(Last Updated On: )
بچّو! ایک زمانہ تھاکہ بچے رات کے ہونے کا انتظار بڑی شدت سے کیا کرتے تھے، نہ ٹیلیویژن تھا نہ موبائل فون اور ناہی ایسا کوئی ذریعہ جس سے تفریح کے سامان فراہم کیے جاسکیں، ان کی تفریح کا واحد ذریعہ تھا کہانی جو دادی، نانی، امّی ، بڑی بہن، ددھیال میں پھوپھیاں اور ننھیال میں خالائیں تھیں جو رات کو گھر کے تمام بچوں کو کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ بچے رات ہوتے ہی اس انتظار میں رہتے کہ کب دادی یا نانی اپنے کاموں سے فارغ ہوں تو وہ بستر پر آئیں اور ہمیں کہانیاں سنائیں۔ ایسے میں وہ کبھی کبھی بچوں کو ڈانٹ بھی پلا دیتیں کہ کیا ہم عشاء کی نماز بھی نہ پڑھیں بس تم کو پہلے کہانی سنا دیں ۔ غرض بڑی خوشامد اور انتظار طلب مراحل سے گزر کر دادی یا نانی امّاں کہانی سناتیں ۔ جب کبھی کہانی سنانے کا دل نہ چاہتا تو پھر پہیلیوں، دو سخنوں اور کہہ مکرنیوں کا دور شروع ہوتا۔ یہ پہیلیاں صرف تفریح کا سامان نہیں تھیں بلکہ زبان سکھانے اور دماغی و ذہنی ورزش کا بہترین ذریعہ تھیں یہی وجہ ہے کہ گھر کی بڑی بوڑھیاں بچوں کو تہذیب سکھانے کی تمام تر ذمہ داری نبھایا کرتی تھیں۔ اس طرح بچے اپنے بزرگوں کے سائے میں پروان چڑھتے اور زندگی کے بہت سے اسباق بغیر کسی کی مکتب یا اسکول جائے سیکھ جاتے تھے۔
پہیلیاں قدیم زمانے سے زبان و ادب اور تہذیب کا حصہ رہی ہیں۔ یہ دو طرح کی ہوتی ہیں نثری پہیلی اور منظوم پہیلی۔
پہیلی کہتے کسے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ میں پہیلی کی تعریف یوں کی گئی ہے۔ ” کسی قسم کا اتا پتا، خواہ نظم میں خواہ نثر میں بتا کر اُس چیز کا نام پوچھنا۔ ” اسی بات کی اس لغت کی پہلی جلد کے دیباچے میں وضاحت اس طرح کی گئی ہے : ” پہیلی میں کسی چیز کے اوصاف وخصائص اور پتے بیان کر کے، مخاطب سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جس میں اتنے وصف ہیں۔ پہیلی میں یہ بڑی خوبی کہلاتی ہے کہ اس چیز کا نام بھی آجائے اور مخاطب نہ سمجھے۔ ” یہ تو تھا پہیلوں کا مختصر تعارف تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ پہیلیاں ہوتی کیا ہیں۔ اردو میں پہیلی کو ” بُجھارَت ” اور ” بُجھَوَّل ” بھی کہتے ہیں۔ مگر زیادہ مشہور اور مستعمل لفظ ” پہیلی ” ہے۔ فارسی میں اِسے ” چیستاں ” اور گِرد ” کہتے ہیں۔
پہیلیاں بھی ادب کا حصہ ہوتی ہیں۔ بہت سے شعراء نے اپنے کلام میں پہیلیاں بھی کہی ہیں۔ جیسے انشاء اللّٰه خاں انشاء، منیر شکوہ آبادی وغیرہ۔ آج بھی پہیلیاں ہمارے ادب کا حصہ ہیں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا پہیلیاں خیال کو جلا بخشنے میں اور ذہن میں جستجو اور دریافت کا عنصر پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔ ان سے تفتیش اور غور و فکر کے عناصر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ذہن میں سوالیہ نشان پیدا کرتی ہیں اور ان کو حل کرنے کی صلاحیت کو جگایا کرتی ہیں جو کہ ایک بڑی صفت ہے۔
زیر نظر کتاب میں تقریباً پچاس سے زیادہ مختلف موضوعات ، محاوروں کہاوتوں ، جانوروں اور سائنسی اشیاء پر منظوم پہیلیاں ہیں ۔ دراصل میں نے اپنی تدریس کے دوران ان پہیلیوں کو معاون درسی مواد کے طور پر خوب استعمال کیا اور محسوس کیا کہ تدریس کو دلچسپ بنانے میں پہیلیاں معاون درسی مواد کا بہترین ذریعہ ہیں اس سے بچوں میں تجسس کے ساتھ ساتھ سوالات کو حل کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے بچہ کسی بھی مشکل سوال سے گھبراتا نہیں بلکہ اس کو خود حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اس میں تفتیشی اور غور و فکر کی صلاحیت بڑھتی ہے۔اس مقصد میں پہیلیاں بہت معاون ثابت ہوئی ہیں۔ ابتدا میں میرا مقصد اپنے طلباء کے تدریسی عمل کو دلچسپ بنانا تھا بعد میں جب پہیلیوں کی تعداد اچھی خاصی ہوگئی تو ان کو میں نے شائع بھی کرایا تاکہ دوسرے بچوں کو بھی اس سے فائدہ پہنچے میرا مقصد بچوں میں اردو زبان سے دلچسپی کو فروغ دینا ہے یہی وہ عمل ہے جس کی تحت میں نے بچوں کے لیے مختلف موضوعات پر پہیلیاں اور نظمیں کہی ہیں۔
****
ارشاد احمد ارشاد