آج 14 اگست 2019 کے روز بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ سامراجی قبضہ اور عوام کو گھروں میں محصور کئے دسواں روز ہے، عید الضحی بھی گھروں میں گزری، تشویش ناک خبریں بتا رھی ہیں کہ خوراک، ادویات اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی کمی بڑھتی جا رھی ہے۔
سوال ہے کہ کیا کیا جائے کہ یہ محاصرہ ختم ہو اور کشمیریوں کو اپنی آواز بلند کرنے اور انہیں بھارتی حکومت کے موجودہ قبضہ بارے اپنی رائے دینے کا موقع مل سکے۔
بھارت کے درجنوں صحافی کشمیر کا سرکاری تحفظ میں وزٹ کر کے یہ خبریں دے رھے ہیں کہ سب اچھا ہے۔ جبکہ بی بی سی اور کچھ دیگر بتا رھے ہیں کہ سب اچھا کی خبریں حقائق کے منافی اور درست نہیں ہیں۔
فوری طور پر انسانی تباھی سے بچنے کا سوال سب سے اہم ہے۔ آزادی بنیادی حق ہے جس سے ائینی حق کے ساتھ ساتھ فزیکلی طور پر کشمیریوں کو محروم کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل کیا ہے؟
بھارت نے تو قبضہ اور کشمیر کی تقسیم کر کے بتا دیا ہے کہ اس کے عزائم کیا ہیں؟ پاکستانی ریاست کا موقف ہے کہ “کشمیر بنے گا پاکستان”، مذھبی تنظیمیں بھی یہی کہتی ہیں اور مذھبی انتہا پسند تو اسے پاکستان بنانے کے لئے متشدد اور دھشت گردی کے مختلف طریقوں سے کام کرتے رھے ہیں۔
ان دو ریاستوں اور مذھبی غیر ریاستی عناصر کے علاوہ بھی ایک نقطہ نظر ہے جسے میڈیا یا تو چھپانے یا اسے توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے وہ ہے کشمیر کی مکمل آزادی؛ ایک آزاد ملک کی حیثیت میں زندہ رھنے کا حق؛ اس نقطہ نظر میں اس سے آگے تفصیلات ہیں جو مختلف آزادی پسند گروھوں نے پیش کی ہیں جنہیں یہاں طوالت سے بچنے کے لئے پیش نہیں کیا جا رھا۔
ہم پہلے سوال کا جائزہ لیتے ہیں۔ کشمیر میں بھارتی جارحانہ قبضہ کے خاتمے کا آغاز تو وہاں کرفیو کے خاتمے اور عوام کے باھر آنے سے منسلک ہے۔ بھارت کو اسی فوری قدم کے لئے اسی طور پر مجبور کیا جا سکتا ہے جب بھارتی عوام کی ایک بڑی تعداد کشمیریوں کے ان جمھوری حقوق کے لئے سڑکوں پر آجائے جو کم از کم انہیں دستیاب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا اور دنیا بھر میں کشمیریوں سے یک جہتی کے لئے عوامی تحریکوں کا ابھار بھارت کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ کرفیو ختم کرے اور عوام کو آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع فراھم کرے۔
بھارت میں بائیں بازو نے اس کا آغاز کیا ہوا ہے۔ ان کے لئے حالیہ انتخابات میں برے نتائج کامداوہ کرنے کا یہ ایک موقع ہے کہ وہ عوام میں بائیں بازو کے خیالات کو ایک بار پھر مقبول بنا دیں جن میں ہر ظلم سے ٹکرانا اور ظلم کے جواب میں مظلوم کا ساتھ دینا اور “ایک کا دکھ سب کا دکھ” جیسے جذبات بنیادی ستون ہیں۔ یہی فریضہ پاکستان کی ترقی پسند قوتوں کا ہے۔
یہ اب اقوام متحدہ، سیکورٹی کونسل اور چین و پاکستان کی ریاستوں کے بس کی بات نہیں۔ بھارتی سامراج نے اس قدم کے اٹھانے سے قبل خوب تیاری کی ہوئی تھی۔ اور پاکستان میں تو ٹرمپ کے مسکرا کر ھاتھ ملانے کو ورلڈ کپ جیتنے سےتعبیر کر لیا گیا تھا۔
