر کرنا ناانصافی ہوگی- یہاں سمندر اس لئے ہیکہ کراچی کے شہریوں کی اکثریت کو تیرنا نہیں آتا ورنہ یہاں بھی سمندر کی جگہ کراچی ہی ہوتا-
شہر میں جا بجا تفریحی مقامات ہیں لیکن انھیں دیکھنے کیلئے سرکاری دفتروں کی فائلوں کو کھنگالنا پڑتا ہے
کراچی کے لوگ اپنی بیگمات سے بہت زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔ شاہجہاں کی تقلید کرتے ہوئے اکثر نے بیگمات کے نام پر مختلف علاقوں کے نام رکھ دئے ہیں جیسے کہ ناگن چورنگی، بھینس کالونی-
کراچی کے شہریوں کو زندگی میں سکون ایسے ہی نہیں ملتا جیسے یہاں کے سولجر بازار میں سولجر
آرام باغ میں آرام
شانتی نگر میں شانتی نہیں ملتی
::::::::::صنعت و حرفت:::::::::::
یہاں بنائی جانے والی چیزوں میں سب سے مشہور بیوقوف ہے۔ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ کراچی سے باہر سے کوئی آئے اور کراچی کے شہریوں کے ہاتھوں کم از کم ایک بار بیوقوف نہ بنا ہو- اس کیلئے ایک مخصوص لفظ استعمال کیا جاتا ہے لیکن ادب کے اس شہہ پارے کی پاکیزگی کا تقاضہ ہیکہ وہ لفظ یہاں ایسے ہی حذف کردیا جائے جیسے قومی اسمبلی میں عوام کے حقوق کی بات کو حذف کردیا جاتا ہے
صنعت و تجارت کے حوالے سے یہاں دوسرا نمبر حکمت کی دوائیوں کا ہے۔ شہر میں باہر نکلیں تو دیواریں تو یہی کہہ رہی ہوتی ہیں- ہر دیوار بڑے حکیم صاحب کی عظمت کی داستانیں سنا رہی ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہیکہ کراچی کسی بہت بڑے حکمت کے دوا خانے کا نام ہے جہاں صرف حکیم صاحب کی تجویز کردہ دائیاں ہی بنتی ہیں
بنائِ جانے والی چیزوں میں اسکے بعد نمبر آتا ہے سیاسی پارٹیوں کا، ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے والی ہر سیاسی پارٹی کی شروعات کراچی سے ہی ہوتی ہے
:::::::عام شہریوں کا رویہ :::::::::
عام طور پر کراچی کے شہری نہایت نفیس لوگ ہیں، یہاں ہر شخص دوسرے شخص کو نام لینے کے بجائے بھائی کہہ کر پکارتا ہے۔ لیکن دائیں بائیں دیکھ کر۔ کیونکہ یہاں نفیس بننے پر بھِی غیر اعلانیہ پابندی ہے-
دیگر ملکوں میں سرکار، ان مخصوص افراد کو کہا جاتا ہے جو ریاست کا نظام چلاتے ہیں جبکہ یہاں سر۔کار ان معزز افراد کو کہتے ہیں جنھیں بحالت مجبوری سر کہا جاتا ہو اور وہ کار میں بیٹھ کر دفتر آئیں اخبار پڑھیں اور کار میں بیٹھ کر واپس گھر چلے جائیں۔ ریاست خود ہی چلتی رہتی ہے۔
کراچی گو کہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے قصہ مختصر جب تک چمٹا اپنا منہ نہیں جلاتا تب تک روٹی نہیں پک سکتی
کراچی وہی چمٹا ہے
ایک ماہر مکینک کی نظر سے دیکھیں تو کراچی وہ انجن ہے جس کے اندر آگ ہوتی ہے، ضربیں لگتی ہیں۔ چوٹیں لگتی ہیں، گھائل ہوتا ہے لیکن کار کو رواں رکھتا ہے-
اللہ پاک ہمارے کراچی، پاکستان کی شان کو سلامت رکھے