زیر طبع ( In Press )
کیوں ہوئے خَوار و زَبوں ( تیرہ وجوہات ؛ کیوں Th1rteen R3asons Why )
ناول ؛ جے ایشر ( Jay Asher )
باب اول
”سر ؟“ ،لڑکی نے دوہرایا ، ”آپ کیا چاہتے ہو کہ یہ کتنی جلدی وہاں پہنچ جائے؟“
میں اپنی بائیںاَبرو کو دو انگلیوں کے ساتھ زور سے رگڑتا ہوں۔اس کی پھڑک اور تیز ہو گئی ہے ۔ ” اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔“ ، میں کہتا ہوں ۔
کلرک ڈبہ لیتی ہے ۔یہ وہی جوتے کا ڈبہ ہے جسے ، ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہ ہوئے تھے کہ اسے میرے گھر کے پورچ میں رکھا گیا تھا ؛ اورجسے دوبارہ سے خاکی کاغذ میں لپیٹ کر اس پر ویسے ہی شفاف ٹیپ لگائی گئی تھی ، جیسے میں نے اسے پایا تھا۔لیکن اس بار اس پرایک نیا نام اور پتہ ہے ۔ یہ ہانا بیکر کی فہرست کا اگلا نام ہے ۔
”بیکر کے درجن پھر لوگ ۔“ ، میں منہ میں بُڑبڑاتا ہوں ۔ اور پھر مجھے اس بات پر غور کرنا ،ناگواری کا احساس دلاتا ہے ۔
” معاف کرنا ، جناب، مجھ سے کچھ کہا ؟“
میں نفی میں سر ہلاتا ہوں ۔ ”کتنے پیسے لگیں گے ؟“
وہ ڈبے کو ایک ربڑ پیڈ پر رکھتی ہے اور اپنے ’ کی پیڈ‘ پر ایک ترتیب سے بٹن دباتی ہے ۔
میں پٹرول پمپ سے لیے کافی کپ کو کاﺅنٹر پر رکھتا ہوں اور سکرین پر نظر ڈالتا ہوں ۔میں اپنے بٹوے سے کچھ نوٹ نکالتا ہوں اور جیب سے کچھ سکے تلاش کر تا ہوں اور یہ سب کاﺅنٹر پر رکھ دیتا ہوں ۔
” مجھے لگتا ہے کہ کافی نے تاحال اثرنہیں کیا ہے۔“ ، وہ کہتی ہے ، ” ایک ڈالر کم ہے ۔“
میں اسے ایک ڈالر اور دیتا ہوں اور آنکھیں مل کر نیند کو بھگانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میں جب کافی کی چسکی لیتا ہوں تو یہ مجھے نیم گرم لگتی ہے اور اسے یوں اندر انڈیلنامشکل ہے ۔لیکن مجھے ضرورت ہے کہ میںکسی نہ کسی طورجاگتا رہوں ۔
یا شاید نہیں ہے ۔شاید یہی سب سے بہتر ہے کہ سارا دن غنودگی میں ہی گزارا جائے ۔شاید یہی ایک طریقہ ہے کہ دن یونہی گزرجائے ۔
” اس پیکٹ کو کل اس پتے پر پہنچ جانا چاہیے ۔ “ ، وہ کہتی ہے ، ”یاشاید پرسوں پہنچے ۔“ ، اور پھر وہ ڈبے کو اپنے پیچھے پڑی ٹوکری میں ڈال دیتی ہے ۔
مجھے سکول کے بعد تک انتظار کرنا چاہیے ۔مجھے جینی کو ایک اور دن ، آخری دن، شانتی سے رہنے دینا چاہیے۔
گو وہ اس کے لائق نہیں ہے ۔
وہ جب کل گھر پہنچے گی یا پرسوں تو وہ یہ ڈبہ اپنے گھر کے دروازے کے قدمچے پر پڑاپائے گی ۔ یا پھر۔۔۔ اگر اس کی ماں یا والد یا کوئی اوراسے پہلے پا لیتا ہے تو یہ اسے اپنے بسترپر رکھا ملے گا ۔اور وہ جوش سے بھر جائے گی ۔ میں بھی جوشیلا ہو گیا تھا۔ایک پیکٹ جس پر بھیجنے والے کا پتہ نہیں ؟ کیا وہ لکھنا بھول گئے تھے ، یا انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا ؟ شاید کسی خفیہ چاہنے والے بھیجا ہو ؟