ابھی جو تھوڑے بہت مظاہرے کشمیر کے اندر سے رپورٹ ہوئے ہیں، ان میں سب سے بلند آواز “آزادی” کی تھی۔ “کشمیر بنے گا خود مختار” نعرہ ایک دفعہ پھر بہت مقبول نظر آیا۔ ایک دو افراد نے پاکستان کا جھنڈا بھی اٹھایا ہوا تھا۔ اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک بڑے جلوس میں چند افراد پاکستان کا جھنڈا اٹھا کے آ جاتے ہیں جسے پاکستان کا سرکاری کنٹرولڈ میڈیا خوب نشر کرتا ہے۔
کشمیر ایک قوم کی تعریف پر اترنے والے تمام تقاضے پورا کرتا ہے
“مختلف نسلوں ' ذاتوں ' برادریوں ' قبیلوں ' مذاھب کے لوگوں کو جو زمین کے ایسے خطے میں رھتے ھیں ' جہاں انکی ایک جیسی زبان ' ایک جیسی ثقافت اور ایک جیسی روایات ھوں۔ انہیں ایک قوم کہا جاتا ھے”
لغت میں قوم کی اس تعریف پر کشمیری پورا اترتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ وہ تین ملکوں میں تقسیم ہیں۔ پاکستان، چین اور بھارت نے کشمیر کو تقسیم کیا ہوا ہے۔ مگر ملکوں میں تقسیم کشمیری قوم کی تقسیم کے مترادف نہیں ہے۔
کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو بڑا نقصان مذھبی عناصر نے “کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعرہ سے دیا ہے۔ 1980 کی دھائی کے دوران سے لگنے والا یہ نعرہ بھارتی سامراج کو اس تحریک کو کچلنے کا بار بار موقع فراھم کرتا ہے۔ اس سے قبل مقبول ترین نعرہ کشمیری عوام کے حق خودمختاری کی حمائیت اور ایک ریفرنڈم کے ذریعے کشمیری عوام کی رائے جاننے کا تھا۔
پاکستانی ریاست کشمیریوں کے لئے کوئی مثالی ریاست اس وقت ہی بن سکتی ہے جب پاکستان کے اندر میڈیا پر قدغن نہ ہو، حقیقی جمھوری آزادیاں ہوں، بات کرنے کی آزادی ہو، وہ نہ ہو جو وزیرستان میں ہو رھا ہے۔ اور عوام خوشحالی کی جانب گامزن ہوں۔ ایک جابر ریاست دوسری قوم کی آزادی کی بات کرتے اچھی نہیں لگتی۔
کشمیر کی آزادی مسلح جدوجہد سے بھی نہیں جڑی ہوئی۔ بھارتی سامراج کی کشمیریوں پر ظلم وستم کی انتہا بدلے کی آگ سلگاتی رھتی ہے۔ بندوق کا جواب بندوق سے دینے کا جذبہ ابھرتا ہے۔ مگر تاریخ کا یہ سبق ہے کہ مسلح جدوجہد وقتی فتح سے ہی دوچار کر سکتی ہے، لاکھوں کروڑوں عوام کی عوامی تحریک، جلسے جلوس، دھرنے، ہڑتالیں اور پہیہ جام ہی مضبوط ترین ظالم ریاستوں کو شکست سے دوچار کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
وہ سیاسی عناصر بھی اپنے تجربوں سے یہ تلخ حقیقت جان چکے ہوں گے کہ بھارت کی ریاست کا حصہ رھتے ہوئے کشمیر کاز کو فروغ نہیں دیا جا سکتا ۔ وہ بھارت کے اندر رھتے ہوئے کشمیریوں کے جمھوری حقوق کو حاصل کرنے کی غلط جستجو میں ان سے مکمل تعاون کرتے رھے۔
کشمیر کا حل کشمیریوں کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں۔ ہم چاھتے ہیں کہ کشمیر سے افواج کو خارج کیا جائے۔ کشمیریوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جو کشمیر کے ہر حصہ میں ایک جمھوری ریفرنڈم کا انعقاد کرے اور کشمیریوں سے ہی رائے لی جائے کہ وہ کیا کرنا چاھتے ہیں؟ بھارت کے ساتھ یا پاکستان کے ساتھ رھنا چاھتے ہیں یا پھر ایک آزاد کشمیر کی تعمیر کرنا چاھتے ہیں۔ یہ تبھی ممکن ہے جب کشمیر کے ہر جانب ایک بڑی عوامی بغاوت کشمیریوں کو انکے اپنے مستقبل کو بنانے کا اختیار دینے پر ہر ملک کو مجبور کر دے۔