ٹائیٹل پڑھ کر حیران مت ہوں نہ ہی میں نے کوئی گالی دی ہے اور نہ ہی کوئی غیر اخلاقی بات کی ہے۔ دراصل کچھ روز قبل چین کی ایک کمپنی جو لوگوں کے انتقال پائے پالتو جانوروں کی کلوننگ کرتی ہے، نے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ کمپنی کا نام ہے Sinogene Biotechnology Company اور یہ بیجنگ چائنہ میں کام کرتی ہے۔ اس کمپنی نے ایک مردہ بھیڑیا مایا کا کلون بنایا یے۔ یہ بھیڑیا آرکٹیک یعنی شمال قطبی علاقے جس میں کینیڈا شامل ہے، وہاں پیدا ہوا تھا اور 2006 میں اسے لایا گیا۔ یہ 2021 میں چل بسا۔ چونکہ ایسے برفانی بھیڑیا معدوم ہوتی نسل یے اس لیے اس کمپنی نے ارادہ کیا کہ اس بھیڑیا کو کلون کیا جائے۔
کلوننگ ایک ایسا طریقہ کار یے جسکی مدد سے ایک جاندار کی ہو بہو کاپی بنائی جاتی ہے یوں کہ اُسکا ڈی این اور جینز سب اصل سے مطابقت رکھتی ہوں۔ فطرت میں بھی کئی جاندار کلوننگ کرتے ہیں مثال کے طور پر بیکٹریا یا وہ جاندار جو بغیر جنسی عمل کے بچے پیدا کرتے ہیں۔ کلوننگ کا واضح طریقہ کار 1996 میں سکاٹ لینڈ کے ایک ساننسدان نے وضع کیا اور اس طریقہ کار سے دنیا کی پہلی بھیڑ ڈولی پیدا کی (گو پہلا کولونڈ جانور 1958 میں آکسفورڈ کے پروفیسر جان گرڈن نے ایک مینڈک بنایا) مگر اس طریقے کو بہتر 1996 کے بعد کیا گیا۔
خیر کلوننگ میں جانور کے خلیے سے ڈی این اے نکال کر اُسے اُس جانور کی مادہ کے انڈے میں نیوکلیس اور ڈی این اے کی جگہ منتقل کیا جاتا ہے اور یوں اسکی افزائش اُس مادہ کی بچہ دانی میں کی جاتی ہے۔ یوں نیا پیدا ہونے والا جانور ہو بہو اصل جانور کی کاپی ہوتا ہے۔
چونکہ کتیا اور بھیڑیا کے ڈی این اے میں کافی مماثلت ہوتی ہے لہذا چائنہ کی اس کمپنی میں مایا نامی بھیڑیا کی کلوننگ ایک کتیا کے اندر کی اور اسکے کئی انڈوں میں اسکا ڈی این اے ڈالا جن میں سے ایک سے نیا بچہ پیدا ہوا جسکا نام بھی مایا رکھا گیا۔
اس بھیڑیا کو کچھ عرصہ نگہداشت میں رکھ کر آرکٹیک علاقے میں دیگر بھیڑیوں کے غول میں احتیاط سے چھوڑا جائے گا۔اس طرح کا تجربہ ایک اُمید ہے کہ اس طرح سے ہم جانوروں کی معدوم ہوتی نسلوں کو بچا سکیں۔
نابغہ روزگار شخصیات کی وفات کی تواریخ
نابغہ روزگار شخصیات کی وفات کی تواریخ : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 🕳️سید عابد علی عابد: 20 جنوری 1971ء 🕳️ناصر کاظمی :2/ مارچ...