” کیا آپ کو اپنی رسید چاہیے ؟“، کلرک پوچھتی ہے ۔
میں نفی میں سر ہلا دیتا ہوں ۔
ایک چھوٹا پرنٹر آواز پیدا کرتا ہے اور ایک رسید باہر نکال ہی دیتا ہے ۔ میں ،اسے دنتیلے پلاسٹک کے پاس سے پھاڑتے ہوئے اور پھررسید کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔
اس قصبے میں ایک ہی ڈاکخانہ ہے ۔میں سوچتا ہوں کہ اسی کلرک نے ، فہرست میں موجود دوسرے لوگوں کی بھی مدد کی ہو گی ، وہ جنہیں یہ پیکٹ مجھ سے پہلے ملا ہو گا ۔ کیا انہوں نے اپنی اپنی رسیدیں بُری نشانی کے طورسنبھالی ہوں گی؟کیا اسے ان درازوں میں سے کسی ایک میں رکھ دیا ہو گا ، جن میں وہ اپنے زیرجامے رکھتے ہیں ؟کیاانہوں نے اسے کارک بورڈ وں پر پِن سے لگا یا ہو گا ؟
میں اپنی رسید مانگنا چاہتا ہوں ۔ میںیہ کہتے کہتے رک جاتاہوں ، ” معاف کرنا ، کیا میں اسے لے سکتا ہوں ؟“،ایک یاددہانی کے طور پر ۔
لیکن ، اگر مجھے اسے یاد ہی رکھنا ہوتا تو میں ان کیسٹوں کی کاپیاں بنا لیتا یا نقشہ محفوظ کر لیتا ۔لیکن میں ان کیسٹوںکو دوبارہ ،کبھی بھی نہیں سننا چاہتا ، گو اُس کی آواز میرے دماغ سے کبھی نہ نکل پائے گی ۔ اور مکان ، گلیاں، سڑکیں اور ہائی سکول ، ہمیشہ اپنی اپنی جگہ پرموجود رہیں گے اور مجھے اس کی یاد دلاتے رہیں گے ۔
اب یہ میرے اختیار میں نہیں رہا ۔ پیکٹ اپنی راہ پر جا چکا ہے ۔ میں رسید لیے بغیر ڈاکخانے سے باہر نکل آتا ہوں ۔
میری بائیں اَبرو کے پیچھے گہرائی میں میرا دماغ ابھی بھی ابُل رہا ہے ۔کافی کے ہر گھونٹ کا ذائقہ پہلے سے زیادہ کسیلا ہوتا جا رہا ہے ۔ میں ، جوں جوں سکول کے قریب ہو رہا ہوں، تُوں تُوں مجھے لگتا ہے کہ میں گرپڑوںگا ۔
میری خواہش ہے کہ میں واقعی میں ڈھے جاﺅں ۔ میں وہیں سڑک کے ساتھ بنی راہداری گر جانا اور خود کو گھسیٹ کر عشق پیچاں کی بیل میں چھپا لینا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اس بیل کے بعد راہداری مُڑ تی ہے اور سکول کے پارکنگ والے حصے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہے ۔ یہ سامنے والے صحن کو کاٹتی مرکزی عمارت تک جاتی ہے ۔ آگے یہ پٹڑی سامنے کے دروازے سے ہوتی اس راہداری میں بدل جاتی ہے جس کے دونوں اطراف میں ’ لاکرز‘ اور تدریسی کمروں کی قطاریں ہیں ۔یہ بالآخر گھومتی گھماتی اس دروازے میں جا گھستی ہے جو ہمیشہ کھلا رہتا ہے اورجہاں پہلا پیریڈ لگتا ہے ۔
کمرے میں سامنے کی طرف ،مسٹر پورٹر کا ڈیسک ہے اور اس کا رُخ طلباء کی طرف ہو گا ۔ مسٹر پورٹر ، جنہوں نے یہ پیکٹ سب سے آخر میں وصول کرنا ہے اور اس پر بھی کسی بھیجنے والے کا پتہ درج نہیں ہو گا ۔ اور کمرے کے وسط میں ، بائیں طرف ایک ڈیسک چھوڑ کر ہانا بیکر کا ڈیسک ہو گا ۔
لیکن یہ خالی ہو گا ۔
٭
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...