20 مارچ کو خوشی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس تحریک کی ابتدا یو این(UN) کے سپیشل ایڈوائزر جیم ایلن( jayme illien) نے 2006 میں کی اس کا مقصد تھا کہ ہم سب اپنے اختلافات کو بھولا کر ایک دوسرے کو خوش کریں اور پوری دنیا میں ایسی تحریک چلے کہ سب خوشیاں پھیلانے کا باعث بنیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوشی کیا ہے۔کیونکہ ہم اکثر لوگوں کو کہتے سنتے ہیں کہ مجھے خوشی چاہیئے ۔لیکن وہ خوشی کب،کہاں،کیوں،کیسے،کون دے گا کوئی نہیں اندازہ لگا سکا۔ اور یہی اس دن کا مقصد ہے کہ ہم سب جہاں جہاں ہیں کوشش کریں خوشی پھیلائیں،کسی کی دل آزاری نہ کریں ،کسی کو تکلیف نہ دیں۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانٹیں۔ جیسے کسی یتیم بچے سے پیاروشفقت سے پیش آنا۔ اسے یہ سب کتنا خوشی دے سکتا ہے آپ اندازہ نہیں لگا سکتے۔ بالکل اسی طرح ایک فرم میں کام کرنے والے ورکر کی اپنے مالک کی طرف سےحوصلہ افزائی اسے بے حد خوش کر سکتی ہے اور اسی خوشی سے ہی اسکی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ آپ کی ایک تعریف سے اگر کوئی خوش ہوتا ہے تو ضرور کریں۔ایک جوکر(مزاحیہ فنکار) سے کسی نے پوچھا کہ آپکو ایک پروگرام سے اتنا آمدن بنتی ہے کیا کہ آپ کا گھرانہ چل سکے۔ وہ مسکراے اور جواب دیا کہ میں پیسوں کی خاطر فن نہیں کرتا۔ بلکہ میرا مقصد ان ہزاروں لوگوں کے چہرے پہ خوشی لانا ہوتا ہے۔ جو مجھ سے یہ امید کرکے آتے ہیں کہ میں ان کے چہروں پر خوشیاں بکھیر سکتا ہوں۔ اب انہیں خوش کرنا میرا فرض بن جاتا ہے اور میں اسے نبھانے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ میری خوشی بکھیرنے کی کوشش مجھے پیسوں سے زیادہ خوشی دیتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ خوش ہونا سب جانتے،سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ لیکن سب کی خوشی کا معیار ایک جیسا نہیں ہوتا۔اس کے لیۓ ایک مثال لیتے ہیں کہ دو لوگوں کی پاس ایک ہی ماڈل کی گاڑی ہوتی ہے۔ لیکن ایک مطمئن ہوتا ہے اس لیے خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرا اس لیۓ سکون میں اور خوشی میں نہیں ہوتا کہ اس سے زیادہ اچھی گاڑی کی خواہش خوش نہیں ہونے دیتی ۔خوش ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہر چھوٹی بڑی چیز میں سے کیڑے نہ نکالے جائیں۔ اسی لیۓ خوشی کا عالمی دن تجویز کیا گیا کہ ہم اپنی زندگی میں خوشیاں لائیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کریں ۔جیسے کسی کو آپ کی مدد کی ضرورت ہو تو اسکی مدد کر کے اس کے چہرے پہ مسکان لائی جا سکتی ہے۔اگر کوئ غمزدہ ہو تو اسکے غم میں شریک ہو کر اسکا بوجھ ہلکا کیا جا سکتا ہے۔اگر کوئی بھوکا ہے تو کھانا کھلا کر اسکی خوشیوں کو واپس لوٹایا جا سکتا ہے۔اس معاملے میں انسان کو خود غرض نہیں ہونا چاہیئے ۔ اکثر ایسے لوگوں سے زندگی میں آ پ کا بھی واسطہ پڑا ہوگا۔ جو سکون اور خوشی کی خواہش رکھتے ہیں لیکن دوسروں کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ یہ جانتے ہوۓ بھی کہ اس دنیا میں سب عارضی ہے اس حقیقت کو جھٹلاۓ ہوۓ کہ جیسے ہمیں حق اور اختیارات ہیں ویسے ہی سب کو ہیں۔ اسی لیے اس دن کو یہ پیغام لیے منایا جاتا ہے کہ ہم نفرتوں کے پہاڑ پروان چڑھانے کی بجاۓ امن و خوشی کا پیکر بنیں۔اور درج بالا باتوں پر عمل کرکے ہم بھی خوشی پھیلانے والوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
1)اگر آپ چڑچڑے اور اکتاے ہوۓ ہوں تو دوسروں پر چلانے سے بہتر ہے اپنی روٹین میں تبدیلی لائیں۔ بچوں کو وقت دیں،فیملی یا دوستوں کے ساتھ آؤٹنگ پر جائیں۔
2)اپنی نعمتیوں پر غور کر کہ شکر ادا کریں۔
3)آ پ کی مسکراہٹ اگر کسی کے چہرے کا غم مٹا سکتی ہے تو ضرور مسکرائیں۔
4)اگر پڑوس میں کوئی پریشانی ہو تو انکی پریشانی کو ُبانٹنے جائیں۔
آسان زندگی نہیں اور دوسروں کیے لیۓ آسانی پیدا کریں۔
اس طرح دوسروں کے غم بھلانے اور محبتوں کی وجہ بن جائیں۔
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...